بکھری ہوئی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیا سی چپقلش عروج پر ہے، اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں عمران حکومت کو چار سال سے اقتدار سے الگ کرنے کی کوششیں اور اقدامات کر رہی ہیں مگر ابھی تک کوئی کامیاب نہیں ہو سکیں، وزیر اعظم عمران خان بھی اپوزیشن جما عتوں کے ہر ہربے کو ناکام بناتے ہو ئے اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے پر گامزن ہے، متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر حکومت کو گرانے کے بڑے بڑے دعوے کیے، جلسے کیے ،وہ حکومت کو تو نہ گرا سکی مگر باہمی انتشار کا شکار ہوگئی۔
اب ایک بار پھر پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ پی پی پی نے الگ سے فروری کے آخر میں احتجاجی تحریک کی تیا ریاں شروع کر دی ہیں اور سندھ سے اس احتجاجی تحریک کا آغاز کر کے اسے اسلام آباد تک لانے کے پروگرام پر عملی پامہ پہنا رہی ہے ،پہلے بھی حکومت کو گرانے کی کئی تاریخیں دی گئیں، کبھی کہا گیا کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اندر عدم اعتماد کی تحریک لائی جا ئے گی مگر اس پر بھی عمل نہ ہوا ، پھر جلسے کرکے اعلان کیا گیا کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر نئے الیکشن کرائے جا ئےمگر وہ بھی بیل منڈے نہ چڑھی، درحقیقت مسلم لیگ (ن) باہمی گروپ بندی اور مقدمات میں گھری ہوئی ہے۔
وہ چاہتی ہے کہ عوام میں عمران حکومت اتنی غیر پاپولر ہو جا ئے کہ لوگ پھر اس کا نام نہ لیں اور ہم آسانی سے الیکشن جیت جا ئیں پی پی پی بھی اسمبلیاں توڑے کے حق میں نہیں اگر اسمبلیاں ٹوٹی ہے تو ان کی سندھ میں بھی حکومت ختم ہو تی ہے ، اب دیکھنا یہ ہےکہ پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو جو مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے اس دن اسلام آباد فوجی پریڈ ہوتی ہے ،کیا وہ اپنی اس مارچ کی تاریخ کو تبدیل کریں گے اسی طرح ملک میں کرونا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے ،اموات میں روز با روز اضا فہ ہو رہا ہے ،کیا پی پی پی اور پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف الگ الگ تحریکیں ان حالات سے متاثر نہیں ہو نگی یہ وقت بتائے گا،ایسا لگتا ہے عوام حکومت اور اپوزیشن دونوں سے بیزار ہے۔
عام لوگوں کے تا ثرات یہ ہے اگر چہ عمران حکو مت نے مہنگائی میں پیس کر رکھ دیا ہے ،مگر اس بات کا کیا یقین ہےکہ مسلم لیگ (ن) ،پی پی پی یا کوئی اور جما عت اقتدار میں آئی تو وہ ہمارے لیے کیسے من وسلویٰ اتارے گی ، وہ بھی یہ ہی کہے گے کہ عمران حکومت کے غلط فیصلوں سے معیشت تباہ ہو گئی، عوام کی سیاست دانوں سے بے زاری بجا ہے انہیں حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی کوئی بہتری کے اثار نظر نہیں آتے یہی ہے وجہ سے کہ عوام اپوزیشن جماعتوں کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے گریزاں ہیں، اب دیکھنا ہےکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مونالا فضل الرحمان، مسلم ن اور اتحاد میں شامل دیگر جما عتوں کے زریعے عوام کو بڑے پیمانے پر مارچ میں لانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر اس مارچ میں مدرسوں کے طالب عملوں پر اکتفا کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے احتجاجی مارچ کے لیے کسی قسم کی تیاری سامنے نہیں آئی ،پی پی پی کے رہنما سید خورشید شاہ اور میاں شہباز شریف ،پی پی پی اور پی ڈی ایم کو اکھٹا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر ابھی تک یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں، پی پی پی اب کسی صورت مسلم لیگ ن کے ساتھ یکجا نہیں ہو گی۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سولو فلائٹ ہی کریں گے ،کیو نکہ لاہور کے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوا ہے اور پی پی پی کی کوشش ہے کہ وہ پنجاب میں تنہا قدم جما ئے ،پی پی پی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر اپنی پوزیشن مزید خراب نہیں کرے گی ،اپوزیشن جما عتیں اپنی احتجاجی تحریک میں مہنگائی کو حکومت کے خلاف ہتھیار کے طور ہر استعمال کر رہی ہیں۔
