سُروں کی ملکہ ، گیت سنگیت کی سب سے اونچی اڑان بھرنے والی گائیکہ، بُلبل ہند لتا منگیشکر، کئی دہائیوں تک موسیقی کی دنیا پر راج کرنے کے بعد دُنیا چھوڑ گئیں، انہوں نے آواز کی دُنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چُھوا، ایسی مقبولیت شاید ہی کسی گلوکارہ کو ملی ہو۔ لتا کی شہرت اور آواز کے سحر سے متاثر ہوکر نہ صرف کچھ والدین نے بچوں کے ناموں کے ساتھ ’’لتا‘‘ کا اضافہ کردیا،بلکہ چند فن کاروں نے بھی اپنے نام کے ساتھ لتا لگا لیا۔
لتا جی کو قدرت نے آواز کی دولت سے نوازا، یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں نہ تو لتا منگیشکر سے پہلے کوئی اتنی بڑی گائیکہ نظر آتی ہے اور نہ ہی ان کے بعد، انہوں نے ہر طرح کے گیت گائے۔ کئی گلوکاروں نے ان کی پیروی کی، کئی نسلیں ان کی مداح ہیں۔ لتا 28ستمبر 1929کو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اِندور میں پیدا ہوئیں، ان کے والد دینا ناتھ منگیشکر شوبزنس سے منسلک تھے اور گلوکاری اور اداکاری کے شعبے میں اپنی پہچان رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لتا جی کم عمری ہی سے موسیقی کی طرف مائل تھیں۔
نامور موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے انہیں فلموں میں متعارف کروایا۔ یہ وہی ماسٹر غلام حیدر ہیں، جنہوں نے لتا سے قبل ملکہ ترنم نورجہاں کو موسیقی کی دُنیا میں متعارف کروایا تھا۔ ماسٹر غلام حیدر کی پذیرائی کے بعد وہ موسیقی کے آسمان کو چُھونے لگیں۔ لتا جی کو ان کی موسیقی کے شعبے میں غیر معمولی خدمات کے صلے میں بھارت کا سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’بھارت رتنا‘‘ سےنوازا گیا۔
اس کے علاوہ انہیں ’’پدم بھوشن‘‘ اور ’’پدماوی بھوشن‘‘ایواڈز بھی دیے گئے۔ لتا جی نے پہلا فلمی گانا صرف 13برس کی عمر میں ایک مراٹھی فلم کے لیے گایا تھا۔ انہوں نے بالی وڈ کے شہرت یافتہ گلوکار محمد رفیع، مکیش، مناڈے، کشور کمار، ایس پی بالا، شبیر کمار، محمد عزیز، ابھیجیت، کمار سانو، ادت نارائن اور سونم نگم کے ساتھ سیکڑوں فلمی اور غیر فلمی گیت گائے۔ استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ بھی آواز کا جادو جگایا۔ وہ ملکہ ترنم نورجہاں کو اپنا آئیڈیل مانتی تھیں اور کئی برس تک انہیں فالو کرتی رہیں۔
1945کے بعد لتا جی نے اپنی شان دار گائیکی کی بدولت، الگ پہچان بنائی، وہ آخری وقت تک نورجہاں کو بہت یاد کرتی رہیں۔ برصغیر کے ممتاز موسیقاروں نے لتا جی کے لیے سماعتوں میں جادو جگانے والے ہزاروں گیت تخلیق کیے۔ ان میں موسیقار اعظم کہلانے والے نوشاد، ایس ڈی برمن، شنکر جے کشن، لکشمی کانت پیارے لال، راجیش روشن، آرڈی برمن، بپی لہری، خیام، انو ملک، رام لکشمن، ندیم شیروان اور اے آر رحمان سمیت کئی موسیقاروں نے لتا جی کی دل کو چُھونے والی آواز کو استعمال کیا۔ او پی نیئر وہ واحد موسیقار تھے، جنہوں نے لتا جی سے کوئی گانا نہیں گوایا۔ راج کپور، اور یش راج چوپڑا، یہ دونوں عظیم ڈائریکٹرز اپنی فلموں میں صفِ اول کی ہیروئنوں کو کاسٹ کرتے تھے، مگر دونوں کی ہر دوسری فلم میں لتا منگیشکر ہی ان کی پہلی چوائس ہوا کرتی تھیں۔
