وہ عوام جنہوں نے مسلط کی گئی جنگ کی صورت میں گزشتہ تیرہ برسوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتی، جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی پاتال میں گم کر دیا ۔جنہوں نے ڈرون اور خودکش حملوں کا عذاب سہا ۔جنہوں نے نوّے سالہ بابے سے لیکر نومولود بچے تک کی کٹی اور جلی لاشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آنسووٴں کا سمندر سینے میں غرق کر کے انہیں دفن کیا۔ ان عوام کو مبارک ہو کہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پچاس ہزار افراد کے قتل عام کے بعد نکتہ مذاکرات پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کے دامن سے لپکتے ہوئے شعلوں کو اب بجھنا چاہئے مگر مذاکرات پر باہمی رضامندی کے بعد بھی یہ سوال سر پر لٹکا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ اس سوال کاجواب امریکہ، حکومت پاکستان، تحریک طالبان، فوج اور میڈیانے مل کردینا ہے۔
مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت کون سی قوت کے پاس ہے؟ کیا حکومت پاکستان ضمانت دے سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہاں میں دینا یوں مشکل نظرآتا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے اب بھی قومی اتفاق رائے پایا نہیں جاتا۔ جس اتفاق رائے کے حوالے دیئے جاتے ہیں ان کا تعلق پاکستان میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسوں سے ہے۔آل پارٹیز کانفرنس اس ملک میں ہونے والی ان کوششوں کا نام ہے جس میں اختلاف رائے کبھی نہیں ہوتا۔ ہمیشہ اتفاق رائے ہی اعلامیے کی صورت میں سامنے آتا ہے پھر انہی رہنماوٴں کو آپ رات مختلف ٹی چینلز پر ہونے والے پروگراموں میں دیکھیں تو اختلاف رائے سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔ اس سے ہٹ کربھی اگردیکھاجائے تو مذاکرات کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں میں داخلی طور پر دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ مذاکرات کی حامی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف سرفہرست ہیں اور دونوں جماعتیں اب تک داخلی طور پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام نظرآتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں حکمران جماعت کامیاب مذاکرات کی ضمانت کیسے دے سکتی ہے؟
دوسری طرف فوج بھی مذاکرات کی حامی ہے مگرمذاکرات سے پہلے اس بات کا واضح ہونا ضروری ہے کہ خودفوج کی نظرمیں یہ مذاکرات کس قدرنتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔کیا فوج کامیاب مذاکرات کی ضمانت دے سکتی ہے؟یہاں بھی اس سوال کا جواب ہاں میں دینا اس طرح مشکل ہے کہ ماضی کی تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔ مشرف دور میں فوج نے کئی مرتبہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کئے مگر ہر بار امریکہ نے یہ معاہدے ڈرون حملوں کی صورت میں یا دباوٴ بڑھا کر ختم کرا دیئے۔ سب سے پہلا معاہدہ میجر(ر)شوکت سلطان اور کمانڈرنیک محمدکے بیچ ہوا۔ وزیرستان میں طے پائے جانے والے اس امن معاہدے کا فوج اور طالبان کی طرف سے گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ قبائلی عمائدین نے بھی اس میں بھرپور حصہ لیا مگراس معاہدے کی ابھی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی ڈرون حملے میں کمانڈر نیک محمدکواہل خانہ سمیت قتل کر دیا گیا۔ امریکہ کی اس کارروائی کے نتیجے میں طالبان نے معاہدہ ختم کرکے جنگ کا اعلان کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد فوج اور طالبان ایک بارپھرامن معاہدے پررضامندہوئے۔فوج نے عبداللہ محسود کے ساتھ سیزفائرمعاہدہ کیا مگر اس بار بھی امریکہ نے باجوڑ کے ایک مدرسے پرڈرون حملہ کردیا جس میں نوے افراد مارے گئے۔اس حملے کے نتیجے میں طالبان نے معاہدہ ختم کرکے دوبارہ جنگ کا اعلان کردیا۔اس طرح کی کوششیں فوج کی طرف سے ہمیشہ ہوئیں جسے امریکی حملوں نے ہر بار ناکام بنا دیا۔ اس صورتحال میں کیا فوج کامیاب مذاکرت کی ضمانت دے سکتی ہے؟
