حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک اور احتجاجی ریلیوں سے ملک میں بحرانی کیفیت ہے ،دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین اور روس سے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے ،وزیر اعظم نے چین کے کامیاب دورے کے بعد 23 سال بعد روس کا انتہا ئی اہم دورہ کیا جس کی دعوت روس کے صدر پیوٹن نے وزیر اعظم عمران خان کو دی تھی، ان دونوں دوروں پر بھارتی میڈیا کی چیخ و پکار جاری ہے ،چین کے دورے سے اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں وسیع پیمانے پر تعاون کو فروغ ملے گا، چینی حکومت اور چینی سرمایہ کار بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔
باالخصوص بلوچستان میں گوادر کی ترقی کے ساتھ ساتھ سونے ،تانبہ، کوئلے، آئل اور گیس کی تلاش کے لئے بڑھے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں ،بلوچستان میں معدنیات کی تلاش میں زبردست کامیابیاں ملی ہیں ،جن سے پاکستان کو اربوں ڈالر کے فوائد حاصل ہونگے،چین پاکستان کو جدید ترین جنگی طیارے جے 10 کے علا وہ جدید ریڈار سسٹم میزائل اور دیگر جنگی سازو سامان فراہم کرے گا ،چینی کمپنیاں بلوچستان کے علا وہ مختلف علاقوں میں فیکٹریاں لگانے کے لیے بھی امادہ ہے جس سے روز گار کے وسیع امکانات روشن ہونگے، وزیر اعظم عمران خان نے روس کا کامیاب دورہ کیا ،روس پہنچنے پر ان کا ریڈ کارپٹ استقبال ہوا اور انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ،وزیر اعظم عمران خان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ،حالانکہ ان کے دورے کے دوران روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ بھی چھڑ چکی تھی اور صدر پیوٹن کی داخلی مصروفیات میں بھی زبردست اضافہ ہو گیا تھا مگر ان حالات کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔
صدر پیوٹن اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ملاقات کا وقت 30 منٹ طے تھا مگر یہ ملاقات تین گھنٹے سے زائد جاری رہی ،جس سے پاکستان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ کی وجہ سےبھارتی میڈیا نے بہت واویلہ کیا کہ عمران خان اپنا دورہ ختم کر کے واپس جا رہے ہیں اور ان سے صدر پیوٹن کی ملاقات بھی منسوخ کر دی گئی ہے مگر بھارتی میڈیا کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب وزیر اعظم عمران خان اور صدر پیوٹن کے درمیان طویل ملاقات ہوئی ،واضح رہے بھارت روس کے جدید ترین اسلحہ کا بہت بڑا خریدار ہے ،اس کے باوجود صدر پیوٹن نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی پروا نہ کرتے ہو ئے وزیر اعظم خان کے ساتھ کئی گھنٹے تفصیلی ملاقات کی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کھل کر اپنا موقف بیان کیا تھا ،اس ملاقات میں مسئلہ کشمیر ،اسلامو فوبیہ، دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی و فاعی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بات اہم چیت ہوئی ،صدر پیوٹن کی ہدایت پر کئی بڑی روسی کمپنیوں نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان سے بھی ملاقاتیں کیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کو بھی حتمی شکل دی گئی جن میں گیس پائپ لائن کا منصوبہ ، سٹیل مل کی بحالی دفاعی سازو سامان کی فراہمی شامل تھی ،یہ بات خوش آئند ہے ،وزیر اعظم نے روس اور یوکرائن کی جنگ میں کسی بھی فریق کی حمائت نہیں کی بلکہ مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ، ادھر ملک میں اپوزیشن کی 26 جماعتیں ایک اکیلے عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔
وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے اپوزیشن جما عتوں کا جوڑ توڑ اور دعوے عروج پر ہیں ،اپوزیشن جماعتوں کا زور حکومت کی اتحادی جماعتوں کو توڑنے اور جہانگیر ترین کی حمائت حاصل کرنے پر مرکوز ہے لیکن بظاہر حکومت پرسکون نظر آتی ہے ۔ اس وقت آصف علی زرداریٗ ، میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اتحادی جماعتوں سے قائدین سے مسلسل رابطوں میں ہے، قابل ذکر بات یہ ہے اس وقت چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہیٰ کا گھر مرکز بنا ہوا ہے ،اپوزیشن والوں کو اب خیال آرہا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین بیمار ہیں ان کی تیماد داری کی جائے ،آصف علی زرداری ،میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ کو مختلف پیش کش کررہے ہیں۔
چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ بنانے کی بھی پیش کش کی جا رہی ہے ،چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ سب کی سن رہے ہیں مگر ابھی تک انہوں نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا ،انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ اور بعض حکومتی ارکان میں حکومت کو بتایا کہ اپوزیشن جماعتو ں کے لیڈروں اور ان کی ٹیموں نے ہم سے رابطہ کیا اور ہمیں بھاری معاوضے کی پیش کش کی گئی ہے ،خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق حکومتی ارکان قومی اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے 9/9 کروڑ روپے دینے اور آئندہ انتخابات میں ٹکٹیں دینے کی بھی پیش کش کی گئی ہے ،مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور پی پی پی کے قائدین کے پاس پیسوں کی کمی نہیں وہ اس سے مہنگے داموں ووٹ خرید سکتے ہیں۔
اپوزیشن جما عتیں جہانگیر ترین پر بھی خا صہ زور لگا رہی ہیں، جہانگیر ترین سے اہم اپوزیشن لیڈر خفیہ ملاقاتیں کر چکے ہیں مگر جہانگیر ترین کا کوئی حتمی جواب سامنے نہیں آیا ،جہانگیر ترین بیمار ہو گئے اور علاج کے لیے لندن چلے گئے ہیں ان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ جہانگیر ترین صاحب علیل ہیں اور وہ علاج کے لیے لندن گئے ہیں،یہ علم نہیں ہو سکا کہ جہانگیر ترین بیمار ہیں یا یہ ان کی سیاسی بیماری یا پھر وہ لندن میں میاں نواز شریف سے ملنے گئے ہیں کچھ وزراء ان کی وزیر اعظم عمران سے ملاقات کی کوششیں بھی کر رہے تھے۔
کہیں ایسا تو نہیں وہ اس ملاقات سے دامن بچا کر لندن گئے ہیں تا ہم جہانگیر ترین نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی ہے کہ میری عدم موجودگی میں وہ اپنے صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں ،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی اپوزیشن جماعتیں یہ بات طے نہیں کر سکیں کہ عدم اعتماد کی تحریک پہلے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف ہو ،وزیر اعظم عمران خان کے خلاف یا پنجاب حکومت کے خلاف ہو اگر عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا ،وزیر اعظم کون بنے گا ،وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری کس کو سونپی جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جما عتیں عدم اعتماد تحریک لانے میں تاخیر کر رہی ہیں پہلے خیال تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک پہلے 28 فروری کو پیش کی جائے گا اب خیال ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں پیش ہو گی ،ایک اندازے کے مطابق اپوزشن کے پاس 172 کی تعداد ابھی تک پوری نہیں ہوئی ،بلاول بھٹو اور بعض دوسرے اپوزیشن لیڈروں نے یہ بیان بھی دے دیا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ یا ادارے غیر جانبدار رہے تو عدم اعتماد کامیاب ہو گی ،اس کا مطلب یہ ہے اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوتی ہے کہ تو سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا جائے گا کہ ان کی وجہ سے تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔
ادھر وزیراعظم عمران خان نے بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ،وزراء کی ٹیمیں بنا دی گئی ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کی ارکان توڑنے کے لیے رابطے کر رہے ہیں، وزیر دفاع پرویز خٹک نے دعویٰ کیا ہےکہ اپوزیشن کے سات ارکان ان کے ساتھ رابطے میں ہیں،عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو یا نہ ہو اتحادی جماعتوں اور ناراض حکومت ارکان کے مزے آگئے ہیں۔
آئندہ چند دنوں میں کابینہ میں توسیع کی جا رہی ہے اتحادی جماعتوں سے بھی مزید وزیرلئے جائیں گے جبکہ حکومت سے ناراض حکومتی ارکان کو بھی کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے اور انہیں اپنے علاقوں کے لیے بھاری فنڈ دیئے جا رہے ہیں، ہمیں نہیں لگتا کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گی اور عمران حکومت قبل از وقت گر جا ئے گی ،آئندہ بجٹ عمران حکومت ہی پیش کرے گی۔