ایس ایم یوسف کا شمار برصغیر پاک و ہند کی ممتاز و معروف فلمی شخصیات میں ہوتا ہے ، جنہوں نے پاکستان آنے سے قبل بھارت میں دوریاں، آئینہ، نیک پروین، دیور، گرہستی، گماشتہ، مہندی، بھارت کا لال، دولت، رنگیلا مزدور، رنگیلا جوان، کہاں ہے منزل تیری، رائے صاحب، مالک، گرو گھتنٹال اور پتی سیوا کی ہدایات دیں۔ 1960ء کے اوائل میں وہ مستقل پاکستان آگئے اور شعبہ فلم سازی و ہدایت کاری سے وابستہ ہوگئے۔ فیاض ہاشمی پاکستانی فلمی گیت نگاروں میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔
شاعری کا شغف انہیں اپنے والد سید محمد حسین ہاشمی سے حاصل ہوا، جو دلگیر تخلص رکھتے تھے۔ کلکتہ کے ایک بزرگ شاعر علامہ سرور کلکتوی سے فیاض اپنی شاعری پر اصلاح لیتے تھے۔ 1944ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’راگ رنگ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ طالب علمی کے زمانے سے انہوں نے گراموفون کمپنی کے لیے غزلیں، گیت، نعتیں اور قوالیاں لکھنی شروع کردی تھیں۔ طلعت محمود کی آواز میں ان کی لکھی یہ غزل بے حد مقبول ہوئی؎ تصویر میری دل میرا بہلا نہ سکے گی۔
1948ء میں فیاض ہاشمی گراموفون کمپنی کی جانب سے کلکتہ سے ڈھاکا بہ حیثیت جنرل منیجر ریکارڈنگ بھیجے گئے۔ 1950ء میں وہ لاہور آگئے اور 1956ء میں گراموفون کمپنی کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور فلمی دنیا سے بہ طور نغمہ نگار وابستہ ہوگئے۔ نجم نقوی کی فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ سے گیت نگاری کا آغاز کیا۔
معروف عکاس جعفر شاہ بخاری نے جب ہدایت کاری کا ارادہ کیا، تو پہلی فلم ’’انجام‘‘ بنائی اور اس کی موسیقی مرتب کرنے کے لیے انہوں نے جس موسیقار کا انتخاب کیا، وہ نووارد تھا، اے حمید…! جن کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ان سے ’’انجام‘‘ کی موسیقی مرتب کروائی اور پھر اپنی اگلی دو فلموں ’’بھروسہ‘‘ اور ’’فیصلہ‘‘ کے لیے بھی انہوں نے اے حمید ہی کو ترجیح دی۔ ان کے والد شیخ محمد بھی موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل دو فلموں ’’آخری غلطی‘‘ اور اندرراج‘‘ کی موسیقی مرتب دی تھی۔
ایس ایم یوسف، فیاض ہاشمی اور اے حمید کا فنی اعتراف سب سے پہلے فلم ’’سہیلی‘‘ میں ہوا جو 23؍دسمبر 1960ء کو آل پاکستان ریلیز ہوئی ۔ اس کے فلم ساز ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف تھے۔ کہانی حسرت لکھنوی نے لکھی تھی۔ ایس ایم یوسف کی یہ پاکستان میں پہلی فلم تھی، جو شان دار گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ فلم کے مرکزی کردار درپن، شمیم آرا اور نیر سلطانہ نے ادا کئے تھے۔ ’’سہیلی‘‘ کو پاکستان کی پہلی صدارتی ایوارڈ یافتہ فلم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اسے 5؍صدارتی ایوارڈز ملے اور 4؍نگار ایوارڈز اس کے حصے میں آئے۔ اے حمید، فیاض ہاشمی اور ایس ایم یوسف کے باہمی اشتراک کی فلم ’’سہیلی‘‘ کی فقیدالمثال کام یابی میں اس کے گیتوں کا بڑا حصہ رہا، جو ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہوئے۔
