• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست بازیگری کا نام ہے۔ اتار چڑھاؤ ، داؤ پیچ اور رسہ کشی اقتدار کے ایوانوں کی عمومی مثالیں ہیں۔

دنیا کے دیگر علوم کی طرح سیاسیات کے بھی قرینے اور آداب ہوتے ہیں، جدید سیاسیات نے مختلف طرز حکومتوں کی بنیاد فراہم کیں۔ ارسطو کو جدید علم سیاسیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ معاشرے کی سیاسی تنظیم کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ کسی دوسری معاشرتی تنظیموں کو نہیں حاصل ہو سکتی۔ 

رسم و رواج، اخلاقیات ، معیشت ، تہذیب کا تحفظ اور نمو اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک معاشرہ سیاسی طور پر منظم نہ ہو۔ کارل مارکس کے نزدیک، ’’ ظلم واستبداد انقلاب کو جنم دیتا ہے۔‘‘ علم سیاسیات بھی ایسے کئی اصولوں کا مجموعہ ہے جو عرصہ دراز سے انسانی مشاہدہ اور تجربہ کا نچوڑ ہیں۔ حکمرانوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ عوام اور خواص کے مزاج اور اندازِ فکر سے آگاہ ہوں۔ فرد اور ریاست کے درمیان رابطہ اور ان کے مزاج کے مطابق اقدامات ضروری ہیں ریاست میں ہونے والی تبدیلیاں ان ہی اسباب کا ثمر ہوتی ہیں۔

آج کل کے نوجوانوں میں سیاسیات پڑھنے کا شوق تو بہت ہے، مگر جب عملی سیاست کی بات کی جائے تو بیشتر نوجوان اسے پر پیچ اور خار دار تصور کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو عملی سیاست کی جانب راغب کرنے میں یوتھ پارلیمنٹ کا بہت کردار ہے۔ یہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جس کے ممبرز پورے پاکستان سے نوجوان طلبہ و طالبات ہیں۔ یہ تنظیم 2005 میں قائم ہوئی ہے۔اس کے انتخابات ہر سال ہوتے ہیں۔

اس سال سیّدہ ماہ پارہ یوتھ پارلیمنٹ کی جنرل سیکریٹری برائے 2022 منتخب ہوئی ہیں۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد ماہ پارہ نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ’’ نسلِ نو کو سیاست میں عملی تربیت دیں تاکہ آئندہ ملک کی باگ ڈور جوان اور تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھوں میں ہو۔ میں کیمسٹری میں ایم فل کررہی ہوں پی ایچ ڈی بیرون ملک سے کرنا چاہتی ہوں۔ فی الحال پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کچھ مختلف کرنا چاہتی ہوں بہت سی چیزیں ہیں جو کرنی ہیں لیکن ابھی صرف ان کا خاکہ میرے ذہن میں ہے ، پی ایچ ڈی کے بعد ان خاکوں میں عملی رنگ بھرنے کے قابل ہوسکوں گی۔

ملک کا نظام تعلیم مساوات پر مبنی نہیں اور یہی بات میرے لیے باعث پریشانی ہے جس کے تحت عوام بالخصوص نوجوانوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ میری خواہش ہے کہ تعلیمی مسائل حل کیے جائیں۔ایک تو ہمارے ملک میں کئی نظام رائج ہیں۔ امیر والدین کے بچوں کو اعلی معیار کی تعلیم حاصل کرنے کی سہولت موجود ہے تو غریب بچے تو اس کا تصور نہیں کرسکتے، اورجب معیاری تعلیم حاصل نہیں ہوگی تو ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے ہی رہ جائیں گے۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ، ہمارا نظام تعلیم بچوں کو غور وفکر کے بجائے رٹّا لگانے پر مجبور کرتا ہے۔ روایتی امتحانات کے طریقہ ء کار میں بچوں کی ذہانت اور علم کے بجائے ان کی یادداشت پرکھی جاتی ہے۔ طالب علموں کو سوال کرنا نہیں سکھائے جاتے ہیں، اگر سوال نہیں کیا جائے گا تو پھر’’ جواب ‘‘ بھی نہیں ہوگا۔ تمام تحقیقی علوم کی بنیاد ’’ سوال‘‘ ہی تو ہوتے ہیں،جن کے جواب کے لیے ریسرچ ہوتی ہے اور پھر سائنس، ٹیکنالوجی کے کرشمے سامنے آتے ہیں۔ بیس ویں صدی کو سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی کہتے ہیں لیکن اس منظر نامے میں پاکستان کا حصہ بہت کم نظر آتا ہے۔

ماہ پارہ کا کہنا ہے کہ، یوتھ پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم بہت حد تک ذمہ داری سے اپناکردار ادا کر رہا ہے، ہمیں مکالمہ کرنے اور مختلف موضوعات پرسوال اٹھانے کے لیے یہ ایک شان دار پلیٹ فارم ہے ، جہاں جمہوری اقدار کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اپنے پروگراموں میں ہم مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی کو بلاتے ہیں، وہ اپنے تجربات ہم سے شیئر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریری مقابلے، نعت خوانی اور آئی ٹی وغیرہ سے متعلق پروگرام بھی کرتے ہیں جن سے نوجوانوں کی معلومات اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیٹ ورکنگ سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

ہم سیاست میں نوجوانوں کو بھرپور انداز سے حصہ لینے کی ترغیب دینا چاہتے ہیں ، نیز یہ بھی چاہتے ہیں کہ سیاست ایسے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو جو عوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہوں۔ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو کبھی اندازہ نہیں ہوگا کہ بسوں میں دھکے کھاکر کیسے پڑھائی کی جاتی ہے۔ انہیں اس کا ادراک بھی شاید نہ ہو کہ ایک نوجوان یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد کتنے دھکے کھاتا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے کن مراحل سے گزرتا ہے۔

پاکستان کو اب یکسر نئی قیادت کی ضرورت ہے جن کی جڑیں عوام میں ہوں اور یہ کام نئی نسل کے ذمہ ہونا چاہیے۔ یہ وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا نہیں ہے دنیا بھر میں نوجوان سیاست کا نقشہ بدل رہے ہیں، پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ سیاسی سمجھ بوجھ اور ووٹ کا درست استعمال وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھ کر سیاسی اور معاشرتی بہتری کے لیے ایک قدم آگے بڑھائیں، کوئی اور آپ کے حالات کو نہیں بدل سکتا۔ ہمیں عوام کاشعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

وقت کی ضرورت کو سمجھنے اور ترقی کے لیے پاکستان کی نوجوان نسل کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ ہمارا نظام تعلیم بہت سے سقم کا حامل ہے اور دیگر ممالک کے تعلیمی نظام سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں اس میں بہت سی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ یوتھ پارلیمنٹ سیاست کے ساتھ تعلیمی نظام اور مسائل بھی حل کرے گی۔