پی ڈی ایم کے 23مارچ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 27فروری کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے اعلان سے سیاسی محاذ پھر گرم ہوگیاہے اور دوسری جانب پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں۔ الیکشن کمیشن اسی ماہ (فروری)میں نئی حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد نے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرے گا۔ شیڈول کے اعلان کے بعد 45دنوں کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانا لازمی ہوگا۔
پنجاب میں نئے بلدیاتی بلدیاتی انتخابات ایسے وقت میں کرواے جارہے ہیں جب ایک طرف پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی ااسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی بھرپور تیاریاں کررہی ہیں اور دوسری جانب مہنگائی اور بے روزگاری نے غریب عوام کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے،ملک کو داخلی، معاشی، اقتصادی اور سیاسی بحران درپیش ہیں، ایسے حالات میں حکومت کے لیے نے بلدیاتی انتخابات کرانا بہت بڑا چیلنج ہے۔
وزیراعظم عمران خان جو کہ خود کو خطروں کاکھلاڑی سمجھتے ہیں انہوں نے اپنی پارٹی کے اکثر رفقا ءکار اور حکومتی وزراءکی رائے کے برعکس پنجاب میں نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا چیلنج قبول کیا ہے اور وزیراعلیٰ کو اپوزیشن کے لانگ مارچ کے باوجود بلدیاتی انتخابات کروانے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم نے گذشتہ جمعتہ المبارک کو لاہور کے دورے کے دوران وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار اور اِن کی ٹیم سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مشاورت کی اور حکومتی ٹیم کو بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے لیے مضبوط ترین امیدواروں کو انتخابی میدان میں اُتارنے کا ٹاسک دیا۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا معرکہ سر کرنے کے لیے گورنر پنجاب چودھری محمد، وزیراعلیٰ سردارعثمان بزدار اورا سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے سر جوڑ لیے ہیں۔ گورنر چودھری سرور نے وزیراعظم کے دورے کے فوری بعد ہی بڑے سرگرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے فوری طور پر ہی گورنر ہاوس میں ہر ڈویژن کے وزرائ، اراکین اسمبلی اورپارٹی عہدیداروں کو ناشتے پر مدعو کرکے بلدیاتی انتخابات کے لیے مضبوط امیدواروںکے چناؤ اور جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور اسپیکر چودھری پرویز الٰہی سے اُن کی رہائش گاہ جاکر سیاسی امور اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ(ق) کی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کو قیمتی مشوروں سے نوازا اور کہا کہ حکومت کو بلدیاتی انتخابات قبل مہنگائی کے حوالے سے عوام کو فوری ریلیف دینا ہوگا، ہمیں حکومت کا اتحادی ہونے کے ناطے لوگ سوال کرتے ہیں کہ مہنگائی کیوں کم نہیں ہورہی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے بلدیاتی انتخابات میں باہمی مشاورت سے مضبوط امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جائیں۔
وزیراعظم اپنے مشیروں اور سیاسی ترجمانوں کے غلط مشوروں سے خبردار رہیں۔ نوازشریف کے واپس آنے کی فکر نہ کریں، جتنا چاہے زور لگالیں وہ واپس نہیں آئیں گے، اب نوازشریف کی بجائے مہنگای دور کرنے پر توجہ دیں تو بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی بالادستی ختم کی جاسکتی ہے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے مسلم لیگ (ق) کی اعلیٰ قیادت کے تجربات سے استفادہ کرنے اور اِن کے تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اگلے تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات سے قبل مہنگای کے سدباب کے لیے کیا عملی اقدامات اٹھائے گی، اگر حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو نہ پاسکی تو بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کی کامیابی کسی بڑے معجزے سے کم نہیں ہوگی۔
اِن دنوں بلدیاتی اداروں کے کالعدم ہونے کے بعد سے کی نئے شہری مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ پنجاب کے علاقوں میں بارشوں کے باوجود فضائی آلودگی اور گرین ایریاز پر تعمیرات سے زرعی رقبے میں تیز رفتاری سے کمی سے غذائی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اِس پر حکومت نے فوری توجہ نہ دی تو پاکستان جیسے زرعی ملک کو اجناس کی درآمدات پر اربوں ڈالر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم نے اِس کا نوٹس لیتے ہوے بلدیاتی اداروں کے نئے نظام کے تخت انتخابات کرواکر منتخب بلدیاتی نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب غلام اسرار خان نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بتایا کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے کوئی امیدوار آزاد حیثیت سے انتخاب نہیں لڑ سکے گا،تحصیل کونسلز، میونسپل کارپوریشن، میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیوں کا نظام ختم کرکے میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ضلع کونسل کا نظام لایا گیا ہے۔ 11میٹروپولیٹن کارپوریشن اور 25ضلع کونسلز ہوں گی۔
میٹرو پولیٹن لاہور کا لارڈ میئر اور دیگر میونسپل کارپوریشنوں کے سٹی میر کا انتخاب کرایا جاے گا جبکہ ضلع کونسل کا سربراہ ڈسٹرکٹ میئر ہوگا۔ میٹروپولیٹن کاپوریشنز اور ضلع کونسلز کے لیے ہر پارٹی میئراور ڈپٹی میئر کے امیدواروں کے علاوہ اقلیتی، خواتین، یوتھ، کسان یا ورکرز، ٹریڈرز اور معذور کونسلر کی مخصوص نشستوں کا ایک پینل ہوگا، شہروں میں وارڈز اور قصبات میں یونین کونسلز ختم کرکے نیبر ہڈ اورویلج کونسلر کا انتخاب کرایا جائے گا۔
پہلے مرحلے میں نیبر ہڈ اور ویلج کونسلرز کے الیکشن ہوں گے، اِس کے بعد میٹروپولیٹن کارپوریشنز اور ضلع کونسلزکے انتخابات ہوں گے۔ میئر اور ڈپٹی میئر کی تعلیم کم ازکم ایف لازمی ہوگی۔ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی مقررہ تاریخ تک نامزد امیدواروں کا پینل مجاز افسر کے پاس جمع کروانے کی پابند ہوں گی۔
اب دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے نئے بلدیاتی نظام کا تجربہ کامیاب ہوتا ہے یا ماضی کی طرح افسر شاہی بلدیاتی اداروں پر حاوی رہتی ہے، اِس کا انحصار نئی منتخب ہونے والی قیادت پر ہوگا جسے بہت بڑے مسائل ورثے میں ملیں گے۔