• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی اعلٰی تعلیم دلوائیں، جس کے لیے وہ دن رات محنت کرتے ہیں اور اپنی خواہشات اور ضروریات کی پروا کیے بغیر اُنہیں اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔ بیش تر والدین اپنی بیٹی کو بھیجنے سے پہلے کیا کیا سہانے خواب سجاتے ہوں گے، کتنی شدت سے بیٹی کی ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلینے کا انتظار کیا ہوگا؟ بیٹی کو سفید کوٹ میں تو نہ دیکھ سکیں لیکن سفید کفن میں ضرور دیکھ لیا ۔کیا گزری ہوگی اُس وقت اُن کے دلوں پر۔ 

گزشتہ چند سالوں میں مختلف میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طالبات نے یا تو اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کرلی یا کسی نے اُن کی سانس کی ڈور کاٹ دی۔ان واقعات نے والدین کو مزید خوف میں مبتلا کردیا ہے ۔ آج کل تعلیمی اداروں میں پے در پے دل دہلا دینے والے واقعات نے والدین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے، یہ کسی بڑے المیے سے کم نہیں ہوتا ہے۔

نائلہ رند
نائلہ رند

قارئین کو یاد ہوگا کہ2017 ء میں سندھ یونیورسٹی جام شورو کے گرلز ماروی ہاسٹل کی طالبہ، نائلہ رند کی لاش ہاسٹل کے کمرے سے ملی تھی ،جس کو خود کشی قرار دیا گیاتھا، نائلہ کا تعلق دادو کے علاقے میہٹر سے تھا۔ اس کی خودکشی کا معمہ حل کرنے کے لیے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ نائلہ کی ایک آدمی سے واٹس ایپ پر دوستی تھی، جس نے اس کو بلیک میل کیا اور دھوکا دیا ،جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی کوختم کرلیا ۔چند دن تو اس معاملے پر شور ہوگیا، پھرسب بھول گئےکہ کوئی المنا ک واقعہ پیش آیا تھا۔

نمرتا کماری
نمرتا کماری

دوسال بعد2019ء میں آصفہ ڈینٹل کا لج،لاڑکانہ کی فائنل ائیر کی طالبہ نمرتا کماری کی خود کشی کی خبر آئی ،نمرتا کا تعلق کراچی سے تھا۔ اس کی لاش بھی ہاسٹل کے کمرے میں پائی گئی ،مگر آج تک اس کیس کی تہہ تک نہیں جا یا جاسکا اور نہ یہ جانے کی کوشش کی گئی کہ خودکشی کرنے کی وجہ کیا تھی،اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو جان سے ہی مار دیا۔

ابھی تک یہ پتانہیں چل سکا کہ نمرتا نے خودکشی کی تھی یا اس کا قتل کیا گیا تھا۔ اب حال ہی میں جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں انکوائری افسر سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ اقبال حسین میتلو نے نمرتا کی موت کا ذمہ دار اس کے دوستوں کو ٹھہرایا ہے۔ ابھی ان واقعات پر چہ موگوئیاں ہورہی تھیں کہ ستمبر 2021ءمیں چانڈ کا میڈیکل کالج کی سیکنڈ ائیر کی طالبہ، نوشین شاہ کی لاش ہاسٹل کے کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی ۔اس کا تعلق سندھ کے ضلع دادو سے تھا اور یہ سند ھ کے نامور شاعر استاد بخاری کی نواسی تھی۔

نوشین کاظمی
نوشین کاظمی

نوشین کے کمرے سے ایک ڈائری بھی ملی ،جس میں گھریلو مسائل کے بارے میں درج تھا ۔25 نومبر 2021ء کو نوشین کاظمی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوشین کی موت پنکھے سے لٹکنے اور دم گھٹنے کے باعث واقع ہوئی، اس کے گلے پر 26 سینٹی میٹر لمبے اور 1 سینٹی میٹر چوڑے نشانات پائے گئے، دونوں پھیپھڑوں پر خون کے نشانات بھی ہیں، تاہم جسم پر کسی تشدد کے نشانات کا رپورٹ میں ذکر نہیں کیا گیا ،لہٰذا نوشین کی موت کو بھی خود کشی کانام دےدیا گیا۔ 10 فروری 2022ءکو نمرتا کماری اور نوشین شاہ کی ڈی این اے رپورٹ جاری کی گئی ،جس میں بتا یا گیا ہے کہ دونوں لڑکیوں کے جسم اور کپڑوں سے ایک ہی مرد کاڈی این اے ملا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مجرم کا تعلق ہاسٹل سے ہے ،مگر تاحال اس کوگرفتار نہیں کیا گیا۔

حال ہی میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نواب شاہ میں نرسنگ ہاؤس کی طالبہ، پروین رند کو ہراساں کیا گیا۔ وہ انصاف کی تلاش میں ننگے پائوں سندھ ہائی کورٹ پہنچی ،جہاں اُس نے بتا یا کہ، میں اپنے کمرے میں تھی کہ 3 عورتیں داخل ہوئیں ،جنہوں نے یونیورسٹی میں سب کے سامنے مجھے مارا ،گھسیٹا اور تشدد کیا ،میں نے اور دیگر ساتھیوں نے انتظامیہ سےشکایت کی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

پروین رند
پروین رند

پروین رند نے یونیورسٹی کے تین افراد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اسے قتل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔ جب کہ میڈیکل رپورٹ سے اس کے جسم پر تشدد کے نشانات اور گلا گھونٹنے کی تصدیق بھی ہو ئی ہے۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ نوکری چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے، اس کی وجہ سے میرا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔ پروین رند کا کہنا ہے کہ ہاسٹل میں لڑکیاں خودکشیاں نہیں کرتیں بلکہ انہیں مار کر خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے، انہیں پنکھے سے لٹکایا جاتا ہے، مارا جاتا ہے۔

رند کا یہ بیان ان تمام لڑکیوں کے واقعات کی دوبارہ شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے، جنہیں موت کی نیند سلادیا گیا ہے۔ پروین رند کی بے بسی نے معاشرے کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر تعلیمی اداروں میں طالبات کی عز ت محفوظ کیوں نہیں ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ادارے کسی مافیا کے قبضے میں ہیں۔ یہ واقعات کسی ایک تعلیمی ادارے کے نہیں بلکہ ان تمام تعلیمی اداروں کے ہیں جہاں پر درندہ صفت افراد اور گروہ طالبات کو بلیک میل کرکے ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

اس سے قبل بھی جامعات میں ہونے والے ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جو چند دن تو توجہ کا مرکز بننے ،بعد ازاں دیگر واقعات کی طرح ماضی کا حصہ بن گئے، نہ جانے جامعات میں ہراسانی کے کتنے ایسے واقعات ہوئے ہوں گے جو خبروں کا حصہ نہیں بنے۔ سندھ کی جامعات پر عرصے سے یہ تنقید ہو رہی ہے کہ وہاں پر ایسے جرائم پیشہ گروہ سر گرم ہیں جو زیر تعلیم طالبات کو امتحانات میں پاس کرنے اور نمبر زیادہ دینے کی آڑ میں جنسی طور پر ہراساں اور بلیک میل کرتے رہتے ہیں ،جس کے باعث طالبات ڈر خوف کی وجہ سے خودکشی کرلیتی ہیں۔

ورثاء انصاف کے لیے شور مچاتے ہیں، عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں لیکن انصاف نام کی کوئی بھی چیز ہاتھ نہیں آتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طر ح کے واقعات کو کس طرح روکا جائے؟ جب تک اس طرح کے واقعات کی شفاف تحقیقات نہیں ہو گی، جب تک تعلیمی اداروں میں بیٹھے چار پیروں والے بھیڑیوں کو سزا نہیں ملے گی، جب تک اس حوالے سےبنائے گئے قوانین پر عمل نہیں ہوگا، جب تک معاشرتی بے حسی اور دقیانوسی سوچ ختم نہیں ہو گی، تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور ان کو خودکشی کا نام دیا جاتا رہے گا۔

خودکشی کرنے کی کیا وجہ ہے اس کو جاننے کی زحمت کوئی نہیں کرے گا۔ مسلسل ایسے واقعات پیش آنے کی وجہ سے کئی والدین اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم نہ دلوانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس دور میں اعلیٰ تعلیم لڑکوں کی پہنچ سے کتنی دور ہے۔ ایسے میں لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ جب وہ اپنا اور اپنی قوم کا مستقبل سنوارنے کے خواب لے کر کالج اور جامعات میں آتی ہیں تو انہیں ہر روز وحشی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر طنز اور تنقیدی جملے سننے کو ملتے ہیں۔ اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی وہ تعلیم حاصل کرتی ہیں، مگر کئی طالبہ تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر بیٹھے وحشی درندوںکا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ سمجھ نہیں آتا کہ ملز موں کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا۔ چند روز قبل سند ھ یونیورسٹی کی طالبہ ،الماس بہان کو اغوا کرنے کا واقعہ بھی پیش آیا،جس کی رپورٹ درج کرنے کے باوجود بھی ملزم کو پکڑا نہیں گیا۔

الماس نے اپنی تعلیم جاری نہ رکھنےکا فیصلہ کیا ہے۔ حکام بالا اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی عارضی یا معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ ان تمام واقعات پر سخت کارروائی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ قوم کی بہنیں، بیٹیاں زندگی کی بازی ہارتی رہیں گی۔