اب مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت امریکہ کے پاس ہی رہ جاتی ہے تاہم سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ امریکہ طالبان کی طرف سے دی گئی مذاکرات کی پیشکش کو کس نظر سے دیکھتا ہے ؟ بظاہر مذاکرات کا حامی امریکہ طالبان کے نائب امیر اور مذاکرات کے شدید حامی ولی الرحمن محسود کو ڈرون حملوں میں قتل کر دیتا ہے جب ان کی طرف سے مذاکرات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کر نے کے حوالے سے ولی الرحمن کا مرکزی کردار تھا اور دیگر فریقوں کے ساتھ معاملات بھی ولی الرحمن نے ہی طے کر نے تھے ۔مذاکرات کے ماحول میں مذاکرات کے مرکزی کردار کو راستے سے ہٹادینا ، مذاکرات کے عمل کو ناکام بنانے کی ایک سازش کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے ۔
مذاکرات کی سب سے اہم فریق تحریک طالبان کی قیادت ہے۔وزیراعظم کی تقریرکے بعد تحریک طالبان کی صفوں میں اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے۔جنود الحفصہ کے سربراہ ،پنجابی طالبان کے سرپرست اور تحریک طالبان کے مرکزی رہنما عصمت اللہ معاویہ نے جب مذاکرات کا خیر مقدم کیا تو تحریک کے امیر حکیم اللہ محسود نے انفرادی طور پر مذاکرات کو قبول کرنے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں تحریک کی تمام ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے ۔پنجابی طالبان کے سرپرست عصمت اللہ معاویہ کا پنجاب سمیت پورے ملک میں نیٹ ورک موجود ہے جیش محمد ،لشکر جھنگوی اورحرکت المجاہدین کے نالاں کارکنوں کے بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے۔ وہ ملک میں طالبان کو پناہ گاہوں کی فراہمی، ترسیل زر سمیت کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ طالبان نے عصمت اللہ معاویہ کو تحریک سے فارغ کرنے کا ایک مشکوک اور نہ سمجھ آنے والا فیصلہ کیوں کیا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریک طالبان مذاکرات کے حوالے سے خود ساختہ تقسیم پیدا کر کے اہل اقتدار کی ذہنی صورت حال اور سیاسی درجہ حرارت کا اندازہ لگا رہی ہے؟دوسری جانب تحریک طالبان کی جانب سے کارروائیاں بھی جاری ہیں جس سے مذاکرات کا ماحول بھی خراب ہو رہا ہے۔ طالبان مذاکرات سے پہلے باہمی اعتماد سازی کی فضا بنانے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ تحریک طالبان کے ایک اجلاس میں یہ بات بھی کی گئی ہے کہ ان کے لئے دہشت گرد، انتہا پسند، شدت پسند جیسی اصطلاحات استعمال نہیں ہونی چاہئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میڈیا اور حکومت ان اصطلاحات سے دستبردار ہوجائے گی؟
انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق وزیرستان میں کئی قوتوں کے حامی عسکریت پسند اور جنگجو موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے اپنے اپنے مفادات بھی ہوں گے۔ حکومت کے پاس شاید اس کا ریکارڈ بھی موجود ہو ۔کیا حکومت نے مذاکرات سے پہلے ان گروہوں کے بارے میں گھر کے کام کے طور کوئی حکمت عملی ترتیب دی ہے؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو مذاکرات کی کامیابی پر سوال ہیں؟اب سوال یہ ہے کہ کیا ان سوالات کی موجودگی میں کامیاب مذاکرات کا سوال بھی پیداہوسکتاہے؟