٭مکھڑے پہ سہرا ڈالے آجا او آنے والے چاند سی بنو میری تیرے حوالے (نسیم بیگم و کورس)۔٭ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں (نسیم بیگم)۔٭ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے (نسیم بیگم)۔٭سہیلی چن لے اپنا ساتھی گوری چن لے اپنا ساتھی (نسیم بیگ، آئرن پروین و کورس)۔٭کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا (نسیم بیگم، سلیم رضا)۔
ایس ایم یوسف نے اس فلم کے لیے بہترین ہدایت کاری کے صلے میں صدارتی ایوارڈ کے ساتھ نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ ’’سہیلی‘‘ کے بعد ایس ایم یوسف ، اے حمید اور فیاض ہاشمی کا اشتراک فلم ’’اولاد‘‘ میں ہوا، جو 10؍اگست 1962ء کو ریلیز ہوئی۔ تینوں شخصیات کی یہ دوسری اشتراکی فلم بھی گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ فیاض ہاشمی نے اس فلم کی کہانی بھی لکھی تھی۔ الحامد کی فلم ’’ساتھی‘‘ کے بعد یہ وحید مراد کی دوسری فلم تھی، جس میں انہوں نے نیر سلطانہ اور حبیب کے ہونہار بیٹے کا کردار بہ خوبی نبھایا۔ اس فلم کی بھی باکس آفس کام یابی میں اے حمید کی جان دار موسیقی کا حصہ رہا۔ تمام ہی گیت زباں زدعام ہوئے۔
٭نام لے لے کے تیرا ہم تو جئے جائیں گے لوگ یونہی ہمیں بدنام کئے جائیں گے (نسیم بیگم)
٭تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں (نسیم بیگم)
٭تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے (نسیم بیگم)۔ان گیتوں کے علاوہ نعتیہ قوالی منیر حسین، سلیم رضا اور ساتھیوں نے پیش کی۔ ’’اولاد‘‘ کے لیے ایس ایم یوسف نے بہترین ہدایت کار کا اور نیر سلطانہ نے بہترین اداکارہ کے نگار ایوارڈز حاصل کئے تھے۔
ایس ایم یوسف نے ایورریڈی پکچرز کے فلم ساز جے سی آنند کی فلم ’’دُلہن‘‘ کی ہدایات دیں ۔ ان کے ہمراہ نغمہ نگار فیاض ہاشمی تو تھے ، لیکن موسیقی کا شعبہ رشید عطرے کے پاس تھا۔ فلم ’’دلہن‘‘ 1963ء کو سلور اسکرینز کی زینت بنی، مگر فلاپ ثابت ہوئی۔
’’اولاد‘‘ کے بعد ’’دُلہن‘‘ کی ناکامی سے ایس ایم یوسف قطعی دل برداشتہ نہ ہوئے اور انہوں نے اگلی فلم بہ حیثیت فلم ساز ’’پیغام‘‘ بنائی، جس کی ہدایات نذیر اجمیری نے دیں اور فیاض ہاشمی کے تحریر کردہ تمام تر گیتوں کی دہنیں اے حمید نے باکمال بنائیں۔ ’’پیغام‘‘ اپنے نام کی طرح پیامبر ثابت ہوئی اور کام یاب ثابت ہوئی اور بعدازاں نذیر اجمیری کی لکھی اسی ’’پیغام‘‘ کی کہانی کو 1976ء میں معروف ہدایت کار ایس سلیمان نے ’’آج اور کل‘‘ کے نام سے بنا کر پیش کیا اور یہ فلم ڈائمنڈ جوبلی جیسے اعزاز سے سرخرو ہوئی۔ ’’پیغام‘‘ کے گیتوں کو بے حد پسند کیا گیا اور 18؍ستمبر 1964ء کو ریلیز سے قبل اس کے گیت گلی گلی گونجے۔