دوسری طرف خود وزیر اعظم عمران خان بھی کہتے ہیں کہ مہنگائی کا سوچ سوچ کر وہ رات کو سو نہیں سکتے ،یقیناً وزیراعظم عوام کی مشکلات سے آگاہ ہیں اور ان کو غریبوں کا احساس ضرور ہے مگر مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے کرونا وبا عذاب الہیٰ کی صورت اختیار کر گئی ہے ،اس وبا نے امریکہ ،برطانیہ ، فرانس ، بھارت اور دیگر امیر ملکوں کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا اور وسائل سے بھرے اس ملکوں میں بھی عوام کو شدید مہنگائی کا سامنا ہے۔
وہاں پر بھی عوام جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں شدید مشکلات کا شکار ہیں، خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں امریکہ، برطانیہ، بھارت اور دیگر یورپی ملکوں جیسی صورتحال نہیں یہاں پر کورونا کو بہتر انداز میں کنٹرول کیا گیا اور اموات میں اس طرح اضا فہ نہیں ہوا جس طرح امریکہ ،برطانیہ اور بھارت میں ہوا ،پاکستان میں دو سالوں میں اب تک 29 ہزار 3 سو افراد جاں بحق ہو ئے ہیں جبکہ مذکورہ ممالک میں مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، کورونا وبا کو اکنٹرول کرنے کے لیے این سی او سی کے حکام اور وفاقی وزیر اسد عمر کا کردار شاندار ہے اور پاکستان پر اللہ کا خاص کرم ہے ،یہ بات اطمنان بخش ہے کہ مشکل ترین حالات کے باوجود معاشی ترقی کی رفتار بہتر ہے اور گروتھ ریٹ 5 اعشاریہ 37 فیصد تک پہنچ گئی ہے ،جو خوش آئند ہے، اس شرح نمو کا اعتراف مسلم لیگ ن کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی کیا ہے۔
جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے عدادو شمار درست ہیں اور معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں، یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ملک کے زر مبا دلہ کے زخائر 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، یہ ملکی تحریک میں پہلی بار ہوا ہے ،یہ بات بھی درست ہےکہ ان زر مبادلہ کے زخائر میں سعودی اعرب اور دیگر ممالک سےلیا گیا کچھ قرضہ میں شامل ہے مگر یہ بات سابق وزیر خزانہ اسحا ق ڈار بھی کرتے تھے اور اس طرح وہ بھی زرمبادلہ کے زخائر اضافہ کرتے تھے مگر یہ اضافہ 17 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔
زرمبادلہ کے زخائران میں بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم بھی شامل ہیں اور ان پاکستانیوں نے ملکی معیشت کو سنبھالنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ،بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہےکہ وزیر اعظم عمران خان آئندہ بجٹ میں عوام کو بہت زیادہ ریلیف دیں گے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خا طر خواہ اضافہ کریں اس طرح عوام ماضی کی مہنگائی اور مشکلات کو بھول جا ئیں گے ،ویسے بھی موجودہ حکومت ہیلتھ کارڈ ،نوجوانوں اور کسانوں کے لیے قرضوں کی فراہمی تیزی سے کر رہی ہے اب تک0 4 ارب روپے بنکوں سے قرضوں کی صورت میں تقسیم کیے جا چکے ہیں جبکہ 10 ارب روپے ابھی پائپ لائن میں ہیں، حکومت نے کاروبار شروع کرنے کے لیے بھی ایک کروڑ تک کا قرضہ دینے کی اسکیم شروع کی ہے جس پر عمل در آمد ہوگیا ہے۔