اسلام آباد(تجزیہ :،رانا مسعود حسین )چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال نے نئے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعدجلد اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے سپریم کورٹ کے مختلف شعبوں بالخصوس ’’کیس مینجمنٹ سسٹم‘‘ میں قابل ذکر اصلاحات کا عمل شروع کرادیا ہے، تفصیلات کے مطابق جسٹس عمر عطاء بندیال نے امسال 2فروری کو بطور چیف جسٹس آف پاکستان اپنے نئے عہدے کا حلف لیا ہے اور اس کے بعد بیس، اکیس دنوں میں ہی سپریم کورٹ میں مثبت اورقابل ذکر اصلاحات کا عمل شروع کرکے ملک بھر کے عوام ،وکلاء اور سائلین کے نظام انصاف کے حوالے سے حوصلے بڑھا دیئے ہیں، معتبر ذرائع کے مطابق فا ضل چیف جسٹس نے سب سے پہلے تو بطور چیف جسٹس ’’بی ایم ڈبلیو‘‘ گاڑی لینے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بعد چیف جسٹس ہی کے پروٹوکول کی اضافی گاڑیاں بھی واپس کرتے ہوئے اپنے لئے دیگر برادر ججوں کی طرح کا پروٹوکول ہی برقرار رکھا ہے، تیز رفتار نظام انصاف کیلئے مختلف فاضل ججوں پر مشتمل مختلف شعبوں کی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں، مقدمات کی جلد سماعت کیلئے دائر درخواستوں کو موثر بنانے کیلئے سول پروسیجر کوڈ کی دفعہ151کے تحت جلد سماعت کیلئے درخواست کا مخصوص پروفارما تشکیل دلوادیا ہے، جس کے مطابق سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ یا سائلین صرف مجوزہ پروفارمے پر ہی مقدمہ کی جلد سماعت کے حوالے سے درخواست جمع کراسکیں گے، مجوزہ پروفارما جو کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ڈائون لوڈ کیا جا سکتا ہے، میں کیس کا نمبر، ٹائٹل اورکٹیگری لکھی جائے گی اس کے بعد ماتحت عدالتوں سے سپریم کورٹ تک ہونے والی کارروائی کی مختصر تاریخ اور درکار ’’داد رسی‘‘ لکھی جائے گی، اس کے بعد درخواست گزار مقدمہ کی جلد سماعت کی وجہ لکھے گا، جس کے بعد جلد سماعت کی باقاعدہ استدعا کرتے ہوئے مقدمہ مقرر کرنے کی متوقع تاریخ بھی لکھی جائے گی، اس کے علاوہ وہ بیان حلفی دے گا کہ یہ اس مقدمہ میں جلد سماعت کیلئے پہلی یا دوسری درخواست ہے، اسی طرح وکلاء کی جانب سے کسی مقدمہ میں کنسائز اسٹیٹمنٹ جمع کرانے کیلئے بھی ایک پروفارما تشکیل دیا گیا ہے، یہ پروفارما بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اس سے قبل مقدمات کی کاز لسٹ جمعہ یا ہفتہ کے روز جاری کی جاتی تھی، جس سے دور دراز شہروں سے اسلام آباد آنے والے وکلاء اور سائلین کو سخت پریشانی ہوتی تھی لیکن اب یہ کاز لسٹ جمعرات کی شام تک سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی جاتی ہے جبکہ بنچوں کو مستحکم رکھنے اورانصاف ہوتا ہوا نظر آنے کیلئے پانچ روزہ عدالتی ہفتے کے دوران پیشگی تشکیل دیئے گئے بنچوں میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کردی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق ملک میں قانون سازی کے حوالے سے حکومت کو فیڈ بیک دینے والے ادارے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان میں سیکرٹری کی خالی اسامی پر محترمہ رفعت انعام بٹ کی تعیناتی کے بعد اسے ایک بار پھر فعال کیا جارہا ہے، مقدمات کو جلد نمٹانے اور غیرضروری التوا کے خاتمہ کیلئے بھی ایک مربوط پالیسی تشکیل دیتے ہوئے ہر بنچ کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر ایک درجن سے زائد مقدمات مقرر کئے جارہے ہیں جس سے مقدمات نمٹانے کی شرح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، سب سے اہم بات یہ کہ فاضل چیف جسٹس نے نیا عہدہ سنبھالنے کے بعد سائلین اور وکلاء سمیت سب کے ساتھ انتہائی نرمی اور شفقت کا رویہ اپنالیا ہے، ان کے حالیہ اقدامات، مثبت رویہ اور اصلاحات کے عمل کی بناء پر ماضی قریب میں پیدا ہونے والا ججوں میں تقسیم کا تاثر بھی تیزی سے زائل ہورہا ہے، سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی مختلف انتظامی کمیٹیوں کا سربراہ بنا دیا گیا ہے اور ان کا بھی چیمبر تبدیل کردیا گیا ہے، جس کے بعد ذرائع کے مطابق انہوں نے کافی عرصہ بعد برادر ججوں کے ہمراہ ایک بار پھر ’’ٹی روم‘‘ میں بیٹھنا شروع کردیا ہے، قانون دان برادری نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی برف پگھل جائے گی اور عدالت کی تقسیم کا تاثر مکمل طور پر زائل ہوجائے گا، اس سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ کے سامنے عام طور پر معمولی نوعیت کے مقدمات ہی مقرر کئے جاتے تھے، لیکن اب ان کے بنچ میں ٹیکس اور دیگر اہم نوعیت کے مقدمات بھی مقرر کئے جارہے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ جلد ہی ان کی سربراہی میں مفاد عامہ کے اہم ترین مقدمات کی سماعت کیلئے لارجر بنچ بھی تشکیل دیئے جائیں گے، عدالت میں بیس اکیس روز میں مقدمات کو نمٹانے کی شرح میں بتدریج اضافہ نوٹ کیا گیا ہے، فاضل چیف جسٹس نے7فروری سے شروع ہونے والے5روزہ عدالتی ہفتے کے دوران مقدمات کی سماعت کیلئے اسلام آباد اور کراچی میں مجموعی طور پر سات مختلف بنچ تشکیل د یئے تھے، جبکہ 14فروری سے شروع ہونے والے پانچ روزہ عدالتی ہفتہ کے دوران مقدمات کی سماعت کیلئے اسلام آباد پرنسپل سیٹ پر 5بنچ تشکیل دے دیئے تھے اور ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، سپریم کورٹ میں یکم فروری سے 15فروری کے دوران 976مقدمات نمٹائے گئے ہیں جبکہ638نئے مقدمات دائر ہوئے ہیں، یکم فروری کو عدالت میں 53 ہزار 624مقدمات زیر التوا تھے، جو کہ 15فروری کو53ہزار286ہو چکے تھے، عدالت میں اب بڑی تعداد میں جیل پٹیشنیں بھی سماعت کیلئے مقرر ہونا شروع ہوگئی ہیں، فاضل چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں انتظامی اور جوڈیشل اختیارات سے متعلق کمیٹیوں کی تشکیل نو کردی ہے، اس سلسلے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال بذات خود بلڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ بھی شامل ہیں، بلڈنگ کمیٹی سپریم کورٹ کی عمارت، ججز گیسٹ ہائوسز وغیرہ کے معاملات دیکھے گی، جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکو سپریم کورٹ ریسرچ سینٹر افئیرز کمیٹی کا انتظامی جج مقرر کیا گیا ہے، اس کمیٹی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لاء کلرک پروگرام کمیٹی کے بھی سربراہ ہوں گے، اس کمیٹی میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی شامل ہیں، دو رکنی کمیٹی لاء کلرکوں کی تقرریوں کی سفارشات کرے گی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انرولمنٹ کمیٹی کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا ہے، اس کمیٹی میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد بھی ان کے ساتھ شامل ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بلوچستان کی انسداد دہشت گردی عدالتوں کا مانیٹرنگ جج بھی مقرر کیا گیا ہے، اسی طرح جسٹس سردار طارق مسعود کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کا مانیٹرنگ جج، جسٹس اعجاز الاحسن کو پنجاب کی انسداد دہشت گردی عدالتوں کا مانیٹرنگ جج، جسٹس مظہر عالم میاں خیل کو صوبہ خیبر پختونخوا کی انسداد دہشت گردی عدالتوں کا مانیٹرنگ جج جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ کو صوبہ سندھ کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا مانیٹرنگ جج مقرر کیا گیا ہے، یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس عطا بندیال بالحاظ عہدہ سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں، جس کے بعد مذکورہ بالا تین اداروں کی ہیت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے، سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کی روشنی میں نئی صورتحال میں سپریم جوڈیشل کونسل(سپریم کورٹ کے 3 ججوں کی حد تک)چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی چیئرمین شپ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر پر مبنی ہوگی، تاہم ملک کی پانچوں ہائی کورٹوں میں سے دو ہائی کورٹوں کے سب سے سینئر چیف جسٹسز بھی اس کے ممبر ہوتے ہیں، جبکہ رجسٹرار سپریم کورٹ اس کا سیکرٹری ہوتا ہے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان(سپریم کورٹ کے4 ججوں کی حد تک)چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی چیئرمین شپ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل ہوگا جبکہ رجسٹرار سپریم کورٹ اس کا بھی سیکرٹری ہوتا ہے، اس کے دیگر ممبران میں سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور پاکستان بار کونسل کے نامزد نمائندہ اختر حسین ایڈووکیٹ شامل ہیں، صوبائی سطح پر ایڈووکیٹ جنرل، صوبائی وزیر قانون اور صوبائی بار کونسل کا نامزد نمائندہ اس کا ممبر ہوتا ہے، لا اینڈ جسٹس کمیشن، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی چیئرمین شپ میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، چیف جسٹس وفاقی شریعت عدالت محمد نور مسکان زئی، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، احمد علی ایم شیخ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید خان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، نعیم اختر افغان، وفاقی سیکرٹری قانون و انصاف راجہ نعیم اکبر اور چیئر پرسن نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف وومین نیلوفر بختیار پر مشتمل ہوگا، یہ بھی یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معاشی و سماجی مسائل اور آبادی میں بے ہنگم اضافے کے معاملات پر تمام فریقین کو مل کر کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ تنازعات کے فوری حل کیلئے سپریم کورٹ کے براہ راست دائرہ اختیار کو بھی استعمال کیا جائے گا، اانہوں نے عدالت میں زیر سماعت مقدمات جلد نمٹانے کیلئے تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ مقدمات کے التوا کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، انہوں نے وکلاء پر اپنے مقدمات میں تحریری معروضات اور جامع بیان جمع کرانے کا نظام اپنانے پر زور دیا تھا، فاضل چیف جسٹس نے سائلین کی داد رسی کیلئے عدالتوں کا ’’پرفارمنس آڈٹ‘‘ کرانے کی بھی تجویز دی تھی، فاضل چیف جسٹس، عمر عطاء بندیال کی پیش کردہ تجاویز اور جوڈیشل ویژن پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس سے امید کی جارہی ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی کا عمل وقت اور حالات کے مطابق تیز تر ہوجائے گا ۔