ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
حضرت سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”بےشک، اللہ پاک اپنے بندوں میں سے انہیں زیادہ پسند فرماتا ہے جو مخلص، پرہیزگار اور گم نام ہوتے ہیں۔ جن کے چہرے گرد آلود، بھوک کی وجہ سے پیٹ کمر سے ملے ہوئے، اور بال بکھرے ہوئے ہوں۔ اگر وہ امراء کے پاس جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہ ملے۔ اگر کسی محفل میں موجود نہ ہوں تو کوئی ان کے متعلق سوال نہ کرے۔ اگر موجود ہوں تو کوئی انہیں اہمیت نہ دے۔ اگر وہ کسی سے ملاقات کریں تو لوگ ان کی ملاقات سے خوش نہ ہوں۔ اگر وہ بیمار ہو جائیں تو کوئی ان کی عیادت نہ کرے، اور جب مر جائیں تو لوگ ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوں۔“صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا :”یا رسول اللہ ﷺ! ایسے لوگوں سے ہماری ملاقات کیسے ہو سکتی ہے؟“
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” اویس قرنیؒ انہی لوگوں میں سے ہیں۔“ صحابۂ کرام ؓنے عرض کیا: ”یا رسول اللہ ﷺ! اویس قرنی ؒ کون ہے؟“ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”اس کا قد درمیانہ، سینہ چوڑا، رنگ شدید گندمی، داڑھی سینے تک پھیلی ہوئی۔ اس کی نگاہیں جھکی جھکی، اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ زارو قطار رونے والا ہے۔ اس کے پاس دو چادریں ہیں، ایک بچھانے کے لئے اور ایک اوڑھنے کے لئے۔
دنیا والوں میں گمنام ہے، لیکن آسمانوں میں اس کا خوب چرچا ہے۔ اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم کھا لے تو اللہ پاک ضرور اس کی قسم کو پورا فرمائے گا۔ اس کے سیدھے کندھے کے نیچے سفید نشان ہے۔ کل بروز قیامت نیک لوگوں سے کہا جائے گا: ” تم لوگ جنت میں داخل ہو جاؤ۔“ لیکن اویس قرنی ؒسے کہا جائے گا: ”تو ٹھہر جا اور لوگوں کی سفارش کر۔“ چنانچہ وہ قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگوں کی تعداد کے برابر گناہ گاروں کی سفارش کرےگا ۔“
عاشقِ رسول ﷺحضرت اویس قر نی ؒکو خیرالتابعین کا لقب حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے عطا ہوا۔ آپ بیت المقدس میں پیدا ہوئے اور بعد ازاںقر ِن یمن میں سکو نت اختیار کی۔ آپ ؒ کے والد محترم آپ کی اوائل عمر ی میں وفات پاگئے تھے ۔بحالتِ یتیمی آپ کی والدہ نے آپ کی پرورش و دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، جب حضرت اویسِ قر نی ؒ نے ہوش سنبھالا تو اپنی والدہ کو بیمار اور نا بینا پایا، لہٰذا اُسی وقت سے آپ نے اپنی والدہ کی خد مت و اطاعت کو اپنا فریضہ بنا لیا اور اس میں کبھی کسی قسم کی کمی و کوتاہی نہ کی ،والدہ کی فرماں برداری اور خدمت کی بناء پر ہی آپ کو بار گاہِ الٰہی اور بار گاہ ِ نبوی میں مقبولیت ملی ۔
آپ کا نام ِنامی اویس بن عامر اور دوسرا نام عبد اللہ بھی بیان ہوا ہے، لیکن احادیث میں آپ کا تذکرہ اویس کے نام سے ہی ملتا ہے، دیگر کتُب سے بھی آپ کے نام اویس کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔ آپ کی کنیت ابو عمرو تھی، آپ کے القاب میں سب سے اچھا لقب’’ خیرالتا بعین ‘‘ہے، جو روایت کے مطابق آپ کو بارگاہ رسا لت سے عطا ہوا ۔آپ کے القابات میں ’’سید التا بعین‘‘ بھی ہے ،کشف المحجوب میں آپ کو ’’آفتاب ِاُمت ‘‘اور شیخ ملت و دین کے القا بات سے نوازا گیا ہے ۔
حضرت اویس قر نی ؒکی شہرت ِدوام عاشق رسول ﷺ کی نسبت سے ہے ،با قی نسبتیں اویس قر نی ؒ سے تعلق کی بنیاد پر قابل ذکر ِتو ہو سکتی ہیں، لیکن ان کا اصل نسب نامہ عشق ِرسول ہے، رہتی دنیا تک جب کبھی عشق رسول کا تذکرہ ہوگا، وہ آپ کے نامِ نامی کے تذکرے کے بغیر ادھورا رہے گا ۔
