• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’پیلے اسکول‘ جہاں بہترین تعلیم دی جاتی تھی، کہاں گئے

ارم لودھی

ایک وقت تھا کہ جب سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، کیوں کہ وہاں کا ماحول ، اساتذہ کی قابلیت اور تعلیمی معیار کا کوئی ثانی نہ تھا۔ سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طالبِ علم جس جگہ جاتے، انہیں عزت اور محبت ملا کرتی۔ اس کی تعلیمی قابلیت پر کوئی شبہ نہ ہوتا ،وہاں کےطلبہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ایک ہی گھرانے کے کئی بچے بآسانی اپنی تعلیم حاصل کر لیتے تھے۔ 

ان ہی اسکولوں سے عام گھرانوں کے بچوں نے نام پیدا کیا جواعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پرفائز ہوئے۔ ان میں ڈاکٹر، انجینیئرز، بھی ہیں اور سیاست دان بھی۔ وہ بچے جن کے پائوں میں پھٹے جوتے ہوا کرتے تھے آج مہنگے قیمتی بوٹ پہنے نظرآتے ہیں۔ وہ سرکاری اسکولوں کی ٹوٹی ہوئی بینچیں (سیٹیں) جو جگہ نہ ملنے پر چٹائیوں پر بیٹھنے سے کہیں زیادہ اچھی لگا کرتی تھیں آج وہ اعلیٰ منصب کی کرسیوں پر بیٹھےہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دور میں سرکاری اسکولز اتنے برے نہیں لگتے تھے جتنے کہ آج لگتے ہیں۔

بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر بھی معیار تعلیم ہوتا تھا، اس وقت بنیادی سہولیات سے زیادہ میعارِ تعلیم اہمیت رکھتا تھا۔ اساتذہ تعلیم کو عبادت سمجھ کر طلبہ کو پڑھاتے تھے۔ آج سب کچھ بدل گیا ہے اب تو سرکاری اداروں کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ غریب طبقہ بھی یہاں آنے سے گریز کرنے لگا ہے۔ جو لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرانے پر مجبور ہیں وہ یہ رونا روتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی معقول ذرائع آمدنی کا کوئی راستہ ہوتا تاکہ ہم بھی اپنے بچوں کا نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ کرا کر انہیں اچھی تعلیم دلواتے۔ سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح بہت کم ہوگئی ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ فی الوقت صاحب حیثیت تو ایک طرف کم وسیلہ لوگ بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے اور اپنی حیثیت سے زیادہ فیس دے کر گلی گلی کھلے ہوئے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں، جہاں تعلیم کا معیار اور صورتحال سرکاری اسکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔ایک وقت تھا جب پرائیویٹ اسکولوں کا کوئی وجود نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو یہ ہر کس و ناکس کی دسترس سے باہر تھے جو نفع کے بجائے خدمت کے جذبے سے قائم کیے گئے تھے۔

آج مختلف رنگ اوڑھے نجی تعلیمی عمارتوں کی وجہ سے پیلی عمارتوں کی پہچان بھی آہستہ آہستہ مٹ رہی ہے۔ سرکاری اسکولوں ميں ترقی کہيں نظر نہيں آتی۔ ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اسکولوں کا کوئی پرسان حال نہیں، عمارتیں خستہ حال ہیں، پینے کاصاف پانی میسر نہیں۔ بعض اسکولوں کی تو چاردیواری ہی نہیں ، بچوں کے لئے کرسیاں اور ڈیسک اور بیت الخلا تک نہیں ہیں ، کہیں بجلی اور پنکھے نہیں، معیار تعلیم انتہائی ناقض ،اساتذہ کا فقدان ہے ۔ صحت وصفائی کے مناسب انتظام غیر تسلی بخش ہے۔ 

یہ صورتحال نہ صرف دیہی بلکہ شہری سطح پر بھی ہے۔ صرف صوبہ سندھ کی طویل عرصے سے ہزاروں سرکاری اسکول بند ہیں، جبکہ سیکڑوں اسکول بغیر عمارتوں کے چل رہے ہیں ، جس کی ایک اہم وجہ تدریسی عملے کی عدم موجودگی بھی ہے۔ اسکولوں کے لئے مختص کیا جانے والا فنڈ کہاں استعمال کیا جاتا ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ کئی اسکولوں میں مویشی بندھے ہیں اور متعدد میں گھاس کے ڈھیر اور وڈیروں کی اوطاقیں قائم ہیں، جس کے باعث سیکڑوں طلبہ و طالبات تعلیم سے محروم ہیں۔ بہت سے اسکولوں کی چھتوں کا پلاستر گرنے سےطلبہ زخمی ہوچکے ہیں۔ سندھ کا نظام تعلیم ایک مایوس کن حالت سے گزر رہا ہے۔

حکام ،متعلقہ ادارے تعلیم کی بہتری کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن کوئی بھی سرکاری سطح پر ٹھوس اقدامات نہیں کرتا نہ ہی خامیوں کی نشاندہی کرنے کے باوجود انہیں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سرکاری اسکولوں پر سے عوام ختم ہوگیا۔ سرکاری اساتذہ کی صلاحیتوں کی کارکردگی جانچنے کا رشوت و سفارش کے سوا کوئی پیمانہ نہیں ہے، وہ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔ سرکاری اسکولوں میں بگڑتے نظام تعلیم میں جہاں غیر منصفانہ رویہ رکھا گیا ہے، وہیں اسکولوں میں تعینات ایسے بھی اساتذہ ہیں جو سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام کی بگڑی حالت کو بہتر بنانے میں غیر سنجیدہ ہیں۔

وہ کیوں اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ناکافی تعلیمی بجٹ، ناقص تعلیمی نظام، بنیادی سہولیات کا فقدان، اساتذہ کے ہوتے ہ ہوئے بھی اُن کی کمی، تعلیم کے ساتھ ناانصافی کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے ؟ 

اگر سرکاری اسکولوں کی خامیوں دور کر لیا جائے تو ان کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے۔ صوبائی حکومت کو تعلیمی اصلاحات کو ترجیح بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کوتاہی کہاں اور کس جگہ ہورہی ہے، اس کے لیے حکامِ بالا کو باقاعدہ سر جوڑ کر ایک ہونا ہوگا۔

تمام تر صورت حال کے باوجود ملک بھر میں ہرسال غریب ،محنت کش اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعلیمی و تخلیقی میدانوں میں زبردست کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اسی بات کو پیشِ نظر رکھ کر سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی کو درست کر لیا جائےتو اس سے کہیں زیادہ با صلاحیت طلبہ آگے آسکیں گے۔

قسمتِ لالہ و گل اب بھی سنور سکتی ہے

نیت اچھی ہو جو گلشن کے نگہبانوں کی