خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جس کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق صوبہ کے17اضلاع کی 66تحصیلوں میں سٹی میئر اور تحصیل چیئرمین کی نشستوں پر جمیعت علمائے اسلام نے24تحصیل نشستیں جیت کر میدان مار لیا ہے ، صوبہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف کا 17 نشستوں پر کامیابی کیساتھ دوسرا نمبر ہے، 10 آزاد امیدوار بھی فتح یاب ہوئے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی نے7، مسلم لیگ(ن) 3، جماعت اسلامی 2، تحریک اصلاحات پاکستان 2 اور پیپلز پارٹی صرف ایک تحصیل نشست اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے،13فروری کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کے ضمنی انتخابات میں سب سے بڑا مقابلہ ڈیر ہ اسماعیل خان کے میئر کی نشست پر تھا جہاں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور اور صوبائی وزیر بلدیات فیصل امین گنڈا پور کے تیسرے بھائی عمر امین گنڈا پور تحریک انصاف کے امیدوار تھے جن کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی اور جمیعت علمائے اسلام کے امیدوار کفیل نظامی کیساتھ تھا۔
بظاہر عمرامین گنڈا پور اور فیصل کریم کنڈی کے مابین سخت مقابلہ کی توقع کی جارہی تھی تاہم تحریک انصاف کے عمر امین گنڈا پور63ہزار ووٹ لیکر تقریباً30ہزار ووٹوں کے ایک بڑے فرق سے کامیاب قرار پائےجن کے مقابلہ میں فیصل کریم کنڈی32 ہزار ووٹ لے پائے البتہ جمعیت علمائے اسلام کے امیدوارنے 38ہزار ووٹ حاصل کئے، ڈیرہ اسماعیل میں کامیابی سے جہاں تحریک انصاف نے 19دسمبر کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کسی حد تک کم بیک کیا تو وہاں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اگر اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کی مدمقابل ہوں گی تو اسکا تمام تر فائدہ تحریک انصاف کو ہی پہنچے گا۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کے نتائج یقیناً صوبہ کی تمام سیاسی جماعتوں کیلئے چشم کشا ہیں کیونکہ اگر ان انتخابات کے خلاف توقع نتائج نے بعض سیاسی جماعتوں کی قیادت کو حوصلہ دیا تو کئی جماعتوں کو اپنے مستقبل پر فکر مند ہونے پر بھی مجبور کیا ہے، اگرچہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب تو نہیں ہوسکی ہے مگر صوبہ کی دوسری جماعتوں کی نسبت اس نے سب سے زیادہ ووٹ ضرور حاصل کئے ہیں جس کے باعث تحریک انصاف اب بھی اپنے آپ کو خیبر پختونخوا کی مقبول ترین پارٹی قرار دے رہی ہے، صوبہ کی ایک اہم قوم پرست جماعت قومی وطن پارٹی گزشتہ عام انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات کے اس پہلے مرحلہ میں بھی بدترین شکست سے دوچار ہوئی اور اس مرتبہ بھی کوئی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی جو پارٹی قیادت کیلئے یقیناً انتہائی تشویش ناک امر ہے۔
اسی طرح صوبہ کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اگرچہ سٹی میئر مردان سمیت 7تحصیلوں پر کامیابی حاصل کی ہے تاہم اے این پی اس مرتبہ بھی توقعات کے مطابق صوبہ کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اے این پی کے قائد اسفند یارولی خان کے ہوم گراؤنڈ ضلع چارسدہ میں شکست نے تو کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں کہ کیا اے این پی آئندہ عام انتخابات میں صوبہ کی سیاست میں وہ مقام حاصل کرپائے گی جو ماضی میں اس کے پاس ہوا کرتا تھا کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اے این پی کے مضبوط گڑھ تصور کئے جانے والے اضلاع پشاور، چارسدہ، صوابی ، نوشہرہ اور مردان میں اسے یقیناً دھچکا ہی لگا ہے۔
اگرچہ مردان، بونیر، نوشہرہ اور صوابی کی بعض نشستوں پر ضرور کامیابی ملی ہے تاہم اس کامیابی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اے این پی کو عام انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اگر جمعیت علمائے اسلام نے سب سے زیادہ نشستیں جیت کر ایک طرف تحریک انصاف کو حیران کیا ہے تو دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو وہ صرف 2نشستیں حاصل کرپائی ہے حالانکہ جماعت اسلامی کی قیادت کا دعویٰ تھا کہ ان کی جماعت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریگی ، بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں پیپلز پارٹی بھی مشکلات سے دوچار نظر آئی اور صرف ایک نشست جیت کرصوبہ کی غیر مقبول جماعت ثابت ہوئی۔
مسلم لیگ ن کی 3نشستوں پر کامیابی کو بھی کوئی شاندار فتح قرار نہیں دیاجاسکتا ، بہرحال اپوزیشن جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کے نتائج کو مد نظر رکھ کر اب بھر پور قوت کیساتھ دوسرے مرحلہ کی تیاری کرنا ہوگی کیونکہ صوبہ کے باقی ماندہ 18اضلاع میں 31مارچ کو انتخابی میدان سجے گا جس کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانیکا مرحلہ 18فروری اور کاغذات کی جانچ پڑتال کا عمل 23فروری کو مکمل ہو چکا ہے ،2 مارچ کو امیدواروں کی نظر ثانی شدہ فہرست جاری کی جائیگی جس کے بعد4 مارچ کو امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ ہوں گے جبکہ 4 اپریل کو انتخابی نتائج مرتب کئے جائیں گے۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں شکست کے بعد صوبہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف دوسرے مرحلہ میں بھر پور تیاری کیساتھ میدان میں اترنے کیلئے کمربستہ ہے ، صوبائی صدر پرویز خٹک نے صوبہ بھر میں پارٹی کو فعال بنانے اور کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے تمام اضلاع میں کوآرڈی نیٹر مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ریجنل کوارڈی نیٹرز کو کارکنوں سے رابطوں کی ہدایت کی ہے تاکہ کارکن آنے والے الیکشن میں پارٹی امیدواروں کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کمپین کریں، بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی تحریک انصاف کے بعض صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی اپنے بھائیوں، بیٹوں اور قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹ دینے کے خواہش مند ہیں جنہوں نے اپنے چہیتوں کے نام امیدواروں کی فہرست میں شامل کرکے پارلیمانی بورڈ کے سامنے پیش کردئیے ہیں۔
تاہم بورڈ نے مزید مشاورت تک امیدواروں کا اعلان موخر کردیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان خبردار کیا ہے کہ پارٹی ٹکٹ کیلئے سفارش کرنیوالے وزیر اور ارکان پارلیمنٹ انتخابی نتائج کے بھی ذمہ دار ہوں گے، اگر بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ کا جائزہ لیا جائے تو ملاکنڈ ڈویژن میں عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا بھی اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے تاہم ملاکنڈ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا ہوم ڈویژن ہے جہاں کامیابی کا حصول تحریک انصاف کیلئے عزت کا معاملہ ہے، ہزارہ ڈویژن میں بھی تحریک انصاف سرگرم ہے تاہم وہاں مسلم لیگ ن بھی مقابلہ کیلئے تیار ہے، کوہستان کے تینوں اضلاع کیساتھ ضلع تورغر اور بٹ گرام میں بھی اے این پی اور جے یو آئی صف بندی میں مصروف ہیں ، اسی طرح چار قبائلی اضلاع میں ھی تحریک انصاف اور جے یو آئی کے مابین سخت مقابلہ کی توقع ہے جس سے لگ رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی دلچسپ ہوگا۔