٭تیری خاطر جل رہے ہیں کب سے پروانے (نورجہاں)۔٭محبت درد میں ڈوبا ہوا پیغام لائی (نورجہاں)۔٭وفائوں کی ہم کو سزا تو نہ دو بس اتنا بتا دو دغا تو نہ دو گے (مالا، نسیم بیگم و کورس)۔٭پیار کیا تو صنم پیار نبھانا دیکھو جی ہم کو کہیں بھول نہ جانا (منیر حسین، آئرن پروین)
٭جا رے جا بے دردی تو کیا جانے پیار تو تو بڑا ہرجائی(نورجہاں)۔٭نہ راس آئی وفا دل لگا کے دیکھ لیا (منیر حسین)۔ ایس ایم یوسف اور ایف ایم سردار کی مشترکہ فلم سازی ’’سہیلی‘‘ اور ’’اولا‘‘ کے بعد ’’پیغام‘‘ میں کام یاب ثابت ہوئی اور پھر ان صاحبان کے فلم سازی ادارے ایف اینڈ وائی موویز کے بینر تلے تیسری گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’آشیانہ‘‘ 9؍اکتوبر 1964ء کو پردہ سیمیں کی زینت بنی۔ فیاض ہاشمی اور اے حمید حسب معمول ’’آشیانہ‘‘ میں تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود تھے۔
اس ’’آشیانہ‘‘ کے لیے ایس ایم یوسف نے اپنا تیسرا نگار ایوارڈ برائے بہترین ہدایت کار حاصل کیا، جب کہ بابر بلال نے بہترین عکاس اور لہری نے بہترین مزاحیہ اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ ’’آشیانہ‘‘ کی کام یابی میں اس کے گیتوں کا غیر معمولی حصہ رہا۔٭جو دل کو توڑتے ہیں ان کا بھی جواب نہیں (منیر حسین)۔٭اوہو بڑے سنگدل ہو بڑے ناسمجھ ہو (احمد رشدی)۔٭اجی دیکھا جو اسے دل نے چپکے سے کہا ہائے (احمد رشدی، مالا)۔٭اک حسین مہربان پیار کا یہ سماں آپ سے سوال ہے (مالا، آئرن پروین)۔٭جا رے بے دردی تو نے کہیں کا ہمیں نہ چھوڑا (مالا و کورس)۔٭بڑے سنگدل ہو بڑے ناسمجھ ہو تمہیں پیار کرنا سکھانا پڑے گا (احمد رشدی، مالا)۔
ایس ایم یوسف، فیاض ہاشمی اور اے حمید کا اگلا فنی اشتراک فلم ’’عید مبارک‘‘ میں ہوا، جو 2؍جولائی 1965ء کو ریلیز ہوئی۔ یہ فلم بھی ایف اینڈ وائی موویز کے بینر تلے ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف نے پروڈیوس کی۔ ’’عید مبارک‘‘ نے خاطرخواہ باکس آفس بزنس کرتے ہوئے شان دار سلور جوبلی منائی۔ ٭او میری گڑیا کا ہے جلوہ نرالا (احمد رشدی)۔٭قسم ہے خدا کی بڑی جچ رہی ہو تم (مالا بیگم)۔٭تقدیر ہنس رہی تھی تم مسکرا رہے تھے (مالا بیگم)
٭کیسے کوئی پیار کرے ہائے یہاں دل کھوٹ بھرے یہاں (مالا بیگم)۔
25؍مارچ 1966ء کو ان تینوں شخصیات کی مشترکہ فلم ’’ہونہار‘‘ ریلیز ہوئی۔ وحید مراد کے ٹائٹل رول پر مبنی اس فلم سے خوبرو اداکار شکیل متعارف ہوئے، جنہوں نے اک خودسر اور بگڑے شخص کا منفی کردار نبھایا، یہ فلم سلور جوبلی سے آگے نہ جاسکی، فلم کے گیت۔
٭جو ہم نے پیار سے دیکھا تو تم نے کیوں برا منانا (نورجہاں)۔٭پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب (نگہت سیما، ریحانہ یاسمین، عشرت جہاں)۔٭محبت تو چھپائی نہیں جاتی (منیر حسین، مالا بیگم)۔٭سنئے تو محترم! رکئے تو محترم! (مالا، احمد رشدی)۔٭کیسا تیری نظروں نے گھائل کیا (مالا بیگم)۔
