• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرقی یورپ میں یوکرین کا مسئلہ آٹھ برسوں سے جاری ہے۔ 2014ء میں منسک معاہدہ طے پایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ روسی آبادی جو ملک کی آبادی کا اُنّیس فیصد ہے وہ مقامی آبادی سے پُرامن طور پر اپنے مسائل حل کرے۔ ایک دُوسرے پر حملے بند کرے مگر اس معاہدہ پر عمل نہیں ہو سکا۔ پھر 2015ء میں منسک میں دُوسرا معاہدہ طے پایا جس میں پچھلے معاہدہ جیسی شرائط شامل تھیں۔ 

اس پر بھی علاقے میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ یوکرین میں آباد روسی بولنے والوں کی اقلیت یوکرین سے علیحدگی چاہتی ہے۔ روس اس میں کیا کردار ادا کررہا ہے، قطع نظر اس کے مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ یوکرین کی مشرقی سرحد روس سے ملتی ہے۔ یوکرین کا مشرقی علاقہ ترقّی یافتہ نہیں ہے اس علاقے میں نسبتاً غربت زیادہ ہے۔ یوں بھی یوکرین میں پسماندگی زیادہ ہے۔ رقبہ بہت بڑا ہے۔ آبادی ساڑھے چار کروڑ کے قریب ہے۔ 

روس کو یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ اگر یوکرین نے یورپی یونین یا نیٹو میں شمولیت اختیار کر لی تو روس کے لئے مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ نیٹو یوکرین میں اپنے فوجی اَڈّے قائم کر سکتا ہے۔ ان خدشات کی وجہ سے روس نے اب یوکرین کا براہ راست محاصرہ کر لیا ہے۔ روس کی ڈیڑھ لاکھ کے قریب برّی فوج یوکرین کی سرحد پر کھڑی جبکہ روسی بحری جہاز کریمیا کی بندرگاہ کا محاصرہ کر کے کھڑے ہیں۔ کریمیا پر روس نے کچھ عرصہ قبل قبضہ کر لیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ روس دوبارہ یوکرین کا اپنے ساتھ انضمام چاہتا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ نوّے کی دہائی میں سابق سوویت یونین جس میں یوکرین بھی روس کا حصہ تھا۔ سابق سوویت یونین شدید مسائل کا شکار تھا۔ تمام مغربی مبصرین اور سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سوویت یونین منتشر ہوگیا جبکہ بعض تجزیہ کار سوویت یونین کے زوال کا ذمہ دار سابق صدور گوربا چوف اور صدر یلسن کو قرار دیتے ہیں کہ ان میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ معیشت کو سہارا دیتے، ایسے میں سوویت یونین بکھر گیا وہ دیکھتے رہے۔ روس کے 1991ء کے انقلاب میں کہیں ایک گولی نہیں چلی۔ ایک شہری زخمی نہیں ہوا اور ایک درجن سے زائد مشرقی یورپی اور وسطی ایشیائی ریاستیں روس سے الگ ہوگئیں۔

بتایا جاتا ہے کہ سابق سوویت یونین میں معیشت کی بدحالی کا یہ حال تھا کہ عوام کو ڈبل روٹی، آلو گوشت اور دیگر غذائی اَجناس کی خریداری کے لئے لمبی لمبی لائنیں لگانی پڑتی تھیں، یہ اشیاء نایاب تھیں ایسے میں عوام کے مسائل اور مصائب بڑھتے جا رہے تھے، پھر سونے پہ سہاگہ کہ بنیادی حقوق میسر نہیں تھے، بولنے لکھنے پر پابندیاں تھیں۔ مگر بعض روس کے حامی حلقے سوویت یونین کے منتشر ہونے کی ذمہ داری مغربی قوتوں پر ڈالتے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے مغربی طاقتیں سوویت یونین میں اپنی درپردہ کارروائیاں کر رہی تھیں۔ ایسے میں سوویت یونین کے رہنمائوں کوپورا دوش نہیں دیا جا سکتا۔ حقائق جو بھی رہے ہوں مگر سچ یہ ہے کہ سابق سوویت یونین اس وقت سپرپاور تھا جوہری ہتھیاروں، میزائلوں، دیگر جدید ہتھیاروں کے ڈھیر لگے تھے اس کے باوجود یہ اتنی بڑی دفاعی لحاظ سے مضبوط مستحکم ریاست بکھر گئی۔

سچ یہ ہے کہ جدید قومی اور سیاسی ریاست کا وجود اور سلامتی کا دارومدار ریاست کے معاشی استحکام میں مضمر ہے۔ جدید ہتھیار، جوہری طاقت روٹی کے بغیر بیکارہے۔ یہ بات کم اَز کم ترقّی پذیر ممالک کےرہنمائوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ میں سابق سوویت یونین نے امریکہ کا مقابلہ تو کر لیا اور سپرپاور بن کر کھڑا ہوگیا مگر معاشی میدان میں مار کھا گیا۔اکیسویں صدی کے دُوسرے عشرے میں خاص طور پر روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوٹن کے برسراقتدار آنے کے بعد سے روس اپنی ماضی قریب کی عالمی حیثیت بحال کرنے کے جتن کررہا ہے۔ 

ہرچند کہ روس کی معیشت آج بھی مستحکم نہیں ہے مگر ہتھیاروں کی دوڑ میں وہ پیچھے نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روس عالمی سطح پر ہتھیاروں کی فروخت میں امریکہ کا دُوسرا مدِّمقابل بن کر سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ نے 1991ء کے بعد سے آج تک اپنے جو نیوورلڈ آرڈر کو لے کر چل رہا تھا اب جاری حالات میں روس ہتھیاروں کی منڈی میں اور چین عالمی تجارتی منڈی میں امریکہ اور یورپ کے مدِّمقابل مضبوط حریف بن کرسامنے آئے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ موجودہ عالمی تناظر میں جتنا طاقتور اور قدآور دکھائی دیتا ہے وہ اندر سے اتناہی بوجھل اور ہراساں بھی محسوس ہوتا ہے۔ 

بین الاقوامی تعلقات عامہ کا طالب علم ضرور جانتا ہوگا کہ امریکہ کی طاقت کا محور نیٹو اوریورپی ممالک ہیں۔ جتنا نیٹو طاقتور ہوگا امریکہ کے لئے اتنا اچھا ہوگا۔ اگر نوّے کی دہائی میں ہی امریکہ اور یورپ مشرقی ملکوں کی سوویت یونین سے الگ ہونے والی ریاستوں کو نیٹو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا تو آج اتنا کھڑاک نہ ہوتا۔ اب روس اپنی بیش تر کھوئی ہوئی انرجی ریکور کر چکا ہے۔ روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوٹن جو روس کی نشاۃ الثانیہ کے نقیب بن چکے ہیں وہ اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہتے اوراب جبکہ روس اور چین نئے معاہدہ دوستی میں شامل ہو رہے ہیں تو روس کا خطّے میں دبائو مزید بڑھ گیا ہے اور امریکہ کے لئے مزید مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔

روس نے کچھ عرصہ قبل یوکرین کے ساحلی علاقے جزیرہ نما کریمیا پر اپنا قبضہ جما لیا، ایسے میں کیا ہوا۔ اب بھی اس کا قبضہ برقرار ہے اور وہاں روس کے بحری جہاز یوکرین کا محاصرہ کر کے کھڑے ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ روس جانتا ہے کہ وہ یورپ کو ہراساں کر سکتا ہے روس یہی کر رہا ہے اور اس کا نتیجہ بھی روس کی توقعات کے مطابق رُونما ہو رہا ہے۔ حال ہی میں فرانس کے صدر نے ماسکو کا دورہ کیا وہاں ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ اب کہہ رہے ہیں روس یوکرین پرحملہ نہیں کرے گا۔ دُوسری طرف جرمنی کے چانسلر نے روسی سفیر سے ملاقات کی اور روس نے جرمنی کو یورپ میں اپنا کردار ادا کرنے اور اس ضمن میں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اسی طرح روس نے ایک حد تک یورپ کی دو بڑی قوتوں کے دِل میں نرم گوشہ پیدا کر لیا۔ 

ایسے میں برطانیہ کے سکیرٹری دفاع ماسکو گئے تو انہیں کول شولڈر دیا گیا کیونکہ برطانیہ یورپی یونین میں نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کے سیکرٹری دفاع خاموشی سے ماسکو سے واپس آ گئے۔ ان حالات میں امریکا کی تشویش بڑھ رہی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی نائب صدر کملا ہیرس کو یورپ روانہ کر دیا کہ وہاں فرانس، جرمنی، برطانیہ سے بات چیت کریں اور یوکرین کے مسئلے پر ان کو زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے اور نیٹو اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ مبصرین کی رائے میں یہ اندازہ کرنا فی الفور مشکل ہے کہ کملا ہیرس یورپی رہنمائوں پر کسی حد تک اثرانداز ہو سکتی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں دوستی تعاون اور اشتراک عمل سے زیادہ قومی مفادات ریاست کا استحکام زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ یورپی ممالک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دیوہیکل روسی ریاست ہماے بغل میں واقع ہے، جبکہ امریکا متلاطم بحراوقیانوس کے دُوسرے کنارے پر واقع ہے۔ اس حقیقت کو تبدیل تو نہیں کیا جا سکتا۔ اب جبکہ امریکانے پولینڈ میں اپنے فوجی دستےاُتار دیئے ہیں تو امریکا کے اس اقدام کو یورپی حلقے مختلف انداز سے دیکھ رہے ہیں۔

ایک حلقے کا خیال ہے کہ امریکا اپنی قوت کا مظاہرہ کر کے روس پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ امریکا، یورپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور دوش بدوش کھڑا ہوگا، جبکہ دُوسرے حلقے کا کہنا ہے کہ اگر نیٹو تذبذب کا شکار ہے تو بھی امریکا تنہا اس مسئلے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ یورپی حلقے جو کہتے رہیں۔ ہر دو جانب سے غریب مشرقی یورپی ممالک کا نقصان ہے کیونکہ اگر فرض کریں کہ خطّے میں جنگ ہوتی ہے تو میدان جنگ تو مشرقی یورپ ہی بنے گا۔کیا امریکا اور روس اس خطّے میں اپنے اپنے سینگ ٹکرائیں گے، نہیں یہ دونوں بڑی طاقتیں ایسا نہیں کریں گی۔ زیادہ سے زیادہ پراکسی وار ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ روس اور امریکا کے جاری اقدام اور دُوسری طرف روس، چین اتحاد سے واضح ہوتا ہے کہ دُنیا ایک نئی سرد جنگ میں داخلہو رہی ہے۔

واضح رہے کہ 2014ء اور اس کے ایک سال بعد دو بار منسک میں یوکرین کے معاملے پر دو معاہدے ہو چکے ہیں جس میں بعض یورپی ممالک نے ثالث کا کردار کیا تھا اور یوکرینی باشندوں اور روسی بولنے والے باشندوں کے مابین جنگ بندی کرائی تھی، مگر پھر ڈیڑھ دو برسوں میں روسی بولنے والے باشندوں نے معاہدہ توڑ دیا اور آمنے سامنے ڈَٹ گئے ہیں۔ ماضی قریب میں یوکرین نے اقوام متحدہ سے اپیل کی تھی کہ کریمیا پر سے روس کا قبضہ چھڑایا جائے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ نے یوکرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا مگر نقّارخانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے۔

