• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک عدم اعتماد...کامیاب یا ناکام ؟ ملک کے سیاسی منظر نامے میں تحریک عدم اعتماد کی ہلچل پورے زور شور سے جاری ہے۔ پنجاب خصوصا لاہور سیاسی سرگرمیوں کا محور بنا ہوا ہے ۔ پاکستان میں 1973 کے آئین میں جب تحریک عدم اعتماد کا طریقہ وضع کیا گیا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دوتہائی اکثریت حاصل تھی تو کبھی یہ تحریک کسی نے پیش کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ 

مگر آگے چل کر جب ملک میں ایک بار پھر جمہوری سفر شروع ہوا تو تحریک عدم اعتماد جیسی فضا بھی اس کا مقدر بن گئی اورا سپیکر قوم اسمبلی سمیت کئی بار تحریک عدم اعتماد کا شور مچا۔ حال ہی میں بلوچستان میں بھی اس کا میدان سجا۔اب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف موجودہ سیاسی صورتحال میں متحدہ اپوزیشن کو اتحادیوں کے بعد جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے بھی مایوسی کا سامنا ہے۔

اور وہ بھی ابھی تک پس پردہ ہی ہیں۔ جہانگیر ترین کی جانب سے اپوزیشن کو عدم اعتماد پر کوئی واضح جواب نہیں آیا۔ واضح فیصلہ نہ آنے پر اپوزیشن جماعتوں نے اپنی پوری کوشش جاری رکھتے ہوئے مختلف اراکین اسمبلی سے براہ راست رابطے شروع کردیئے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا جاچکا ہے، جس کے باعث اپوزیشن نے رام کرنے کے لئے جہانگیر ترین سے بھی رابطہ کیا تھا۔ گذشتہ ہفتے جہانگیر ترین کی شہباز شریف، پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں منظر عام پر آئیں تھیں۔ 

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اپوزیشن کی ایک اور بڑی بیٹھک متوقع ہے۔ مولانا فضل الرحمان، سابق صدر آصف علی زرداری اور شہباز شریف ایک مرتبہ پھر ملاقات کریں گے۔ مریم نواز بھی کہہ رہی ہیں کہ موجودہ حکومت سے نجات دلانے کے لیے ہمیں تحریک عدم اعتماد کا رسک لینا چاہیے لیکن اس کے لئے ان کی جماعت کی تیاری کیا ہے اور کیا حکمت عملی ہے اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قائدین ن لیگی رہنما میاں نواز شریف کے فیصلے کے منتظر ہیں۔

تاہم دیکھنا یہ ہے کہ ’’پیر‘‘ آصف علی زرداری کا فارمولا کامیاب ہوتا ہے یانواز شریف اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر چودھری برادارن اپنے بات منواپاتے ہیں، سیاسی منظر نامے پر یہ سب کہنا تو قبل از وقت ہی ہے۔ شہباز شریف نے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے کمیٹی قائم کی پھر اس کی تردید کی خبر آئی۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کاکہنا ہے کہ سیاسی بادل جلد چھٹ جائیں گے اور مطلع صاف ہو جائے گا۔لاہور کی سیاست میں ایم کیو ایم بھی حصہ ڈال رہی ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے کہہ دیا ہے کہ حکومت کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے تمام آپشن اوپن ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمدکا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے 172 ارکان پورے کرنے کا ٹاسک نواز شریف نے آصف زرداری کو دیا جو خرید و فروخت کر رہے ہیں مگر عمران خان ترپ کا پتہ کھیلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک ووٹ کا سیاسی لیڈر ہوں۔ عمران خان کو جہانگیر ترین سے بات کرنی چاہیے۔

اگر 14 سال پرانے مردے اکھاڑنے والے ایک دوسرے کے پاس جا سکتے ہیں تو عمران اور ترین تو دوست تھے۔ سیاست میں خرید و فروخت کا بازار شروع ہوا تو جھاڑو پھر جائے گا۔ عمران خان نے اپنے پتے سینے کے ساتھ لگا کر چھپا رکھے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کے آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی۔

جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ ابھی حکومت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ پہلے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا مرکز سے اس کا آغاز کیا جائے۔ اس وقت ایم کیو ایم سنجیدہ نظر آتی ہے اور اگر ایم کیو ایم نے ساتھ دیا تو پھر ق لیگ بھی اس تحریک کی حمایت کرے گی۔ سیاسی ماہرین کے مطابق جب تک حکومت کے 20 سے 30 لوگ ٹوٹ کر اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتے تو یہ تحریک محض وقت کا ضیاع ثابت ہوگی۔ 

انتخابات سے متعلق بھی اپوزیشن میں کوئی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ہے۔مدعا یہ ہے کہ اس وقت ملک میں مہنگائی آئی ایم ایف کی وجہ سے بڑھی تو پھر یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ اگر عمران خان کو رخصت بھی کر دیا تو کیا کوئی جماعت برسراقتدار آ کر آئی ایم ایف سے ڈیل منسوخ کرنے کی ہمت کرے گی؟ اپوزیشن رہنما اس سوال پر کوئی واضح جواب دینے سے قاصر ہیں۔ تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپوزیشن ہاتھ پائوں تو خوب مارہی ہے لیکن ہوگا کیا اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ اس بارے میں داغ دہلوی کی غزل کا ایک شعر عرض ہے کہ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید