• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوش لباس، رعب دار شخصیت کا مالک اسلم ڈار مرحوم پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنے کام اور نام کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم شخص تھے۔ انہوں نے اپنی منفرد کارکردگی اور فلموں کے موضوعات کی وجہ سے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائی تھی۔ ان کے والد ایم۔ایس ڈار، پاکستان کی فلمی صنعت کے بانیان میں تھے۔ اسلم ڈار جب پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے، تو ان کے ذہن میں ایک مصور کا خواب تھا۔

پاکستان بنتے ہی وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کے خیالات نے بھی کروٹ لی اور انہوں نے فلم ڈائریکٹر بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے فلم کے سینئر اور معروف عکاس، فلم ساز، ہدایت کار جعفر شاہ بخاری کی شاگردی اختیار کرلی۔ فلم سے متعلق تمام اہم شعبہ جات کو بڑی گہرائی اور دل چسپی سے دیکھنے اور سمجھنے کے بعد وہ فلم ڈائریکٹر بنے۔ جعفر شاہ بخاری کے ساتھ بہ طور معاون عکاس کئی فلمیں کیں۔ ان کے والد ایم۔ایس ڈار نے 1956ء میں فلم ’’سردار‘‘ بہطور ہدایت کار بنائی۔ یہ بہ طور عکاس اسلم ڈار کی پہلی فلم تھی۔ یہ فلم 1957ء میں ریلیز ہوکر بے حد کام یاب رہی۔ صبیحہ، سنتوش، نذر، آشا پوسلے اس فلم کے خاص اداکار تھے۔

بہ طور ہدایت کار پہلی بار ان کا نام ایڈونچر مووی ’’دارا‘‘ کے ٹائٹل پر آیا، جس کے فلم ساز میاں مشتاق تھے۔ اس فلم کی کہانی اور موضوع خود اسلم ڈار نے منتخب کیا۔ یہ جنگل ایڈونچر ٹارزن کے سبجیکٹ پر بننے والی پہلی پاکستانی فلم تھی، جس میں اپنے دور کے مسٹر پاکستان نصراللہ بٹ نے ٹارزن کا کردار کیا تھا۔ نصراللہ بٹ گوال منڈی کے رہنے والے تھے، اداکاری سے مکمل نابلد تھے۔ باڈی بلڈر جسامت جو ٹارزن کے کردار کے لیے اسلم ڈار کو چاہیے تھی، وہ ان کے پاس تھی، جسے انہوں نے ’’دارا‘‘ کے کردار میں پیش کرکے فلم بینوں سے بڑی داد اور کام یابی پائی۔ 

فلم کی ہیروئن کے لیے اداکارہ رانی کو کاسٹ کیا۔ یہ منفرد اور انوکھا تجربہ اس قدر کام یاب ہوا کہ وہ اپنی پہلی ہی فلم سے ایک کام یاب ہدایت کار کے طور پر سامنے آئے۔ ’’دارا‘‘ کی کام یابی کے بعد فلم ساز میاں مشتاق نے انہیں اپنی دوسری فلم ’’آخری چٹان‘‘ کے لیے راضی کرلیا۔ یہ تاریخی کہانی پر مبنی ایک بہت ہی عمدہ ایکشن اور کاسٹیوم فلم تھی، جس میں ایک بار پھر رانی اور نصراللہ بٹ کی جوڑی کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ اس فلم میں ایکسٹرا اداکار کے طور پر کام کرنے والے اداکار سلطان راہی نے پہلی بار سائیڈ ہیرو کا رول کیا۔ 

اس فلم کا ایک گانا ’’ہم ہیں دیوانے تیرے عاشق پروانے‘‘ سدا بہار سپرہٹ نغمہ ثابت ہوا۔ اس فلم میں ڈار، مزاحیہ اداکار رنگیلا کو کاسٹ کرنے گئے، تو انہوں نے انکار کردیا، پھر ان کی جگہ ایک چھوٹے قد کے بونے اداکار رفیق ٹینگو کو انہوں نے کاسٹ کیا اور ان کے ساتھ ایک اور ٹینگو اداکار مینگو کو لیا۔ یہ ان دونوں بونے قد کے اداکاروں نے ایسی شان دار کامیڈی کی کہ عوام نے انہیں بے حد سراہا۔ ’’آخری چٹان‘‘ کی ملک گیر کام یابی کے بعد اسلم ڈار نے اپنی لافانی کہانی پر مبنی فلم ’’دل لگی‘‘ کی کہانی جب فلم ساز کو سنائی تو انہوں نے اس کہانی کو مسترد کردیا۔ 

ایک بار فلم ساز نے ان سے کاسٹیوم ایکشن فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ بنوائی جس میں پہلی بار اسلم ڈار نے بہ طور ولن شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ فلم میں رانی اور نصراللہ بٹ مرکزی کرداروں میں تھے۔ ایک نئی لڑکی اداکارہ نمو کو پہلی بار اس فلم متعارف کروایا۔ ’’سخی لٹیرا‘‘ کے بعد اسلم ڈار نے ایک جاسوسی موضوع پر ’’مسٹر 303‘‘ بنائی۔ سابقہ فلموں کی طرح اس بار بھی رانی اور نصراللہ بٹ فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔۔ یہ فلم سنسر کی سختی کا شکار ہوکر جب ریلیز ہوئی ،تو نمایاں کام یابی حاصل نہ کرسکی۔

’’مسٹر303‘‘ کے بعد ایک اور جاسوسی موضوع پر فلم ’’مُجرم کون‘‘ شروع کی، جس میں معروف ٹی وی اینکر ضیاء محی الدین کو پہلی بار بہ طور ہیرو کاسٹ کیا۔ اداکارہ روزینہ اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب رانی نے حسن طارق سے شادی کرلی تھی۔ نصراللہ بٹ اس طرح کی فلموں کے لیے موزوں نہیں رہے تھے۔ ’’مجرم کون‘‘ بلاشبہ ایک معیاری نغماتی، سسپنس فل مووی تھی، مگر ضیاء محی الدین کو فلم بینوں نے بہ طور ہیرو مسترد کردیا تھا،جس کی وجہ سے یہ فلم ناکام ہوگئی۔ 

فلم میں نورجہاں کا گایا ہوا یہ مقبول گیت ’’میرے محبوب میرے پیار کے قابل تو ہے‘‘ آج بھی اسی طرح مقبول ہے۔ ’’مجرم کون‘‘ کے بعد انہوں نے اپنی پہلی پنجابی فلم ’’بشیرا‘‘ کا آئیڈیا جب اپنے فلم سازوں کو سنایا اور بتایا کہ اداکار سلطان راہی اس فلم میں ٹائٹل رول کریں گے، جس پر فلم ساز رضامند نہ ہوئے کہ اس دور میں اداکار ساون پنجابی فلموں میں کام یاب ٹائٹل رول کررہے تھے۔ ’’انورا‘‘ ’’خان چاچا‘‘ کی کام یابی کے بعد فلم ساز، اداکار ساون کو ٹائٹل رولز میں کاسٹ کرنے کی بات کرتے، مگر اسلم ڈار نہ مانے۔ انہوں نے سلطان راہی سے اس وقت ایک وعدہ کیا تھا کہ ’’میں بہ طور ڈائریکٹر جب بھی کوئی پنجابی فلم بنائوں گا، تو تمہیں ہیرو لوں گا۔ 

یہ وعدہ انہوں نے فلم ’’اسمگلر‘‘ کی عکس بند کے طور کیا تھا، پھر جب ’’بشیرا‘‘ بنانے کا وقت آیا تو سلطان راہی کے پاس گئے اور اپنا وعدہ پورا کیا۔ سلطان راہی کا نام سن کر کوئی فلم ساز سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہ تھا، تو اسلم ڈار نے اس فلم کو خود بنانا شروع کیا۔ اس فلم میں قمر بٹ ان کے پارٹنر تھے۔ ’’بشیرا‘‘ جب ریلیز ہوئی تو اس نے پنجابی سنیما میں کام یابی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ 

’’بشیرا‘‘ کے بعد سلطان راہی اسٹار بن گئے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں انہوں نے اپنی اردو فلم ’’زرق خان‘‘ بنائی، جس میں سلطان راہی اور عالیہ نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم میں انہوں نے ان دکھوں اور جذبات کا اظہار کیا تھا، جو اس حادثے کی شکل میں پیش آئے تھے۔ ’’زرق خان‘‘ 1973ء کی عیدالفطر کی تمام اردو فلموں سے زیادہ کام یاب اور پسند کی گئی۔

