• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعظم پُراعتماد: اِنہیں کسی عدم اعتماد کی پروا نہیں

نئے سال 2022 میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ اولین موقعہ تھا کہ وہ براہ راست فون کالز پرعوام کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے ۔ یہ سلسلہ گزشتہ برس وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے شروع کیا گیا تھا عوام سے ٹیلیفون لائن پر گفتگو کو کئی دن گزر چکے ہیں لیکن ان کی گفتگو کے بعض حصوں کی وجہ سے کئی باتیں ابھی تک تازہ ہیں اور زیر بحث بھی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کی جانب سے کئے گئے سوالوں کے جواب میں وزیراعظم کی یہ باتیں ایک ایسے وقت پر سامنے آئیں جب اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر دبائو میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے ملک میں اپوزیشن کی دو بڑی اور اہم جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کی کال دے رکھی ہے اور حکومت مخالف جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جس کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں اس میں شامل دیگر جماعتیں بھی اس احتجاج اور دھرنے میں شامل ہیں۔ 

پارلیمانی اپوزیشن وزیراعظم قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں پیش کرنے کے عزائم رکھتی ہے پھر دوسری طرف حکومتی جماعت سے بھی قیادت کے ساتھ اختلافات اور ناراضی کے واقعات کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں پہلے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پرویز خٹک کے ساتھ تنازعہ کی خبریں پھر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی نور عالم کی کھری کھری باتیں اور اب پاکستان تحریک انصاف کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات احمد جواد… کی جانب سے پارٹی پالیسیوں پر تنقید اور وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں پر الزامات لگانے کی پاداش میں احمد جواد کی پارٹی رکنیت ختم کر دی گئی تھی جس پر انہوں نے عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے یہ اور ملک بھر میں مہنگائی کی انتہائی بدترین صورتحال کے پیش نظر عوام کا حکومت اور وزیراعظم کی پالیسیوں پر شدید ردعمل گورنس کے معاملات ان سب نے مل کر وزیراعظم کو یقیناً شدید دبائو کا شکار کر رکھا ہے۔ 

جس کا اظہار کئی مواقعوں پر ان کے سوالوں کے جواب میں کی جانے والی گفتگو میں ہوا۔ مثلاً انہوں نے اپنی حکومت کے تین سال سے زیادہ کے عرصے میں پہلی مرتبہ یہ بات کی کہ ’’ اگر حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوں گا‘‘ گویا ان کے ذہن کے کسی گوشے میں اب یہ بات موجود ہے کہ انہیں قبل ازوقت حکومت سے باہر بھی آنا پڑ سکتا ہے اور یہی بات اپوزیشن بار بار کر رہی ہے اور ’’کافی عرصے سے کر رہی ہے‘‘ پھر انہوں نے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کی ناکامی جس کے نتیجے میں وہاں ان کے سب سے اہم سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو کامیابی حاصل ہوئی اس بارے میں یہ بھی کہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ اب میں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جس پر یہ گماں ہوتا ہے کہ ان کے قریبی رفقاء بھی ان کے نزدیک قابل بھروسہ نہیں۔ 

واضح رہے کہ متعدد امور ایسے ہیں جہاں پیش آنے والی خرابیوں کے بعد وزیراعظم انہیں اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کے قائدین جن میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کو بطور خاص ہدف بنایا جبکہ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری اور دیگر قائدین کا نہ صرف ذکر بھی نہیں کیا بلکہ خود کو ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا ہم پلہ بھی قرار دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں مہنگائی کا اعتراف کرتے ہوئے مہنگائی کی وجہ سے ’’اپنی شب بیداری‘‘ بھی بتائی لیکن صورتحال میں بہتری کے اقدامات پر نہ صرف کوئی بات نہیں کی بلکہ مہنگائی میں مزید اضافے کا مژدہ بھی سنایا۔ 

جواباً اپوزیشن کے رہنمائوں اور ترجمانوں نے بھی اس گفتگو کے حوالے سے وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا۔اس کے باوجود وزیراعظم بہت مطمئن اور پر اعتماد ہیں اورانہیں اپوزیشن کی طرف سے کسی عدم اعتماد کی بھی پرواہ نہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن میں شامل وہ جماعتیں جن کی پارلیمان میں واضح اکثریت ہے اور وہ بھی عددی اعتبار سے زیادہ نمائندگی نہیں رکھتے بہت زیادہ پراعتماد ہیں کہ موجودہ صورتحال میں اگر اب وزیراعظم قومی اسمبلی کے سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے تو وہ یقیناً کامیاب ہوگی اور اپوزیشن اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرے گی۔ 

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کے تلخ، ناخوشگوار ہونے کی حد تک غیر متوقع اور مایوس کن تجربات جس میں سینٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود صادق سنجرانی کی کامیابی اور قومی اسمبلی میں حفیظ شیخ کے مقابلے سید یوسف رضا گیلانی کی فتح کے باوجود اپوزیشن اب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بارے میں اتنی پراعتماد اور پرامید کیوں ہے۔ 

اس صورتحال کے بارے میں اپوزیشن کے قائدین واضح الفاظ میں اعلانیہ طور پر ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے پس پردہ کردار کو نتیجہ خیز قرار دیتے رہے ہیں لیکن اب اسے اپوزیشن کے قائدین کی خوش فہمی یا غلط فہمی یا پھر حقائق کا دراک سمجھ لیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب حکومت پس پردہ طاقتور حمایت سے تقریباً محروم ہوچکی ہے اور اس کی ایک بڑی مثال صوبہ خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست اور جے یو آئی کی کامیابی کو کسوٹی قرار دیا جاتا ہے اس لئے جب مریم نواز یہ کہتی دعویٰ کرتی ہیں کہ عمران خان رخت سفر باندھ لیں کیونکہ بات اب مہینوں کی نہیں بلکہ ہفتوں کی رہ گئی ہے تو اس تناظر میں ان کے دعویٰ پر یقین کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید