یوں تو تمام اپوزیشن جماعتیں 2018ء کے انتخابی نتائج کو پہلے دن سے ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے اور مبینہ’’سلیکٹڈ‘‘ کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج جاری رکھنے پر آمادہ کیا، مولانا فضل الرحمٰن نے انتخابی نتائج کے خلاف کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے بعد پشاور موڑ پر کشمیر ہائی وے پر طویل دھرنا دیا جو چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی یقین دہانی پر ختم کر دیا گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے دھرنے سے خطاب تو کیا مگر دونوں بڑی جماعتوں کے کارکنوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر رہی، اس موقع پر اپوزیشن جماعتیں دوبارہ مل بیٹھنے پر مجبور ہوئیں مگر حکومت کے خلاف کسی نتیجہ خیز مرحلے میں داخل نہ ہو سکیں،جس پر مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد بنایا گیا، جس نے ملک بھر میں جلسے جلوس اور مظاہرے کئے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا مگر اسلام آباد پہنچنے سے قبل استعفے مولانا فضل الرحمٰن کے سپرد کرنے کی شرط نے معاملہ بگاڑ دیا۔
جس پر پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرکےپی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک سے ہوا نکال دی،مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز نے حکومت کے خلاف کسی نہ کسی انداز میں احتجاج جاری رکھ کر پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کو تقویت پہنچائی۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کو ساتھ ملانے کی کوشش جاری رکھی جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری شہباز شریف کی خصوصی دعوت پر لاہور پہنچ گئے جہاں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر مریم نواز نے باپ بیٹے کا استقبال کر ٹوٹے ہوئے رابطے کو بحال کرنے میں اپنے چچا کی معاونت کی۔
اس ملاقات پر شیخ رشید احمد نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کر رہی تھی مگر کشمیریوں کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹنے والے دو خاندان مزید لوٹ مار کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ پاکستان میں "صاحب اقتدار" خاندانوں کی ملاقات کو مختلف انداز میں دیکھا جا رہا ہے،حکمران اتحاد تو اس ملاقات کو رسمی سمجھتا ہے جسکا مقصد بنیادی اختلاف رائے ختم کرنا اور نیب کے خلاف متحد ہو کر لوٹی گئی دولت کو بچانا ہے مگر پاکستان کے ترقی کے نام پر ان کی لوٹ مار اور بیرون ملک جائیداد خریدنے کے بارے میں سب کچھ جان چکے ہیں اب وہ انہیں اقتدار کے قریب بھی نہیں آنے دیں گے۔
2023ء کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی اور اس کے حلیف ہی کامیاب ہوں گے، کورونا وائرس کے باوجود حکومت نے نظام سنبھال رکھا، ترقی یافتہ ممالک بھی معاشی جھٹکوں کو سہہ نہیں پا رہے مگر کھربوں روپے کے مقروض ہونے کے باوجود ہر شہری کو دو وقت کی روٹی میسر ہے،پاکستان کی برآمدات میں اضافے سے معیشت کو سہارا ملا ہے، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی ریکارڈ سیل ہوئی ہے، آئی ایم ایف سے ایک اعشاریہ صفر پانچ کی چھٹی قسط موصول ہو گئی ہے روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ جاری ہے وزیراعظم کے دورہ چین کے دوران صنعتی تعاون فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوئے،چیئرمین این ڈی آر سی سے عمران خان کی ون ٹو ون ملاقات میں سی پیک منصوبوں کی پیش رفت پر غور کیا گیا۔
وزیر اعظم نے چینی تاجروں کو سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کے حکومتی اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے سی پیک اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین کے شریف خاندان کے ظہرانہ میں شرکت کو حکومت مخالف حلقے بڑی اہمیت دے رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ شہباز شریف کی رہائش گاہ جا کر شاطر سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
دونوں بڑی جماعتوں اور خاندانوں کے مل بیٹھنے سے حیران کن نتائج سامنے آئیں گے پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع ملے گا، مستقبل کے سیاسی تانے بھانے جوڑنے کے لیے انتخابی دنگل لڑنے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، جس سے مطلوبہ سیاسی نقشہ ترتیب دینے میں مدد ملے گی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات پر پارلیمانی جمہوریت کے حامی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کی جمہوریت کے لیے کمٹمنٹ کسی شک و شبے سے بالاتر ہے،ان کی رائے میں پارلیمانی نظام جمہوریت کو لپیٹنے کی خواہش سر اٹھا رہی ہے وزیراعظم عمران خان ملک میں اسلامی صدارتی نظام کے خواہاں ہیں جس کا اظہار وزیر اعلیٰ کے پی کے دھیمے لہجے میں کر چکے ہیں۔
ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تشویش محسوس کر رہی ہے،اعتماد کا فقدان بڑھ رہا ہے،اس ملاقات کے سیاسی پس منظر میں 23 مارچ کو اہمیت دی جا رہی ہےاور یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ کر لیا جائے ورنہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے عمران خان کوئی شارٹ کھیل سکتے ہیں،پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف آرمی چیف کی توسیع میں فریق بننے کو تیار نہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی موقع کی تلاش میں ہے،پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ بن جائے گی مزید ملاتیں ہوں گی، جس میں گرینڈ انڈر اسٹینڈ نگ ہو گی،شفاف انتخابات کا ہدف حاصل کرنے کی تگ ودو کی جائے گی انتخابات میں کسی قسم کی مداخلت کے خاتمے کی ضمانت پر عمران خان حکومت کو دورانیہ پورا کرنے کا موقع دیے جانے کا بھی امکان ہے۔
آرمی چیف کو مزید ایک سال کی توسیع دینے پر تبادلہ خیال کیاگیا ہے، ملاقات کے بعد قائد نواز شریف اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو مرکزی نکات سے آگاہ کر دیا گیا ہے، ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف بھی موجود تھے، ملاقات میں حکومت کے خلاف آئینی آپشنز پر اتفاق کیا گیا۔
شہباز شریف نے واضح کیا کہ پی ڈی ایم کی منظوری سے اکٹھے ہونے کا اعلان ہو گا، ملاقات کے دوران ہی آصف زرداری کا نواز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ ہو گیا ملاقات کے بعد شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ حکومت کے خلاف (ن) لیگ کی دو آراء تھیں نواز شریف کی ہدایت پر یکسو ہو گئے،بلاول بھٹو زرداری نے بھی آئینی آپشنز پر اتفاق رائے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سے پارلیمان کا اعتماد بھی ختم ہونا چاہیے، ہم نے ایک دوسرے کے لانگ مارچ کا خیر مقدم کیا ہے، پہلے مرحلے میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کیا گیا، ملاقات میں (ن) حکومت کے خلاف دھرنے پر بضد رہی تاہم پاکستان پیپلز پارٹی نے حمایت نہیں کی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ اشاروں پر چلنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے،اشاروں پر چلنا ہوتا تو حکومت گنواتے نہ انتخابات ہارتے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے شریف برادران اور زرداری خاندان کی ملاقات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف جن کے پیٹ پھاڑنے کا کہتے تھے خود ان کے گھر پہنچ گئے،سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات جیتنے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی ٹون بھی تبدیل ہو گئی ہے،وہ پہلے جیسے ہارڈ لائنز نہیں رہے، زبان میں شرینی آگئی ہےجس کا مستقبل قریب میں جے یو آئی کو سیاسی فائدہ بھی پہنچنے کا امکاں ہے۔