’’زرق خان‘‘ کی کام یابی کے بعد رومانی فلم کا برسوں سے جو خیال ان کے ذہن میں تھا، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے اپنی فلم ’’دل لگی‘‘ کا آغاز کیا۔ بہ طور ہیرو ان کے ذہن میں پہلے وحید مراد کا نام تھا، مگر جب انہوں نے اداکار ندیم کو دیکھا تو اپنا خیال بدل دیا اور ندیم کے مقابل شبنم کو ہیروئن لے کر ایک ایسی بے مثال اور عمدہ فلم بنائی، جو پاکستان کے ہر اسٹیشن پر بے حد کام یاب رہی اور آج بھی یہ فلم اپنی عمدہ کہانی، میوزک اور اداکاروں کی پرفارمنس کی وجہ سے بے حد مقبول ہے۔ 

آل ٹائم سپرہٹ اس فلم کے لیے بہ طور ہیروئن شبنم سے قبل ڈار نے اداکارہ ممتاز کو کاسٹ کرنا چاہا، مگر وہ دیگر فلموں میں مصروفیت کے باعث ان کی فلم میں کام نہ کرپائیں۔ ممتاز اس دور میں بہ طور ہیروئن اردو اور پنجابی فلموں میں کاسٹ ہورہی تھیں۔ اسلم ڈار کی کسی فلم میں وہ بعد میں کاسٹ نہ ہوپائیں۔ فلم ’’بشیرا‘‘ کی پورے ملک میں زبردست کام یابی نے انہیں فلم ساز اور ڈسٹری بیوٹر بنا دیا۔ ’’دل لگی‘‘ کے بعد انہوں نے ایک پنجابی فلم ’’بابل صدقے تیرے‘‘ بنائی، جو باپ اور بیٹی کے پاکیزہ رشتے پر مبنی ایک اصلاحی فلم قرار پائی۔ 

سلطان راہی اور عالیہ کو اس بار انہوں نے باپ اور بیٹی کے کرداروں میں پیش کرکے ایک نیا کام یاب ریکارڈ بنایا۔ ’’بشیرا‘‘ کے بہن، بھائی، ’’زرق خان‘‘ کے ہیرو، ہیروئن کو عوام نے بہ طور باپ، بیٹی پسند کرکے ان کے اس تجربے کو کام یاب بنایا۔ یہ اپنی نوعیت کا پاک و ہند کی فلمی صنعت میں پہلا اور انوکھا تجربہ تھا کہ کسی میل اور فیمیل آرٹسٹ کو تین مختلف رشتوں میں دکھایا گیا اور ہر بار عوام نے انہیں پسند کیا۔ مایہ ناز رومانی ہیرو وحید مراد کو انہوں نے اپنی دو فلموں ’’زبیدہ‘‘ اور ’’وعدہ‘‘ کے لیے بالترتیب نِشو اور آسیہ کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا۔ 

دونوں فلمیں اپنی موسیقی اور نغمات کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ’’زبیدہ‘‘ میں بابرہ شریف نے بھی اہم رول ادا کیا، جب کہ ’’وعدہ‘‘ میں دیبا نے بے حد عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ باکس آفس پر یہ دونوں فلمیں کوئی زیادہ کام یابی حاصل نہ کر پائیں۔ معروف اداکارہ مسرت شاہیں کو بہ طور مہمان فلم ’’زبیدہ‘‘ میں کاسٹ کیا۔ یہ ان کا ابتدائی دور تھا۔ لیجنڈ اسٹار محمد علی کو اسلم ڈار نے پہلی بار اپنی یادگار کلاسیکل، نغماتی فلم ’’پہلی نظر‘‘ میں پاور فل اسٹائل میں پیش کیا۔ 

ان کا کردار جانی بدمعاش کا تھا۔ اس فلم کی کہانی تقسیم ہند کے پس منظر میں فلمائی گئی تھی۔ یہ ایک ٹرائی اینگل لو اسٹوری تھی، جس میں محمد علی، بابرہ شریف اور ندیم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اداکارہ آسیہ نے ہندو طوائف ’’چمپا‘‘ کے کردار میں اپنی اداکاری اور رقص کے انمنٹ نقوش چھوڑے۔ یہ فلم اسلم ڈار کے فنی کیریئر میں بڑی اہمیت کی حامل رہی۔ ایکشن، ایڈونچر، جاسوسی، کاسٹیوم، رومانی، معاشرتی فلموں کے بعد انہوں نے دو مکمل مزاحیہ فلمیں ’’بڑے میاں دیوانے‘‘ اور ’’سیاں اناڑی‘‘ بنائیں۔

’’بڑے میاں دیوانے‘‘ سینئر اداکار آغا طالش کے کیریئر کی ایک یادگار فلم تھی، جس میں انہوں نے 5؍بیٹوں کے ایسے باپ کا کردار ادا کیا، جس کی بیگم مر چکی ہے، بیٹے اپنے باپ کو دوسری شادی کرنے کے لیے کہتے ہیں اور پھر وہ بیٹوں کے چکر میں آکر دیوانے ہوجاتے ہیں۔ آسیہ اور ندیم نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے تھے، جب کہ آغا طالش اور تمنا کا پیئر لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ ’’سیاں اناڑی‘‘ میں اداکار ندیم نے ایک بار پھر ایک بھولے بھالے دیہاتی کے کردار میں عمدہ مزاحیہ اداکاری سے فلم بینوں کو خُوب متاثر کیا۔

اداکارہ شبنم نے ان کی ہیروئن کے کردار میں لاجواب اداکاری کی۔ فلم کا میوزک بھی بے حد اچھا تھا۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ مزاحیہ فلم تھی۔ پنجاب کے عظیم پہلوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اسلم ڈار نے ایک بہت ہی خُوب صورت پنجابی فلم ’’گوگا‘‘ ،جس میں مصطفیٰ قریشی نے بہ طور گوگا کردار ادا کیا، جب کہ یوسف خان اور آسیہ نے مرکزی کردار ادا کیے۔ دردانہ رحمٰن اور حبیب کے علاوہ نصراللہ بٹ نے بھی اہم کردار ادا کیے تھے۔ جہیز کی لعنت کے خلاف اور بہت ہی اعلیٰ اصلاحی ’’انوکھا داج‘‘ کا شمار بھی اسلم ڈار کی لاجواب اور خُوب صورت فلموں میں ہوتا ہے۔

اداکارہ دردانہ رحمٰن نے ایک پنجابی فلم میں بہ طور ہیروئن وحید مراد کے ساتھ کام کرکے اپنا شمار ان کی ہیروئنز میں کروایا۔ اس معاشرتی، اصلاحی فلم میں سلطان راہی اور آسیہ نے مرکزی کردار پلے کیے تھے، جب کہ تانی بیگم اور شیخ افضال نے بھی اپنی کردار نگاری کا خُوب رنگ جمایا تھا۔ 1984ء میں اسلم ڈار نے ایک رومانی اور نغماتی پنجابی فلم ’’عشق نچاوے گلی گلی‘‘ بنائی جس میں دردانہ رحمٰن اور ایاز نائیک نے رومانی کرداروں میں لازوال کردار نگاری کی۔ اس فلم کو پورے پاکستان میں سپرہٹ قرار دیا گیا۔

اسلم ڈار کی ہدایت میں بننے والی چند اور فلموں میں ’’سہاگ تیرا لہو میرا‘‘ ’’دو دل‘‘ ’’باغی شیر‘‘ ’’شاہ زمان‘‘ ’’سلسلہ‘‘ ’’داغ‘‘ ’’قدرت دا انتقام‘‘ ’’پیار کرن توں نئیں ڈرنا‘‘ ’’سلسلہ پیار دا‘‘ ’’پھول‘‘ ’’ہم تمہارے ہیں‘‘ ’’ڈولی سجا کے رکھنا‘‘ کے نام شامل ہیں۔

فوٹو گرافی سے ہدایت کار، فلم ساز اور ڈسٹری بیوٹر کا سفر اسلم ڈار نے بڑے باوقار انداز سے طے کیا۔ فلمی صنعت کے لوگوں میں ان کی عزت و مقام کا سبھی خیال رکھتے تھے۔ فلم ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کے وہ تاحیات چیئرمین تھے۔ انہوں نے اس ایسوسی ایشن کو فعال رکھنے میں اپنے بھرپور کردار ادا کیا۔ فلمی دنیا سے تعلق کے علاوہ وہ ملکی اخبارات میں کالم نویسی بھی کرتے رہے۔ ان کے تجزیئے سیاسی اور معاشرتی حالات کا عکس ہوتے تھے۔ 

ان کے ایک بھائی سعید ڈار بھی بطور فوٹوگرافر فلمی دنیا میں رہے۔ بہ طور ہدایت کار ایک فلم ’’اب گھرجانے دو‘‘ بھی بنائی، جس کے فلم ساز اسلم ڈار تھے۔ ان کے صاحب زادے راحیل ڈار بھی فلمی دنیا میں آئے، مگر یہاں کے حالات اور ماحول دیکھ کر جلد ہی وہاں سے لوٹ گئے۔ 24؍دسمبر 2015ء کو اسلم ڈار اس جہان فانی سے وفات پا گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید