سینٹ میں سٹیٹ بنک کے ترمیمی بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی کی عدم موجودگی پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ، کیونکہ صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے یہ بل منظور ہواہے، اگر یوسف رضا گیلانی ایوان میں موجود ہوتے ،تو حکومت کے لئے مشکلات پیش آسکتی تھیں، مگر ان کے غیرحاضر رہنے سے حکومت یہ بل پاس کرانے میں کامیاب رہی ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بل منظور ہونے کے فوراً بعد اپنے بیانات میں خاص طور پر یوسف رضا گیلانی کا شکریہ ادا کیا۔
تاہم شاہ محمودقریشی نے شکریہ کچھ اس انداز میں ادا کیا کہ جس میں طنز کے نشتر بھی شامل تھے ، انہوں نے کہا کہ آج یوسف رضا گیلانی نے حق ادا کردیا کہ جب سرکاری ووٹوں سے قائد حزب اختلاف منتخب ہوں تو نتائج اچھے نکلتے ہیں، جب یہ بیانات سامنے آئے تو یوسف رضاگیلانی کی طرف سے بھی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ،تاہم ان کے بیانات میں ایسی کمزور وضاحتیں موجود تھیں کہ جن کی وجہ سے یہ یقین ہوگیا کہ یوسف رضا گیلانی نے کسی خاص وجہ سے سینٹ میں ترمیمی بل کی منظوری کے موقع پر اپنے آپ کو اجلاس سے دور رکھا۔
انہوں نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ میں رات جلد سونے کا عادی ہوں اوراپنے آبائی شہر ملتان میں موجود تھا ،رات ساڑھے بارہ بجے اس اجلاس کی اطلاع میرے اسلام آباد والے گھر میں دی گئی ، جس کا مجھے صبح علم ہوا، اس وقت اتنی مہلت نہیں تھی کہ میں اجلاس میں پہنچ سکا ، حکومت نے سینٹ کا ترمیمی بل پاس کرانے کے لئےتمام ایس او پیز کو بالائے طاق رکھا ہےاور شب خون مار کریہ بل منظور کرایا ہے، اگر یوسف رضا گیلانی کے اس بیان کو سچ مان لیا جائے کہ جیسے ہم پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں ،جب اطلاعات کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگراسلام آباد والے گھر میں اجلاس کی اطلاع پہنچ گئی تھی، تو وہاں سے کسی نے ملتان ان کے سیکرٹری ،بیٹوں یا کسی دوسرے فرد کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دی اور انہیں جگا کر یہ کیوں نہیں بتایا کہ کل صبح اجلاس ہونے والا ہے ،ویسے بھی یہ بات بڑی خلاف منطق نظر آتی ہے کہ سینٹ کا اپوزیشن لیڈر حالات سے اتنابے خبر ہو ،یہ اطلاعات موجود تھیں کہ حکومت کسی بھی وقت سینٹ میں سٹیٹ بنک کا ترمیمی بل پیش کرسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی طرف سے حکومت کو بل پاس کرانے کی ڈیڈ لائن بھی دے دی گئی تھی اور اس کا بھی سب کو علم تھا ،مگر علم نہیں تھا تو صرف سینٹ کے اپوزیشن لیڈر کو ،جنہیں اسلام آباد میں ہونا چاہئے تھا ،اب یوسف رضا گیلانی چاہے کچھ بھی کہیں ،مگر یہ بات تو واضح ہے کہ یہ ترمیمی بل صرف ان کی ہی غیرحاضری سے حکومت بآسانی پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے،اس لئے اگروفاقی وزراء ان کا طنزیہ انداز میں شکریہ ادا کررہے ہیں ،تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اور شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یوسف رضاگیلانی سرکاری ووٹوں کی حمایت سے سینٹر اور اپوزیشن لیڈ ر بنے تھے۔
یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ اکثر معاملات پر حکومت اور اپوزیشن میں نوراکشتی جاری ہے ،حکومت نے جب چاہا ،اپنی مطلب کا قانون پاس کرالیا، چاہے وہ قومی اسمبلی ہو یا سینٹ ،اسے کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی ، اپوزیشن کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ اور سینٹ اور اپوزیشن میں احتجاج ، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑنا ، بائیکاٹ کرنا ،اپنی جگہ، مگر عین موقع پر اپوزیشن کے 8 ارکان سینٹ کا غائب ہوجانا ،جن میں قائد حزب اختلاف بھی شامل ہوں اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ جو کچھ نظر آتا ہے ، حقیقت میں وہ نہیں ہوتا ، ہیں کواکب کچھ ، نظرآتے ہیں کچھ کے مصداق یہ سارا سلسلہ چل رہا ہے۔
یہ بات بھی ثابت ہورہی ہے کہ جو ایجنڈہ فراہم کیا جاتا ہے، اسے منظور کرانے کے تمام اسباب بھی فراہم کردیئے جاتے ہیں، بظاہر ایک شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کا سامان ہوتا ہے ،مگرحقیقت میں ہوتا وہی کچھ ہے ،جس کے لئے ایجنڈہ فراہم کیا جاتا ہے ، اپوزیشن حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا پروگرام بنارہی ہے، مگر اسمبلیوں کے اندر اس کی ناکامیاں اس بات کو ظاہر کررہی ہیں کہ وہ حکومت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائے گی ، اور سارے عمل بھی رائیگاں چلے جائیں گے۔
ادھر تحریک استقلال کے سربراہ رحمت خان وردگ نےملتان کے صحافیوں سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کی ہے کہ 23مارچ تک موجودہ حکومت ختم ہوجائے گی اور ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے بلاول بھٹو کو وزیراعظم ، سندھ میں پیپلز پارٹی ،پنجاب میں مسلم لیگ ن ،بلوچستان اور کے پی کے میں جمعیت علمائے اسلام کی حکومتیں ہوں گی ،ان کی اس پیش گوئی میں کتنی حقیقت ہے ،اس کا اندازہ تو آنے والے وقت پر ہوگا ،تاہم وہ پہلے جو سیاسی پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں۔
ان کا ریکارڈ اتنا برا نہیں ہے ، ممکن ہے کہ سیاسی تلاطم میں کچھ ایسے واقعات جنم لیں ،جن سے حیران کن خبریں سامنے آئیں۔ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر ملتان آکر جنوبی پنجاب صوبہ کے بارے میں وہی اپنے پرانے بلند وبانگ دعوے کئے ،البتہ یہ وضاحت ضرور کی کہ انہوں نے شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو علیحدہ صوبہ کے حوالے سے جو خطوط لکھے تھے۔
ان کی منظوری چئیرمین تحریک انصاف عمران خان سے لی گئی تھی ،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان خطوط میں اس حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور صاف لگ رہا ہے کہ وہ شاہ محمود قریشی نے ذاتی حیثیت میں لکھے ہیں، مگر جب اس پر تنقید ہوئی اور اس ڈائری میں بھی اس کا ذکر کیا گیا تو انہیں یہ وضاحت دینے کی ضرورت پیش آگئی۔
تاہم ان کا یہ کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک ان خطوط کا کوئی جواب نہیں ملا ، جونہی اس حوالے سے کوئی مثبت جواب ملے گا ،وہ جنوبی پنجاب صوبہ اتفاق رائے پیدا کرنے کےلئے مزید پیشرفت کریں گے ،جوں جوں بلدیاتی انتخابات قریب آرہے ہیں ،شاہ محمود قریشی جنوبی پنجاب صوبہ کا مسلسل ذکر کرنے لگے ہیں ، ادھر ملتان کے تحریک انصاف کے حلقوں میں یہ افواہ بھی گرم ہے کہ شاہ محمود قرشی اپنے صاحبزادے زین قریشی کو ملتان کا لارڈ مئیر بنوانا چاہتے ہیں ، یہ ایساعمل ہوگا ،جو تحریک انصاف کی ملتان میں رہی سہی مقبولیت کو بھی داؤپر لگادے گا۔