جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی باتیں ایک بار پھر زوروشور سے شروع ہوچکی ہیں ، ان کا آغاز سینٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی کے خطاب سے ہوا ، جس میں انہوں نے مختلف تاریخی واقعات کے تنا ظر میں یہ بات کہنے کی کوشش کی کہ ان کے دور میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لئے کتنی سنجیدہ کوششیں کی گئیں ،اسمبلیوں میں قراردادیں اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اس معاملہ پر مذاکرات اس دورمیں تسلسل کے ساتھ کئے جاتے رہے ،پھرانہوں نے تحریک انصاف پر بھی تنقید کی ،جس نے صوبہ بنانے کی بجائے علیحدہ سیکرٹریٹ بنانے کا فیصلہ کرکے اس علیحدہ صوبہ کی تحریک کو نقصان پہنچایا۔
سید یوسف رضا گیلانی یہ باتیں ایک ایسے موقع پر کیں ،جب پنجاب میں بلدیاتی انتخابات قریب آرہے ہیں اور جنوبی پنجاب میں صرف وہی جماعت کامیابی حاصل کرسکے گی ،جو علیحدہ صوبہ کا نہ صرف وعدہ کرے ،بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنے کا بھی اعلان کرے، یوسف رضا گیلانی کے اس دھواں دار خطاب کی وجہ سے ایک ہلچل سی مچ گئی اور سیاسی سطح پر یہ معاملہ جو کہ بڑی حدتک سرد مہری کا شکار ہوگیا تھا ،ایک بار پھر پوری طرح سیاسی منظر پر چھا گیا۔
سوال یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے صوبے کی بات کرنے کے لئے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا ،اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ؟ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اس ایشو پر جنوبی پنجاب میں سیاست کرنا چاہتی ہے ،کیونکہ جب بلاول بھٹو زرداری یہاں دورے پر آئے تھے ، تو انہوں نے سرائیکی صوبہ کے حوالے سے کھل کر باتیں کی تھیں اور اس موقف کو دھرایا تھا کہ پیپلزپارٹی علیحدہ صوبہ کے حق میں ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی ہرممکن کوشش کرے گی ، چونکہ 27 فروری سے پیپلزپارٹی ایک لانگ مارچ کا اعلان کرچکی ہے اور اس کے لئے جو چھ رکنی انتظامی کمیٹی بنائی گئی ہے، اس کے سربراہ سید یوسف رضا گیلانی ہیں ،اس لئے انہوں نے جنوبی پنجاب کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے سینٹ میں اس ایشو کو ایک بار پھر زندہ کیا ہے، تاکہ جنوبی پنجاب کے لوگوں میں نہ صرف ان کے بلکہ پیپلزپارٹی کے لئے بھی حمایت کے جذبات پیدا ہوسکیں۔
ان کی اس تقریرکے بعد جس میں انہوں نے شاہ محمود قریشی کا بھی ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے علیحدہ صوبہ کے لئے جو وعدے کئے تھے ،وہ پورے نہیں کئے ،تو اس پر شاہ محمود قریشی کو بھی اس معاملہ میں متحرک ہونا پڑا اور وہ بھی مسلسل یہ بیانات دے رہے ہیں کہ علیحدہ صوبہ تحریک انصاف ہی بنائے گی اور اس کے لئے جس سطح پر بھی جانا پڑا ،تحریک انصاف کی حکومت اس سطح تک جائے گی ،ملتان میں انہوں نے میڈیا کو وہ خطوط بھی جاری کئے جو انہوں نے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کو لکھے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں حکومت کے ساتھ مل بیٹھیں اور علیحدہ صوبہ بنانے کے لئے جو آئینی ترمیم درکار ہے ،اسے روبہ عمل لانے میں تعاون کریں۔
اب یہ ایک دلچسپ سیاسی صورتحال ہے ،ٹہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر ،یوسف رضا گیلانی نے پھینکا ، اس کے ارتعاش کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی میدان میں کود پڑے ،حالانکہ اس سے پہلے انہوں نے یا ان کی جماعت نے کبھی اس قسم کی کوشش نہیں کیں ،جو جنوبی پنجاب صوبہ کے لئے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کی گئی ہوں ،یہ اچانک خیال اس لئے آیا کہ یوسف رضا گیلانی نے سینٹ میں جنوبی پنجاب صوبہ پر تقریر کرکے ماحول کو گرمادیا ہے۔