اپنے طویل کیریئر میں لتا جی نے چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے 1971میں’’ فلم فیئر‘‘ کی انتظامیہ سے کہہ دیا تھا کہ انہیں اب ایوارڈز کے لیے نامزد نہ کیاجائے۔ انہوں نے 1970، 1966، 1963، 1959میں فلم فیئر ایوارڈ جیتے۔ لتا منگیشکر کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ ان کی آواز پر بالی وڈ کی تقریباً تمام فلمی ہیروئنوں نے ہونٹ ہلائے۔ مدھو بالا، وحیدہ رحمٰن، مینا کماری، مالا سہنا، نرگس، مادھوری ڈکشٹ، سری دیوی، پدمنی کولہا پوری، جیا پرادہ، پروین بوبی، زینت امان، غرض ہر نئی اور پُرانی ہیروئن پر ان کی آواز جچتی تھی۔
ان کی بہن آشا بھوسلے نے گائیکی کی دُنیا میں اہم مقام حاصل کیا۔ بالی وڈ میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے، جب بھارتی فلم انڈسٹری پر ان دونوں بہنوں کی حکم رانی تھی۔ 1974 سے 1991 تک سب سے زیادہ گانے ریکارڈ کروانے پر ان کا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جاچکا ہے۔ 1942میں اپنے والد دینا ناتھ کی وفات کے بعد لتا جی نے کچھ برسوں تک ہندی اور مراٹھی فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی پہلی ہندی فلم ’’آپ کی سیوا‘‘ تھی ، دیگر اہم فلموں میں میرا بائی، ماجھے بال، گجا بھائو، بڑی ماں اور زندگی کا سفر وغیرہ شامل تھیں۔
انہیں ابتدائی دنوں میں فلم انڈسٹری میں کافی جدوجہد کرنی پڑی، ان کی مہین آواز کی وجہ سے ابتداء میں موسیقاروں نے انہیں کام نہیں دیا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پھرسب سے بڑی گلوکارہ بنیں۔ لتا منگیشکر نے فلمی گانوں کے علاوہ کچھ نعتیں اور غزلیں بھی گائی تھیں۔ انہوں نے غزل گائیکی میں فن پیدا کرنے کے لیے اردو کے ممتاز استادوں سے باقاعدہ اردو سکھی۔ وہ غزل گائیکی میں مہدی حسن کی سب سے بڑی مداح رہیں۔ ان کے ایک جملے نے جو انہوں نے مہدی حسن کے لیے کہا تھا ’’مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔‘‘ برصغیر میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ لتا منگیشکر نے ویسے تو ہزاروں گیت گائے اور ان کے مقبول گیتوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ہم یہاں ان کے چند سپرہٹ گیتوں کا ذکر کریں گے۔
1940کی دہائی میں لتا جی نے فلموں کے لیے گانا شروع کیا اور کئی سپرہٹ گیت گائے۔ فلم ہیررانجھا کا گیت ’’دو دل ٹوٹے دو دل ہارے، دنیا والوں صدقے تمہارے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ ان کی فلم برسات کے نغمے ’’ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ‘‘ ’’جیا بے قرار ہے چھائی بہار ہے ‘‘اور ’’میری آنکھوں میں بس گیا کوئی‘‘ نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ فلم بڑی بہن کا گیت ’’چُپ چُپ کھڑے ہو ضرور کوئی بات ہے‘‘ فلم دلاری کا گانا ’’اے دل تجھے قسم ہے تو ہمت نہ ہارنا‘‘ فلم محل کا یہ گیت ’’آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا‘‘ جب مدھوبالا پر فلمایا گیا تو ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگے۔
