عائشہ آصف
تازہ دم سورج ایک بار پھر سے پوری توانائی کے ساتھ دنیا کو جگانے مشرق سے طلوع ہوا ،یہی اس کا کام تھا جو اللہ نے اس کے ذمہ لگایا تھا۔ اور وہ صدیوں سے اللہ کا حکم پوری ذمہ داری سے پورا کرتا آرہا تھا۔ ادھر دنیا والے جو اس کے انتظار میں تھے، اپنے اپنے کاموں پر لگ گئے۔ سورج نے آگے پیچھے نگاہ گھمائی تو اس کی نظر ایک خوب صورت سے باغ پہ جاکر ٹہر گئی ۔یہ باغ ایک اسکول کے سامنے بنا ہوا تھا۔ اس باغ کی بھی اپنی ہی شان تھی۔
یہاں پہ تقریباً ہر رنگ کے پھول موجود تھے، جن کی بھینی بھینی خوشبو باغ کو مہکاتی رہتی تھی ۔پر اس باغ کی اصل شان تو ایک گلاب کا پودا تھا جس پر بہت بڑے بڑے پھول کھلا کرتے، جسے دیکھ کر باغ میں آنے والے پرندوں اور انسانوں کے منہ سے بے ساختہ نکلتا"سبحان اللہ"۔آج بھی اس پودے پہ ایک بہت ہی بڑا اور پیارا سا گلاب کا پھول پوری شان سے کھلا تھا ،یہی وجہ تھی کہ سورج بھی ٹکٹکی باندھے اس پھول کو تکنے لگا۔
تھوڑی ہی دیر میں باغ میں ایک رنگ برنگے پروں والی نازک سی تتلی اڑان بھرتی داخل ہوئی جو اس نے گلاب کا خوب صورت پھول دیکھا تو سیدھی اس کے پاس پہنچی اور بولی "السلام علیکم ! کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟" پھول نے مسکرا کر جواب دیا"وعلیکم السلام! کیوں نہیں ،اللہ نے مجھے اس قابل بنایا۔ اللہ کا بڑا کرم ہے"۔
تتلی یہ سن کرپھول پہ احتیاط سے بیٹھی اور تھوڑا رس پی کر بولی"صبح گھر سے نکلی تھی کہ جلد سے جلد ناشتہ کر کے گھر لوٹ جاؤں گی۔ پتنگے بھیا نے بتایا تھا کہ آج بارش کا امکان ہے،سر اٹھا کر دیکھا تو پتہ چلا بادل آرہے ہیں۔ بارش میں کہیں بھیگ نہ جاؤں، پر یہ راستے میں جو اسکول پڑتا ہے نا وہاں کچھ دیر ہو گئی۔" یہ کہہ کر تتلی سانس لینے رکی توپھول نے پوچھا"اسکول میں کیسے دیر ہوگئی ؟
کہیں بچوں نے تنگ تو نہیں کیا؟" تتلی جلدی سے بولی ارے نہیں نہیں ! اس وقت تو ننھے منے پیارے پیارے بچے یونیفارم پہنے اسکول آرہے تھے ۔مجھے دیکھ کر خوش ہونے لگے۔ سچ پوچھو گلاب بھیا! مجھے تو ان بچوں کے خوشی سے دمکتے چہرے اپنے رنگ برنگے پروں سے بھی زیادہ پیارے لگ رہے تھے ۔ان کی خوشی کی خاطر اوپر ہی اوپر ان کے سروں پہ میں نے دو تین چکر لگائے پھر انھیں اللہ حافظ کہہ کر یہاں پہنچی۔ "یہ کہہ کر تتلی پھر رس پینے لگی ۔پھول اور سورج اس باتونی تتلی کو دیکھ کر مسکرا دئیے ۔
پھول نے تتلی کو مخاطب کیا اور کہا"تتلی بی ! یہ تو آپ نے بڑی نیکی کمائی، کسی کو خوشی دینا تو صدقہ ہے۔ اللہ تعالی کو بھی بہت پسند ہے" ابھی تو سورج ان کی اور باتیں بھی سنتا کہ بادل اس کے سر پہ آپہنچے اور باغ کے منظر اور سورج کے بیچ پردہ بن گیا اور موٹی موٹی بوندیں زمین پر برسنے لگیں۔
ادھر بی تتلی نے اڑنے کو پنکھ پھیلائے ہی تھے کہ آسمان سے مینہ برسنے لگا ۔وہ گھبرا کر بولی لو گلاب بھیا! بارش شروع ہوگئی، اب کیا ہوگا، میں بھیگ گئی تو اڑ نہیں پاؤں گی ۔اپنے گھر کیسے پہنچوں گی؟وہ رو دینے کو تھی کہ گلاب نے کہا "بی تتلی! اللہ نے مجھے بڑی بڑی پنکھڑیاں دی ہیں یہ کس دن کام آئیں گی ؟ آپ میری پنکھڑیوں کے نیچے سبز پتے پہ بیٹھ کر باغ پر بارش برسنے کا خوب صورت نظارہ کریں ۔ جب بارش رکے گی تو آپ اپنے گھر چلی جانا۔ اتنے میں ہم باتیں کرتے ہیں۔ تتلی جلدی سے پھول کے نیچے موجود پتے پہ سمٹ کر بیٹھ گئی اور گلاب سے باتیں کرنے لگی ۔
ادھر سورج پیچ وتاب کھانے لگا، اسے فکر تھی کہ بی تتلی کا کیا بنا ہوگا ؟اتنی پیاری اور مہربان تتلی کہیں بھیگ کر بیمار نہ ہو جائے،بالآخر کچھ دیر پانی برسا کر بادل آگے روانہ ہوئے تو سورج نے فوراً اپنی کرنیں زمین پر پہچائیں اور باغ میں دیکھنے لگا ،وہ تتلی کو ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ اچانک تتلی گلاب کے پھول کے نیچے سے برامد ہوئی اور پھول پر جا بیٹھی ۔سورج بے اختیار مسکرا دیا ،پھر اپنے ذکر پہ تو وہ اور کِھل اٹھا۔ تتلی کہہ رہی تھی"اللہ کاشکر! سورج نکل آیا ۔
اب میں اپنے گھر جا سکوں گی اور ہاں پھول بھیا !تمہارا بھی بہت شکریہ کہ تم نے میری مدد کی ورنہ تو میں آج بہت پریشان ہوجاتی "۔گلاب کا پھول عاجزی سے بولا"ہم پھولوں کی زندگی اللہ نے مختصر بنائی ہے، یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اس نے اس قابل کیا اور میں آپ کے کام آسکا۔ اصل شکر تو اس رب کا ہے "تتلی بولی" بے شک ! صحیح کہا آپ نے ۔زندگی رہی توکل پھر آؤں گی۔ اللہ حافظ"پھول نے بھی جھوم کر تتلی کو الودع کیا اور سورج نے وقت دیکھا اور تھوڑا آگے کھسک گیا ۔