عشق رسول ﷺ اورفنا فی الر سول کی بات ہوگی توحضرت اویس قر نی ؒ کا تذکرہ لازمی ہوگا۔ تاریخِ اسلام میں علمائے کرام نے حضرت اویس قرنی ؒکے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے آپ کی نیکی ، تقویٰ و پرہیزگاری اور زہد کے بہت سے واقعات تحریر کیے ہیں ، حضرت اویس قرنی ؒ کا اپنی ماں کی خد مت، اُن کی اطاعت و محبت میں فریفتہ رہنا اورخصوصاََماں کی محبت میں مشغول رہنا قابل ِ رشک ہے، اسی بے مایہ عشق اور محبت ِمادر اور اُن کی خدمت میں مستغرق رہنے نے آپ کو عاشق فنا سے عاشق بقاء بنادیا۔ آپ کا شمار اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مخلص بندوں میں ہوتا ہے۔
آپ کا شمار تا بعین ِکِبار میں ہوتا ہے ،آپ نے عہد نبوی کا دورپا یا، لیکن حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دیدار سے فیض یاب نہ ہوسکے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنی والدہ کی ضعیفی اور نابینا ہونے کی وجہ سے اِنہیں چھوڑ کر سفر نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا اویس قرنی ؒ تابعی ہیں، صحابی نہیں، لیکن دو جہانوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے آپ کی آنحضرت ﷺ سے محبت اور ماں کی خد مت کو فریضہ بنانے کو خراجِ تحسین پیش فر مایا۔
حضرت اویس قر نی ؒکا ذکر کرکے رسول اکرم ﷺ نےصحابہؓ کو حکم دیا کہ تم میں سے جوبھی اویس قرنی ؒ سے ملے، اس سے دعاکرائے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمر فاروق ؓ کو خاص طور پر یہ حکم دیا کہ اے عمرؓ، جب تم اویس قرنی ؒ سے ملو تو اُسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ تمہارے لیے دعائے مغفرت کرے ،کیونکہ وہ قبیلہ ربیعہ اور مضر کے برابر لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ دوسری روایت میں امیر المؤمنین ،حضرت عمر فاروق ؓ اور امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ ؓ دونوں کو حضرت اویس قر نی ؒسے طلبِ دعا کا حکم دیا گیااور دونوں صاحبان نے حضرت اویس قر نی ؒ سے اپنے لیے دعا کروائی۔
روایت بیان کی جاتی ہے کہ روزِ قیامت کوئی حضرت اویس قرنی ؒکو نہیں دیکھ سکے گا، کیونکہ حضرت اویس قرنیؒ نے دنیا میں اس لئے چُھپ کر اللہ کی عبادت کی کہ دنیا میں کوئی بندہ انہیں پہچان نہ لے، سو اللہ تعا لیٰ ستر ہزار فرشتے اویس قرنی ؒ کی شکل میں داخل ِبہشت فرمائے گا، تاکہ مخلوق انہیں نہ دیکھ پائے، سوائے اُس شخص کے جسے اللہ چاہے، اُسے آپ کی زیارت نصیب ہوگی۔ حضرت اویس قرنی ؒکے بارے میں شیخ فرید الدین عطار ؒ روایت بیان کرتے ہیں، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ میں یمن کی طرف سے نسیم ِرحمت آتی ہوئی محسوس کر تا ہوں۔
و صال رسول اکرم ﷺ کے دس سال بعد تک حضرت اویس قر نی ؒکی تلاش جاری رہی، حضرت ابوبکر صدیق ؓکا دور گزر گیا، حضرت اویس قر نی ؒکو تلاش نہ کیا جاسکا ، حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت بلال بِن رباح ؓ کو حضرت اویس قرنیؒ کی تلاش کا حکم دیا، حضرت بلال ؓ کی ملا قات حضرت اویس قرنی ؒ سے ہوگئی ،آپ نے فر مایا: اے اویس ،حضرت عمرؓ آپ سے ملاقات کے متمنی ہیں، جس پر حضرت اویس قرنیؒ کی حضرت عمر ؓ اورسیدنا علی المرتضیؓ سے ملاقات ہوئی۔
ہمارے لئے حضرت اویس قرنی ؒکی زندگی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اپنی خواہش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، والدین کی خدمت میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے، ساتھ ہی عُشّاق رسول کو اویس قرنی ؒ نے حضور اکرم ﷺ کی اطاعت و محبت اور ادب کی لا منتہا منزلوں سے آشنا کرایا ہے، حضرت اویس قرنی ؒ جسمانی طور پر لاکھ دور صحیح، لیکن جو فضل و کرم حضور ﷺ کا آپ ؒ پر ہوا ،وہ یقیناً قابل ِرشک و ستائش ہے۔