ان کی تقریر کے بعد مسلم لیگ ن کے سینٹر رانا محمودالحسن نے اس سے بھی آگے بڑھ کر جنوبی پنجاب صوبہ کے لئے آواز بلند کی ہے ، ایک بڑا مسئلہ جنوبی پنجاب صوبہ کے نام کے حوالے سے رکاوٹ بنتا ہے ،سنیٹر رانا محمود الحسن، سرائیکی بولنے والے نہیں ہیں ، مگر انہوں نے سینٹ کے فلور پر یہ اعلان کرکےمقامی حلقوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا کہ صوبہ کا نام چاہے سرائیکی ہو یا سرائیکستان ،اسے بننا چاہئے ،اگر پنجاب ،سندھ ،بلوچستان، خیبرپختونخواہ زبانوں کے ناموں پر بن سکتے ہیں ،تو سرائیکی صوبہ بنانے میں کیا ہرج ہے۔ یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے کہ ایک نان سرائیکی سینٹر نے سرائیکی صوبہ کے نام پر مخالفت نہ کرنے کا اعلان کیا۔
اس پر جنوبی پنجاب میں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے اور وہ طبقے جو لسانی بنیاد پر صوبہ بنانے کے حق میں نہیں ہیں ،وہ رانا محمودالحسن کی اس بات کو ہدف تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں ،مگر ان سب باتوں کے باوجود اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کررہا اور سب متفق ہیں کہ علیحدہ صوبہ بنناچاہیے، اب یہ مطالبہ اتنا حقیقی رخ اختیار کرچکا ہے کہ اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی ،جو حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں ،اس معاملہ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور انہوں نے فرنٹ فٹ پر آکر سید یوسف رضاگیلانی اور اس چھکے کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ،جوانہوں نے سینٹ کے فلور پر لگایا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ شاہ محمود قریشی نے یہ خطوط ذاتی حیثیت میں لکھے ہیں ،یا پارٹی نے انہیں اس کی ہدایت کی ہے ، اصولاً تو یہ خطوط پارٹی کے چئیرمین عمران خان کی طرف سے لکھے جانے چاہئے تھے ،جو ملک کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں ،کیونکہ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو کسی جماعت کا وائس چئیرمین اتنے بڑے ایشوپر خطوط لکھے گا ،تو اسے غیرسنجیدہ کوشش ہی قراردیا جائے گا ،تحریک انصاف کی جانب سے کوئی ایسا سرکاری اعلان نہیں آیا، جس میں کہا گیا ہو کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو صوبہ کے ایشو پر مذاکرات کی پیش کش کی گئی ہے ،یہ صرف ایک سیاسی حربہ نظر آتا ہے ،جو اس فضا کو زائل کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے ،جو سید یوسف رضا گیلانی اور سینٹر رانا محمودالحسن کی تقریروں کے بعد پیدا ہوئی ہے۔
بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو ،آنے والے انتخابات میں چاہے وہ بلدیاتی ہوں یا عام انتخابات ،جنوبی پنجاب کی سیاست علیحدہ صوبہ کے گرد ہی گھومے گی اور کوئی سیاسی جماعت اس مطالبے سے صرف نظر نہیں کرسکے گی ،تحریک انصاف کو نقصان یہ ہے کہ وہ اپنے عہداقتدار میں سیکرٹریٹ بنانے پر تو بڑی شدومد سے کام کرتی رہی ،مگر علیحدہ صوبہ بنانے کے لئے اس نے سیاسی جماعتوں سے کوئی مشاورت کی ،ان کے ساتھ مذاکرات کئے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی قرارداد اسمبلیوں میں پیش کی ،جو اس بات کا اظہارہے کہ تحریک انصاف ،سو دن میں علیحدہ صوبہ بنانے کا جو وعدہ کرکے اقتدارمیں آئی تھی ،اسے عملی جامہ پہنانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ،ناکامی کے اس داغ کو دھونے کے لئے اب کچھ بھی کیا جائے ، مگراس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ تحریک انصاف علیحدہ صوبہ بنانے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکی۔
سیدیوسف رضا گیلانی نے چونکہ جنوبی پنجاب میں سیاست کرنی ہے اور ان کے پاس سب سے بڑا سیاسی ایشو جنوبی پنجاب صوبہ ہے ،اس لئے انہوں نے بڑے مناسب وقت پر اس مسئلہ کو ہوا دی ہے ،جس کا توڑ کرنے کے لئے شاہ محمود قریشی اگرچہ میدان میں آچکے ہیں اور انہوں نے بال دونوں سیاسی جماعتوں کے کورٹ میں پھینک دی ہے ،مگروہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہ ان کا ایک جوابی حملہ ہے ،ہاں اگر وہ اس سے پہلے اس طرح کے خطوط سیاسی جماعتوں کو لکھتے ،تو پھر اس معاملہ میں ان کا پلڑا بھاری ہوتا، دیکھنا یہ ہے کہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے اور جنوبی پنجاب صوبہ کے معاملہ پر سیاست چمکانے والے کب تک اس خطہ کے عوام کو اسی طرح بے وقوف بناتے ہیں ۔