’’ہونہار‘‘ کے بعد ایس ایم یوسف، فیاض ہاشمی اور اے حمید فلم ’’سہاگن‘‘ میں یکجا ہوئے۔ ’’سہاگن‘‘ 10؍فروری 1967ء کو سلور اسکرینز کی زینت بنی۔ زیبا نے اس فلم میں ڈبل کردار کیے تھے۔ قیصر اور سلیمہ ان کرداروں کے نام تھے۔ ’’سہاگن‘‘ نے بھی سلور جوبلی منائی۔ فلم کے گیتوں کو بھی پسند کیا گیا ۔
’’سہاگن‘‘ کے بعد یہ تِکون ’’شریک حیات‘‘ میں جلوہ گر ہوئی، جو 24؍مئی 1968ء کو سنیما گھروں کی زینت بنی۔ اداکارہ شبنم کا پہلا اشتراک ہدایت کار ایس ایم یوسف سے ہوا، اس فلم کے لیے ریاض الرحمان ساغر اور جان محمد نے بھی گیت تحریر کے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کی بھی ایک غزل فلم میں شامل کی گئی۔ فیاض ہاشمی نے حسب ذیل گیت تحریر کئے تھے جن کی دھنیں اے حمید نے بہت عمدہ کمپوز کی تھیں؎ ٭کسے آواز دوں تیرے سوا ڈھونڈ رہا ہے تجھے پیار میرا (مالا بیگم)۔ ٭تیرے لیے او جان جہاں لاکھوں ستم اٹھائیں گے (نورجہاں)۔٭اک تم ملے تو سارا جہاں مل گیا ہمیں (مالا، منیر حسین)۔
’’شریک حیات‘‘ کے بعد ان تینوں شخصیات کی اگلی فلم ’’بہو رانی‘‘ 4؍جولائی 1969ء کوسنیمائوں کی زینت بنی۔ محمد قوی خان نے اس فلم میں بہترین اداکاری کی اور معاون اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ فیاض ہاشمی کے علاوہ ’’بہو رانی‘‘ کے گیت نگاروں میں تسلیم فاضلی، قتیل شفائی اور ریاض الرحمٰن ساغر بھی شامل تھے۔ ’’بہو رانی‘‘ کے بعد ہدایت کار ایس ایم یوسف کی اگلی فلم ’’زندگی ایک سفر ہے‘‘ یکم ستمبر 1972ء کو ریلیز ہوئی۔ موسیقار اے حمید تو ان کے ساتھ تھے، مگر فلم میں فیاض ہاشمی شامل نہ تھے۔ یہ ایس ایم یوسف کی پہلی رنگین فلم بھی تھی۔
حبیب فلمز کے فلم ساز حبیب الرحمان کی فلم ’’ہار گیا انسان‘‘ کی ہدایات ایس ایم یوسف نے دیں، نثار بزمی موسیقار اور نغمہ نگار ریاض الرحمان ساغر تھے۔ یہ فلم 28؍مارچ 1975ء کو ریلیز ہوئی۔ ایس ایم یوسف نے بعدازاں ’’نیک پروین‘‘ کی ہدایات دیں جو 5؍ستمبر 1975ء کو ریلیز ہوئی۔ موسیقار اے حمید نے اچھی موسیقی دی، مگر فیاض ہاشمی نغمہ نگاری میں شامل نہ تھے۔ انہوں نے بہ طور ہدایت کار آخری فلم ’’گونج اٹھی شہنائی‘‘ جس کے گیت تسلیم فاضلی نے لکھے اور موسیقار ایم اشرف تھے۔
ایس ایم یوسف نے بہ حیثیت فلم ساز آخری فلم ’’گن مین‘‘ بنائی، جس کے ان کے صاحب زادے اقبال یوسف تھے۔ موسیقار طافو اور گیت نگار خواجہ پرویز تھے۔ یہ فلم 8؍مئی 1981ء کو ریلیز ہوئی۔ فیاض ہاشمی، اے حمید اور ایس ایم یوسف کی تکون پر مشتمل زیادہ تر فلمیں کام یابی سے ہمکنار ہوئیں۔ یہ شخصیات اپنے فنی کارناموں کی بدولت ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور ’’سہیلی‘‘ ’’اولاد‘‘ ’’آشیانہ‘‘ ’’پیغام‘‘ ’’عید مبارک‘‘ ’’ہونہار‘‘ ’’سہاگن‘‘ ’’شریک حیات‘‘ اور ’’بہو رانی‘‘ ان تینوں کی یاد دلاتی رہیں گی۔