1950کی دہائی میں فلم نرالا کا مشہور گانا ’’محفل میں جل اٹھی شمع پروانے کے لیے‘‘ فلم سمادھی کا گیت ’’گورے گورے او بانکے چھورے‘‘ سرگم کا ’’کوئی کسی کا دیوانہ نہ بنے‘‘ البیلا کا ’’بھولی صورت دل کے کھوٹے‘‘ فلم ملہار کا مشہور گیت ’’بڑے ارمانوں سے رکھا ہے صنم تیری قسم‘‘ آوارہ کا ’’گھر آیا میرا پردیسی پیاس بجھی‘‘ فلم دیدار کا نغمہ ’’بچپن کے دن بُھلا نہ دینا‘‘ فلم بیجو باورا کے گانے ’’تو گنگا کی موج‘‘ اور ’’بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا، فلم ناگن کا یہ گیت ’’میرا دل یہ پکارے آجا‘‘ اور شری420کا گانا ’’پیار ہوا اقرار ہوا‘‘ بے حد پسند کیے گئے۔ فلم چوری چوری کا مشہور گانا ’’آجا صنم مدھر چاندنی‘‘ ’’جہاں میں جاتی ہوں وہیں چلے آتے ہو‘‘ اور فلم شیریں فرہاد کا ’’گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ‘‘ اور فلم گونج اٹھی شہنائی کا گیت ’’دل کا کھلونا ہائے ٹوٹ گیا‘‘ بے حد مقبول ہوئے۔
1960کی دہائی میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے والا فلم مغل اعظم کا گانا ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس گانے کو سن کر بھارت میں کئی لڑکیاں گھروں سے بھاگ گئی تھیں۔ اس فلم کے دوسرے گانے ’’محبت کی جھوٹی کہانی پر روئے‘‘ کو بھی پسند کیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں ان کے دیگر مقبول گانوں میں فلم دل اپنا اور پریت پرائی کا گانا ’’عجیب داستان ہے یہ‘‘ ’’گنگا جمنا کا ’’دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیورے‘‘ فلم ان پڑھ کا ’’آپ کی نظروں نے سمجھا‘‘ بیس سال بعد ’’کہیں دیپ جلےکہیں دل‘‘ فلم پارس منی کا ’’ہنستا ہوا نورانی چہرہ‘‘ گائیڈ کا گیت ’’آج بھی جینے کی تمنا ہے‘‘ حسینہ مان جائے گی کا گانا ’’بے خودی میں صنم اٹھ گئے جو قدم‘‘ میرے ہمدم میرے دوست کا گانا ’’چلو سجنا جہاں تک گھٹا چلے‘‘ آنکھیں کا گانا ’’غیروں پر کرم اپنوں پر ستم‘‘ فلم سرسوتی چندر کا گیت ’’چھوڑ دے ساری دنیا کسی کے لیے‘‘فلم دو راستے کا ’’بندیا چمکے گی‘‘ اور ’’تونے کاجل لگایا دن میں رات ہوگئی ‘‘ کو فلم بینوں نے سراہا۔
1970کی دہائی میں بھی لتا جی نے ان گنت مشہور گیت گائے، ان میں کٹی پتنگ ’’نہ کوئی امنگ ہے‘‘ پاکیزہ کے یہ چار گیت ’’چلتے چلتے یونہی، ان ہی لوگوں نے لے لیا، موسم ہے عاشقانہ اور ’’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ بے حد مقبول ہوئے۔
فلم شور کا گیت ’’ایک پیار کا نغمہ ہے‘‘ فلم انا میکا کا ’’بانہوں میں چلے آئو، ہم سے صنم کیا پردہ‘‘ فلم روٹی کپڑا اور مکان کا گیت ’’ہائے ہائے یہ مجبوری‘‘ کبھی کبھی کا مشہورِ زمانہ گیت ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘ لیلیٰ مجنوں کا ’’حُسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو‘‘ مقدر کا سکندر کا نغمہ ’’دل تو ہے دل‘‘ ’’سلام عشق میری جاں ذرا قبول کرلو‘‘ اور فلم سرگرم کا ’’ڈفلی والے ڈفلی بجا ‘‘کو پسند کیا گیا۔1980کی دہائی میں فلم کرانتی کا مقبول گیت ’’زندگی کی نہ ٹوٹے لڑی‘‘ کو کون فراموش کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ فلم نصیب کا گانا ’’میرے نصیب میں تو ہے کہ نہیں‘‘ فلم قدرت کا ’’تو نے اے رنگیلے کیسا جادو کیا‘‘ فلم ایک دوجے کے لیے کا مشہور گیت ’’ سولہ برس کی بالی عمر کو سلام‘‘ فلم سلسلہ کا ’’دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے‘‘ فلم لو اسٹوری کا رومانٹک گیت ’’یاد آرہی ہے تیری یاد آرہی ہے‘‘ فلم خوددار کا ’’انگریزی میں کہتے ہیں کہ آئی لویُو‘‘فلم شکتی کا ’’ہم نے صنم کو خط لکھا‘‘ فلم اگر تم نہ ہوتے کا گانا ’’ہمیں اور جینے کی چاہت نہ ہوتی‘‘ فلم رضیہ سلطانہ کا گیت ’’اے دل ناداں‘‘ اور فلم سوتن کا نغمہ ’’شاید میری شادی کا خیال ‘‘ فلم بیتاب کا ’’جب ہم جواں ہوں گے‘‘ فلم جینے نہیں دوں گا ،کا گانا ’’تم یاد نہ آیا کرو‘‘ فلم الگ الگ کا ’’دل میں آگ لگائے ساون کا مہینہ‘‘ فلم نگینہ کا نغمہ ’’میں تیری دشمن، دشمن تو میرا‘‘ چاندی کا ’’میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں‘‘ فلم سوتن کی بیٹی کا گیت ’’ہم بھول گئے ہر بات‘‘ فلم میں نے پیار کیا کا گانا ’’دل دیوانہ بِن سجنا کے مانے ناں‘‘ خوب پسند کیے گئے۔
1990میں فلم آج کا ارجن کا گانا ’’گوری ہیں کلائیاں‘‘ کو سراہا گیا۔ فلم لیکن کے گیت ’’یارا سیلی سیلی‘‘ نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ فلم لمحے کا گانا ’’مورنی باغاں میں بولے‘‘ صنم بے وفا کا گیت ’’چوڑی مزہ نہ دے گی‘‘ فلم ڈر کا گانا ’’تو میرے سامنے‘‘ کنگ انکل کا گیت ’’اس جہاں کی نہیں ہے تمہاری آنکھیں‘‘ فلم ہم آپ کے ہیں کون کا نغمہ ’’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘‘ فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے کا مشہور گانا ’’مہندی لگا کے رکھنا‘‘ فلم دل تو پاگل ہے کا ’’دل تو پاگل ہے‘‘ اور فلم دل سے کا گانا ’’جیا جلے جان جلے، کے چرچےعام ہوئے‘‘۔
نئی صدی کے آغاز میں لتا منگیشکر نے گانا کم کردیا تھا۔ فلم محبتیں کا سپر ہٹ گیت ’’ہم کو ہم ہی سے چرالو‘‘ اور فلم کبھی خوشی کبھی غم کے گیت ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔ 2015تک چند ایک گانے گاتی رہیں۔ کافی عرصے وہ شدید علیل رہیں اور پھر اپنے کروڑوں مداحوں کو چھوڑ کر چلی گئیں ۔ اس میں شک نہیں کہ لتا منگیشکر جیسی آواز صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