دُنیا کے نقّارخانے میں اقوام متحدہ طوطی کے مترادف ہے۔ فرض کریں اگر سلامتی کونسل کوئی ایسی قرارداد منظور کرتی ہے جو روس کو پسند نہیں تو چین اس کو ویٹو کر دے گا۔ اس ویٹو پاور نے دُنیا کےبہت سے تنازعات کو حل نہیں ہونے دیا۔ اس پاور کا ماضی بعید اور قریب میں بیجا استعمال ہوتا رہا ہے۔

مشرقی یورپ اور یوکرین کے تناظر میں محسوس ہوتا ہے کہ روس کے پتّے بھاری ہیں۔ خاص طور پر جرمنی اور فرانس کی نرم پالیسیوں سے اس اَمر کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ امریکا کو قدرے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم برطانیہ اب بھی امریکا کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے اوراس کا جھکائو عموماً امریکا کی طرف ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ برطانوی سیکرٹری دفاع کو اپنےہم منصب کے ساتھ مذاکرات میں سردمہری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بیش تر سیاسی حلقے جو نئی سرد جنگ کے خدشات کا ذکر کرتے ہیں ، یہ بڑی حد تک دُرست ہیں۔ دُنیا دو حصّوں میں بٹ چکی ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ نئی سردجنگ کا بھی آغاز نمایاں ہو رہا ہے۔ روس اور چین ایک طرف اور امریکا یورپ دُوسری طرف کھڑے نظر آتے ہیں۔ مگر ابھی یہ معاملہ پوری طرح اُبھر کر سامنے نہیں آیا۔ یوکرین ایک ٹیسٹ چیک ہے جس کو روس بھی اور امریکا بھی بہت باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔

چین کو کواڈ معاہدہ پر کچھ تحفظات ضرور ہیں جس میں امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ اور بھارت شامل ہیں جن کا فوکس بحیرۂ جنوبی چین ہے جہاں چین کی بحری فوج تائیوان کا محاصرہ کر کے بیٹھی ہے اور چینی طیارے جہاںتائیوا ن کی فضائی حدود کی روزانہ خلاف ورزیاں کرتے ہیں، وہاں برطانیہ نے بھی اپنا طیارہ بردار بحری جہاز اس سمندر میں کھڑا کر دیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر روس واقعی یوکرین سے اُلجھ جاتا ہے تو ایسے میں چین تائیوان پر قبضہ کر لے گا۔ یہ بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ جس طرح چین نے پیش رفت کی ویسا ہی روس کر رہا ہے۔

روس نے کریمیا پر اپنا قبضہ جما لیا نیٹو اور امریکا کوئی بڑا قدم نہیں اُٹھائے گا۔ البتہ تائیوان کا مسئلہ امریکا کے لئے اس لئے زیادہ اہم اور نازک ہے کہ جنوبی بحریۂ چین اور ملاکا اسٹیٹ سے دُنیا کی تیس فیصد سے زائد تجارت ہوتی ہے۔ یہ آبی گزرگاہیں جہاں چین کےلیے اہم ترین ہیں۔ وہیں امریکا، جاپان، تائیوان کے ئے بھی اہم ہیں اس آبی گزرگاہ سے فلپائن، لائوس، ویتنام اور کمبوڈیا کے بھی مفادات وابستہ ہیں۔

اس حوالے سے فلپائن اور ویت نام کا چین سے تنازع بھی ہے۔ ان چھوٹے ممالک کو خدشات ہیں کہ اگر چین تائیوان پر قبضہ کر لیتا ہے تو پھر وہ چھوٹے ملکوں کی طرف آ سکتاہے۔ بھارت نے فلپائن کو براہموس میزائل دے کر چین کو مزید ناراض کر دیا ہے اب بھارت اور دیگر دو درجن سے زائد ممالک بحرہند میں فوجی مشقیں کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئی سردجنگ کا آغاز ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے؟

یوکرین میں بگڑتی صورت حال کا ذمہ دار وہ روس کو ٹھہراتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا دعویٰ ہے کہ کریمیا اس کا اَٹوٹ اَنگ ہے۔ یوکرین کے دعویٰ کو بیش تر یورپی ممالک سمیت اقوام متحدہ کی قرارداد 68/212کے تحت کریمیا کویوکرین کا حصہ تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیادہ اراکین ممالک کریمیا کے معاملے پر یوکرین کے دعویٰ کی حمایت کرتے ہیں اس حوالے سے مبصرین کہتے ہیں کہ جغرافیائی اور تاریخی طور پر کریمیا یوکرین کا حصہ رہا ہے۔

روس نے 2010ء کے بعد سے یوکرین پر نظر رکھنی شروع کی تھی جب یورپی یونین نے یوکرین کو اپنی رُکنیت کی پیشکش کی تھی، مگر اس وقت کے یوکرین کے کمیونسٹ صدر وکٹریا نکوچ نے اس پیش کش کو رَدّ کر دیا تھا۔ اب گزشتہ برس پھر یہی پیشکش سامنے آئی تو صدر کمیونسٹ پارٹی کا نہیں ہے وہ اس پر راضی ہو چکا تھا۔

روس نے دبائو ڈالا کہ یورپی یونین کی پیشکش قبول نہ کرو، مگر یوکرین کے عوام کی اکثریت یورپی یونین کا رُکن بننے کو ترجیح دے رہی تھی تا کہ ان کی غربت پسماندگی دُورہو اور وہ بھی یورپی عوام کی طرح زندگی بسر کریں۔ ظاہر ہے یوکرین اُدھر مغربی بلاک میں چلا جاتا ہے تو دیگر مشرقی یورپی ریاستیں بھی یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بننا پسند کرتیں اس لئے روس آڑے آ گیا۔ کریمیا حقیقتاً یوکرین کا ہی حصہ ہے، اب آبنائے کریمیا پر روس زبردست قابض ہے۔ مختصر یہ کہ طاقتور روس اور دولت مند چین اب اپنا سکّہ چلانا چاہتے ہیں۔

امریکیو یوکرین سے نکل جائو

صدر جوبائیڈن نے امریکی شہری جو بھی یوکرین میں ہیں، انہیں وہاں سےفوری نکل جانے کی ہدایت کر دی ہے۔ امریکی فوجیوں کو لے کر پہلا طیارہ پولینڈ پہنچا، اس کے ساتھ ہی امریکی صدر کا یہ بیان سامنے آیا ہےکہ یوکرین میں اس وقت تقریباً دو ہزار سے زائد امریکی ماہرین اور تاجر یوکرین میں موجود ہیں۔ صدر بائیڈن کے علاوہ پینٹاگون نے بھی کہا ہے کہ امریکیوں کو جلد اَز جلد یوکرین چھوڑ دینا چاہئے۔ 

ان کے ترجمان نے کہا کہ اگر جنگ شروع ہوگئی تو پھروہاں سے شہریوں کو نکالنا مشکل ہوگا۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یوکرین میں امریکی خواتین اور بچّے بھی ہیں۔ امریکی فوجیوں کی پولینڈ آمد کے ساتھ ہی روس نے بھی مزید بیس ہزار فوجی یوکرین کی سرحد پر پہنچا دیئے ہیں۔ امریکی مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا مشرقی یورپ میں جنگ کی دلدل میں پھنس گیا تو یہ لڑائی اس کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ 

امریکی نائب صدر کملا ہیرس مشرقی یورپ کا دورہ کر رہی ہیں اور امریکا کے لئے حمایت کی راہ ہموار کررہی ہیں۔ جو بھی سہی حالات نازک ہیں جنگ سب کو مہنگی پڑے گی۔ دور جدید کی جنگیں اور ان کی جدلیات ماضی سے مختلف ہوں گی۔