اسلام آباد(نمائندہ جنگ)شاہ رخ جتوئی کے خلاف دہشتگردی کا کیس نہیں بنتا، سرکاری اور شاہ رخ جتوئی کے وکلا کا سپریم کورٹ میں ایک ہی موقف،سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی عمر قید کیخلاف دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ قتل میں راضی نامہ ہونے کے بعد کیا اسی مقدمہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات باقی رہ سکتی ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اٹھائے گئے سوال پر قانونی معاونت طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان پر فریقین کو مزید تیاری کا موقع دیتے ہیں،ضروری ہوا تو عدالتی معاونین مقرر کرکے معاملہ لارجر بنچ میں مقرر کرنے کی سفارش کردیں گے۔
دوران سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال اٹھایا کہ ملزم شاہ رخ جتوئی کیخلاف اصل کیس تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کا تھا،جب قتل پر راضی نامہ ہوگیا تو اسی قتل کے مقدمہ میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعات کیسے برقرار رہ سکتی ہیں؟ اگر مقتول صرف زخمی ہوتا تو انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ بھی نہ لگتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سندھ حکومت بتائے کیا اس مقدمہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ الگ سے برقرار رہ سکتی ہے؟جس پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ ملزمان کیخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کا کیس نہیں بنتا، سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بنچ کا فیصلہ بڑا واضح ہے، ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ راضی نامہ ہونے کے باوجود شاہ رخ جتوئی8 سال سے جیل میں بند ہے۔