• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر کے وسط میں واقع پیپلز میڈیکل ہسپتال کا ٹراما سینٹر اس وقت گیارہویں جماعت کے طالب علم عمران سولنگی کے لیے مقتل گاہ بن گیا، جب مسلح افراد نے اس پر گولیوں کی بارش کردی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا ۔ عمران سولنگی مورو سے میڈیکل رپورٹ بنوانے کے لیے آیا تھا، اس کے ساتھ اس کی والدہ بھی تھی، جس نے اپنے لخت جگر کو خاک و خون میں نہاتے ہوئے دیکھا۔ 

گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آواز دیر تک گونجتی رہی ،اسپتال میں بھگدڑ مچ گئی۔1000 بستر پر مشتمل شہر کے وسط میں واقع اسپتال میں اس وقت مریضوں کا اژدھام تھا، اس واقعہ نے سیکیورٹی کے بھی بے شمار سوالات کھڑے کر دیے، لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا، اس کا پس منظر یہ بتایا گیا کہ عمران سولنگی کی بہن کو چند ماہ قبل مورو میں اس کے گاؤں سے اغوا کیا گیا اور اس کا نکاح فراز سولنگی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ 

اس سلسلے میں عمران سولنگی اور اس کے گھر والے اس نکاح پر راضی نہیں تھے اور انہوں نے اس سلسلے میں پولیس میں درخواست دی ، جہاں پولیس نے چھاپہ مار کر عمران سولنگی کی بہن حنا سولنگی کو بازیاب کروایا اور پھر پولیس نے لڑکی کو مقامی عدالت میں پیش کیا ، جہاں حنا سولنگی نے بیان دیا کہ اس کا زبردستی نکاح پڑھایا گیا ہے اور وہ اس نکاح پر راضی نہیں ہے۔ 

حنا سولنگی کے اس بیان کے بعد پولیس نے عدالت کے حکم پر ہی حناسولنگی کو اس کے والدین کے حوالے کردیا اور حنا سولنگی کا بھائی عمران سولنگی جو کہ اس مقدمے میں فریادی تھا، اس اس کی میڈیکل رپورٹ ہونا تھی اور اس سلسلے میں یہ نواب شاہ پیپلز میڈیکل ہسپتال اپنی میڈیکل رپورٹ کرانے پہنچا، لیکن اسے کیا خبر تھی کہ موت کا فرشتہ بھی اس کے تعاقب میں اس سے پہلے پہنچ چکا ہے۔ 

عمران سولنگی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ابھی عمران کے میڈیکل ٹیسٹ ہو رہے تھے کہ ٹراما سینٹر کے وارڈ میں چند مسلح افراد داخل ہوئے اور انہوں نے عمران سولنگی پر گولیوں کی بارش کردی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ 

اس سلسلے میں نواب شاہ پولیس نے مقدمہ درج کرکے اس قتل میں ملوث ایک ملزم فرحان سولنگی، جس نے مقتول کی بہن سے نکاح کیا تھا، کو اسلحہ سمیت گرفتار کرلیا ، جب کہ اس مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان جن میں اللہ رکھیو ،نظام الدین،عباس اور رخسانہ شامل ہیں۔ ان کی تلاش جاری ہے۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ یہ رشتے کے تنازع پر قتل ہوا اور پولیس نے فوری کارروائی کرکے اس قتل کے ملزم فراز کو گرفتار کر کے دیگر ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے ۔ 

دوسری جانب مقتول کے ورثاء نے پریس کلب نواب شاہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں خواتین بڑی تعداد میں شریک تھیں اور وہ وی وانٹ جسٹس کے فلک شگاف نعرے لگا رہی تھیں، اس موقع پر مقتول عمران سولنگی کی رشتے دار مسمات تسلیم کا کہنا تھا کہ پولیس بااثر افراد کو گرفتار کرنے سے گریز کر رہی۔

ان کا یہ کہنا تھا کہ عمران سولنگی بے گناہ تھا اور ہمارے ساتھ ظلم ہوا کہ ہماری لڑکی کو اغوا کیا گیا، زبردستی نکاح کیا گیا اور تین مہینے تک اس کو حبس بے جا میں رکھا گیا ، لیکن اس کے بعد جب یہ لڑکی بازیاب ہوئی اس کے بعد پولیس نے پرروٹیکشن نہیں دیا، جس کا نتیجہ ہے کہ قاتل کو آسانی ہوئی عمران کا قتل کرنے پر عمران سولنگی کا قتل اور اس کے پس منظر پر ایک نظر ڈالنے سے پہلے یہ بات بھی اہم ہے کہ زن زر اور زمین کے تنازع میں سندھ میں جو آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ 

اس کا مداوا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قوانین میں تبدیلی کی جائے اور خاص طور پر ایسے معاملات جن میں رشتے کا تنازع یا کاروکاری جیسے معاملات ہوں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ عدالت اس معاملے کا فوری طور پر فیصلہ کرے تاکہ دیگر جو بے گناہ ہوں ان کی جان بخشی ہو سکے۔ عمران سولنگی کا پیپلز میڈیکل اسپتال میں اس طرح سے قتل خود اسپتال انتظامیہ کے لیے بھی بڑے سوالات کھڑے کر چکا ہے۔ 

اس سلسلے میں ایک یہ اہم بات ہے کہ ایک ہزار بستر پر مشتمل یہ اسپتال شہر کے وسط میں واقع ہے، لیکن سیکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس اسپتال میں مسلح افراد کے حملے اور اس طرح سے لوگوں کا قتل اور زخمی کے جانے کے واقعات ہوئے ہیں، گو کہ یہاں پولیس پوسٹ بھی قائم کردی گئی ہے اور دوسری جانب پولیس کا یہ کہنا ہے کہ وہ قاتلوں کے قریب پہنچ گئی ہے اور جلد ہی اس ایف آئی آر میں نامزد دیگر ملزمان بھی قانون کے شکنجے میں آجائیں گے ، بہتر ہے، لیکن عمران سولنگی کی طرح دیکر ایسے افراد جنہیں رشتے کے تنازعے یاماتو کاری کی قبعح رسم کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے کی جاں بخشی ہوسکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید