پاکستان کی فلمی صنعت میں ہر دور میں بے شمار رومانی اور نغماتی فلمیں بنیں، ان میں سے کئی فلموں نے باکس آفس پر کام یابی کے ریکارڈ قائم کئے۔ ’’دلی لگی‘‘ کا شمار بھی ایسی فلموں میں ہوتا ہے، جو آل ٹائم سپرہٹ فلم قرار پائی۔ یہ فلم جمعہ 15؍فروری 1974ء کو آل پاکستان سینما گھروں میں ریلیز ہوئی اور آج تک اس کی کام یابی اور پسندیدگی قائم ہے۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے، شہروں، گائوں، قصبات اور اسٹیشن پر اس فلم نے بے مثال بزنس کیا۔ کراچی میں اس فلم کا مرکزی سینما ریوالی، حیدرآباد میں، لاہور میں کنگ پکچرز کی اس فلم کے پیش کار ایس ایم صدیق تھے۔ پروڈیوسر اسلم ڈار اور قمر بٹ تھے۔
اس فلم کی کہانی میں مصنف عزیز میرٹھی نے بتایا ہے کہ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہ فرسودہ رواجوں اور روایات پر قائم ہے۔ انسانوں میں اونچ نیچ، امیری غریبی کے امتیاز نے ہمارے معاشرے سے انسانیت کا خاتمہ کردیا ہے، صرف ایک ہی چیز ہے، جو انسانی تفرقات سے بالاتر ہوکر معاشرے کو قائم رکھ سکتی ہے، وہ ہے ’’محبت‘‘۔ یہ وہ لافانی جذبہ ہے، جسے نکال دیا جائے، تو فلم ’’دِل لگی‘‘ کی کہانی نامکمل رہے گی۔
اس فلم کی کہانی میں یہی جذبہ کارفرما ہے، جس نے ایک غریب ’’راجا‘‘ موٹر میکینک اور ایک امیرزادی نجمہ کے درمیان سرمایہ داری اور غربت کے سارے فاصلے ختم کردیے۔ غربت اور امارات کے درمیان محبت کا یہ رشتہ نجمہ کے سنگدل باپ سیٹھ نجم الدین کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ وہ ان دونوں کے درمیان سرمایہ داری کی وہ دیوار تھا، جو ازل سے ابد سے انسانی محبت کے درمیان حائل رہی ہے، سرمایہ دار کی اس سنگ دلی پر ایک مزدور جگو چیخ پڑا اور اس نے اپنا چاقو سیٹھ کو دکھاتے ہوئے کہا۔
’’اگر جگو کا چاقو ایک بار کھل جائے تو پھر کبھی بند نہیں ہوتا۔ اس چاقو کو سونگھ کر دیکھو اس میں تم جیسے سیکڑوں سرمایہ داروں کا خون موجود ہے‘‘۔ جگو ہمارے معاشرے کا وہ علامتی کردارہے، جو سرمایہ داری کے استحصال سے وجود میں آیا ہے، اس فلم کی کہانی سے پہلے اس فلم کے کرداروں سے مختصر تعارف کرواتے چلیں۔
٭ ندیم:۔ راجا موٹر میکینک جو خواہشات کو سپنوں میں پالتا ہے۔ مہینے کی ہر پہلی تاریخ کو اپنے گیراج میں مرمت کے لیے آنے والی ہر نئی گاڑی کو لے کر شہر کے مہنگے ترین ہوٹلز میں جاکر اپنی غربت کو کچھ دیر کے لیے فراموش کرکے ایک رئیس زادے کی طرح محسوس کرتا ہے، غریب راجا کے پاس ایک ہی سوٹ تھا، جسے وہ ہر پہلی تاریخ پر زیب تن کرکے اصل راجا کہلاتا تھا۔
٭ شبنم:۔ ’’نجمہ‘‘ جو شہر کے معروف سیٹھ نجم الدین کی صاحب زادی تھیں۔ بارش کی ایک رات سڑک پر راجا سے کار میں لفٹ لیتی ہے۔ اس اتفاقیہ ملاقات میں دونوں ایک دوسرے سے اپنی حقیقت چھپاتے ہوئے دل لگی کرتے ہیں۔ نجمہ اپنے آپ کو ایک غریب ٹیچر ظاہر کرتی ہے اور راجا خود کو جدی پشتی امیر زادہ بتاتا ہے۔
٭ نیرسلطانہ:۔ نجمہ کی بی بہن رضیہ جس کی خوشیاں جھوٹے اصولوں اور خاندانی وقار کی نذر ہوکر رہ گئیں، وہ اپنے دولت پرست باپ کے لیے ایک سبق تھی، مگر اس سبق کا سنگ دل باپ پر کوئی اثر نہ ہوا۔
٭ نمو:۔ یورپی تہذیب کی تصویر ایک شوخ و چنچل غریب مزدور جگو کی بٹی، جو راجا کو بے حد چاہتی تھی، مگر راجا، نجمہ کو چاہتا تھا، جب رانی کو اس بات کا علم ہوا، تو وہ راجا کی زندگی کے لیے ظالم اور سنگدل سیٹھ کے سامنے التجا کرنے لگی کہ خدارا راجا اور نجمہ کا بیاہ کردیں، اپنی چاہت کی قربانی دینے والی لڑکی۔
٭ عقیل:۔ انسانی ہمدردی کی ایک تصویر ڈاکٹر انجم کے کردار میں جو نجمہ کا منگیتر تھا۔
٭ سلطان راہی:۔ جگو کا کردار، جو ماضی میں ایک خطرناک چاقو باز بدمعاش تھا، مگر جب اس کے گھر میں رانی کی صورت میں بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے اپنے چاقو کو ہمیشہ کے لیے بند کرکے ایک پھیری والے مزدور کا روپ اپنالیا۔٭ ادیب:۔ شرفو بدمعاش کے روپ میں نظر آئے۔٭ آغا طالش:۔ ڈاکٹر امجد کی صورت میں ایک فرشتہ سیرت ہمدرد انسان، جس نے ہمیشہ انسانیت کا پرچم بلند کیا۔٭ ریحان:۔ سیٹھ نجم الدین، نجمہ اور رضیہ کا باپ ایک دولت پرست، سنگ دل انسان جو معاشرے میں امیری اور غربت کے درمیان ایک دیوار تھا۔ اپنے جھوٹے وقار اور خاندان کی خاطر اپنی بیٹیوں کو بھینٹ چڑھانے والا باپ۔ ٭ لہری:۔ بیجو کا یادگار کردار، جس کا ایک موٹر ورکشاپ ’’بیجو باورا آٹوز ورکشاپ‘‘ تھا، جہاں راجا موٹر میکینک تھا۔
اس رومانی اور سنجیدہ کہانی میں بیجو کا ہنسانا مسکرانا والا کردار، جس نے فلم کو خشک ہونے سے بچاکر تفریح اور ہنسنے کا پورا اہتمام کیا ہے۔ واقعی اگر اس کہانی سے بیجو کا کردار نکال دیا جائے، تو صرف فلم میں آنسو اور آہیں رہ جاتی ہیں۔ بیجو کا یہ انوکھا کردار زندگی کے ہر معاملے اور مسئلے کو سر اور تال کے ساتھ حل کرنے کا عادی ہے۔ موسیقی سے لگائو رکھنے والا یہ یادگار کردار لہری کے فنی کیرئیر میں ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ ٭ ٹینگو:۔ بیجو باورا ورکشاپ کے مالک موسیقار بیجو کا ایک پست قد کا طبلچی جو بیجو کے ساتھ رہتا ہے۔ ٭ رفیق ٹینگو:۔ اس بونے قد کے اداکار کو اسلم ڈار نے اپنی زیادہ تر فلموں میں نمایاں کردار دیتے تھے۔
اس فلم میں ورکشاپ میں کام کرنے والا سب سے چھوٹے قد کا شرارتی اور نوسرباز مستری موچھا جو گاڑیوں کے ٹائر بدلنے میں مہارت رکھتا تھا۔ ٭ دردانہ رحمٰن:۔ معروف اداکارہ دردانہ رحمٰن کے ایکسٹرا دور کی ایک یادگار فلم، جس میں وہ فلم کے اس منظر میں نظر آئی ، جب فلم کی ہیروئن شبنم دلہن بنتی ہے، اس کے پاس بیٹھی ہوئیں سہیلیوں کے جھرمٹ میں واضح طور پر دردانہ رحمٰن بھی موجود تھی۔ ان اہم اداکاروں کے علاوہ بانکا، البیلا، بشیر موٹا اور خصوصی آئٹم ڈانس میں نوروز کے نام بھی شامل تھے۔
ہدایت کار اسلم ڈار نے اس عام فارمولا رومانی موضوع کو اپنے بہترین اور دل کش ٹریٹمنٹ کے ساتھ بڑی مہارت اور خوبی سے فلماتے ہوئے نہایت موثر انداز اپنایا۔ فلم کے اسکرپٹ رائٹر عزیز میرٹھی نے اپنے ایک ناول سے اس کہانی کو فلم کے لیے بہت اعلیٰ انداز میں لکھی۔ مکالمے اور منظرنامے کا بھی جواب نہیں۔ تمام بڑے چھوٹے فن کاروں پر اسلم ڈار نے بہت ہی توجہ سے کام لیا، جس کی وجہ سے فلم کے اہم مناظر اور معمولی مختصر مناظر بھی قابل دید اور لائق تعریف قرار پائے۔
ندیم، شبنم، نمو اور لہری نے اپنے تمام مناظر میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جب کہ سلطان راہی اپنے مختصر کردار میں فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئے۔ فلم کے رائٹر عزیز میرٹھی نے ایک موقع پر فلم کے ہدایت کار اسلم ڈار کے لیے بہت عمدہ بات کہی تھی کہ ’’بشیرا‘‘ نے اسلم ڈار کو جہاں عوامی شہرت دی اور عوام نے اسے اپنا پسندیدہ ڈائریکٹر قرار دیا، تو دل لگی کی ملک گیر کام یابی نے ان کی شہرت کو کچی بستیوں سے نکال کر صاحب ثروت اونچے طبقے کے بلند و بالا گھروں کے بیڈ رومز کی مدہم روشنی میں، جہاں سرگوشیاں ہوتی ہیں ،وہاں بھی اسلم ڈار کا ذکر ہونے لگا۔
موسیقار رفیق علی سے ہدایت کار اسلم ڈار کا تعلق خاصا پرانا تھا۔ ان کی زیادہ تر فلموں کی موسیقی انہوں نے دی۔ رفیق علی نے دِل لگی کی موسیقی ترتیب دیتے وقت فن کاروں کے کردار کی جزئیات پر گہرا مطالعہ کیا اور پھر ایسی لازوال دُھنیں بنائیں، جن کے سُنتے ہی سماعتوں میں رس گھلنے لگتا ہے۔ فلم کے تمام نغمات بے حد مشہور و مقبول ہوئے، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
(1) سیاں اناڑی میرے دل کو جلائے (سنگر نورجہاں) (نغمہ نگار خواجہ پرویز) (فلم بندی اداکارہ نمو)۔
(2) پیار کرنا تو کوئی جرم نہیں ہے (سنگر ندیم، ریاض ملک) (نغمہ نگار خواجہ پرویز) (فلم بندی ندیم، لہری، دیگر ساتھی)۔
(3) دل لگی میں ایسی دل کو لگی (سنگر نورجہاں) (نغمہ نگار ریاض الرحمٰن ساغر) (فلم بندی شبنم)۔
(4)ساتھ ہمارا چھوٹے نہ یاد رہے (سنگر مہدی حسن، نورجہاں) (نغمہ نگار خواجہ پرویز) (فلم بندی ندیم، شبنم)۔
(5) مجھے جان سے بھی پیارا محبوب (سنگر مجیب عالم، نورجہاں) (نغمہ نگار ) (فلم بندی ندیم، شبنم)۔
(6) مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم (سنگر مسعود رانا) (نغمہ نگار مشیر کاظمی) (فلم بندی ندیم)۔
(7) آگ لگاکر چھپنے والے سن (سنگر مسعود رانا) (نغمہ نگار مشیر کاظمی) (فلم بندی ندیم)
(8) ہم چلے اس جہاں سے (سنگر مہدی حسن) (نغمہ نگار مشیر کاظمی) (فلم بندی ندیم)۔
فلم سے جڑی چند اہم باتیں:۔ فلم ’’دل لگی‘‘ بنانے کا خیال اسلم ڈار کے ذہن میں اپنی دوسری فلم ’’آخری چٹان‘‘ کی کام یابی کے بعد آیا۔ اس وقت ان کے ذہن میں فلم کے ہیرو کے کردار میں وحید مراد کا چہرہ تھا، لیکن جب انہوں نے اداکار ندیم کو دیکھا، تو اپنا خیال تبدیل کرکے ندیم کو اس فلم کا ہیرو لے لیا۔ ہیروئن کے لیے ڈار صاحب اداکارہ ممتاز کے پاس گئے، جو ان دنوں اپنے ابتدائی کیرئیر سے اردو پنجابی فلموں کی سپرہٹ اداکارہ بن گئیں تھیں، ان کی مصروفیات دیکھ کر ڈار صاحب نے اپنا ارادہ بدل لیا اور اداکارہ شبنم جو ندیم کے مدِ مقابل اس دور میں بے حد پسند کی جارہی تھیں۔
احساس، چراغ کہاں روشنی کہاں، من کی جیت، سوسائٹی، دو بدن کی کام یابی نے اس جوڑی کو سپرہٹ بنادیا تھا۔ ’’دِل لگی‘‘ میں یہ جوڑی ایک بار پھر سے پسند کی گئی۔ دل لگی میں اداکارہ شبنم کے چند ڈریس خاصے مقبول ہوئے، جو اس دور میں دل لگی سوٹ کے نام سے خواتین کی اولین ترجیحات اور فیشن بن گئے۔ یہ مقبول اور دل کش ڈریسز ماضی کی مقبول اداکارہ رخشی نے تیار کیے تھے۔
سلطان راہی جب سات گراری والا چاپو کھولتا ہے، تو ان کی آواز بے حد دل کش اور واضح تھی، جو سینما حال میں جب گونجتی تو عوام بے پناہ تالیوں سے داد دیتے تھے۔ تدوین کار خورشید نے فلم کے ٹیمپو کو پہلے ہاف میں بے حد تیز رکھا، لیکن سیکنڈ ہاف میں کہانی کی سنجیدگی کے ساتھ ساتھ ٹیمپو بھی متاثر ہوا اور اداکار لہری کے مناظر سیکنڈ ہاف میں بہت ہی کم رکھے، جو فلم کی خامی تھی۔ یہ فلم لاہور کے ایم اے اسٹوڈیو میں بنی تھی۔