• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

صوبہ جنوبی پنجاب بِل: ن لیگ اور تحریک انصاف حمایت کریں گی؟

پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ اور وزیراعظم عمران خان کے میلسی میں جلسہ کی وجہ سے گزشتہ ہفتہ جنوبی پنجاب میں سیاسی گہماگہمی عروج پر رہی ، بلاول بھٹو جب رحیم یارخان کے راستے جنوبی پنجاب میں داخل ہوئے ،تو ملتان تک آتے آتے ان کا ہرجگہ والہانہ استقبال کیا گیا ،اس دوران انہوں نے جگہ جگہ خطاب بھی کیا اور مختلف شہروں میں ان کی ریلی نے ایک بڑے جلسے کی شکل بھی اخیتار کرلی ،پیپلزپارٹی کا یہ لانگ مارچ سیاسی حوالے سے اس کے لئے ایک بڑی کامیابی ثابت ہوا ہے۔ 

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بلاول بھٹو کو بطور منجھے ہوئے سیاست دان کے متعارف کرانے میں اس لانگ مارچ نے اہم کردار ادا کیا ہے ،کیونکہ اس لانگ مارچ کی وجہ سے ان کے سیاسی قدکاٹھ میں اضافہ ہوا ہے اور ایک بڑے لانگ مارچ کو لیڈ کرنے میں ان کی شخصیت نے جو کامیابی حاصل کی ہے ،وہ انہیں ایک ایسا سیاست دان بنانے میں معاون ثابت ہوئی ہے ،جو مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،اس لانگ مارچ میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے اپنے روایتی جوش وخروش کا مظاہرہ کیا اور ایک طویل عرصہ کے بعد پارٹی کا وہ جیالا متحرک نظرآیا ،جو مایوس ہوکرگھروں میں بیٹھ گیا تھا۔

اس لانگ مارچ کے دوران خانیوال میں وہ واقعہ بھی پیش آیا ،جس میں ڈرون کیمرا لگنے سے آصفہ بھٹو زخمی ہوگئیں ،بادی النظر میں یہ واقعہ جیمرز کی وجہ سے پیش آیا ،جس کی وجہ سے ڈرون کیمرے کے آپریٹر کے ہاتھ میں موجود ریموٹ کنٹرول نے کام کرنا بند کردیا ،آصفہ بھٹو نے اپنے ہاتھ سے اسے روک کر کافی حد تک خود کو بچایا ،مگر پھر بھی ان کی آنکھ کے قریب گہرا زخم آیا ، اس کے بعد انہیں فوری طور پر طبی امداد دی گئی ،بعدازان ملتان کے ایک ہسپتال میں ان کے زخم پر ٹانکے لگے اور انہیں بلاول ہاؤس ملتان بھیج دیا گیا تاہم اگلے دن آصفہ بھٹو پھر لانگ مارچ میں موجود تھیں، اس طرح آصفہ بھٹو نے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنی بہادر ماں کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ملتان میں لانگ مارچ کے شرکاء نے ایک رات قیام کیا اور اگلے دن وہ لاہور کی طرف روانہ ہوئے ،اس لانگ مارچ کی وجہ سے حکومت پر کوئی دباؤ پڑا یا نہیں۔

اس سے قطع نظریہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی رابطہ عوام مہم کے لئے اس لانگ مارچ کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیاہے ، کہا یہ جارہا تھا کہ سنٹرل پنجاب میں پیپلزپارٹی کو وہ پذیرائی نہیں ملے گی ،جو اسے جنوبی پنجاب یا سندھ میں ملی ہے ، مگر ساہیوال ، اوکاڑہ ،لاہور ،گوجرانوالہ اور اپر پنجاب کے دیگر شہروں میں لانگ مارچ کا جس طرح بھرپور استقبال کیا گیا، اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو کے اس لانگ مارچ کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو کسی حدتک دوبارہ حاصل کرلیاہے ، کیا اس لانگ مارچ کایہی مقصد تھا ؟

کیا بلاول بھٹو کو مستقبل کا سیاسی نقشہ بنانے والوں نے ایک بڑے لیڈر کے طورپر متعارف کرانے کے لئے اس لانگ مارچ کو ڈیزائن کیا ہے ؟اس لانگ مارچ سے پہلے اور بعد والے بلاول بھٹو کی شخصیت میں خاصا فرق نظر آرہا ہے، اس فرق کی وجہ سے اب بلاول بھٹو کو بقول شاہ محمود قریشی ایک بچہ نہیں کہا جاسکتا ،بلکہ ایک ایسا منجھا ہوا لیڈر بن چکا ہے ، جس نے کراچی سے اسلام آباد تک ایک بڑے لانگ مارچ کی رہبری کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اب ایک ایسا سیاستدان ہے ،جو مشکلات کا سامنا بھی کرسکتا ہے۔

جس روز بلاول بھٹو زرداری لاہور کے ناصر باغ میں جلسہ کررہے تھے، اسی روز وزیراعظم عمران خان نے میلسی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا، اس میں وزیراعظم نے جہاں اپنے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھو ں لیا ، وہیں انہوں نے یہ اہم اعلان کیا کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ کا بل پیش کرے گی اور اب یہ گیند اپوزیشن کی کورٹ میں ہے کہ وہ اس بل کی حمایت کرتی ہے ،یا مخالفت ۔

ان کے اس اعلان کی جلسہ میں موجود عوام نے تالیاں بجا کر تائید کی ،یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے براہ راست جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا نہ صرف اعلان کیا ،بلکہ قومی اسمبلی میں اس کا بل لانے کی بات بھی کی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بل کب لایا جاتا ہے اور اس بل کے آنے کی صورت میں اپوزیشن کی جماعتوں کا رویہ کیا ہوگا ،خاص طور پر مسلم لیگ ن کیا اس بل کی حمایت کرے گی اور اگر نہیں کرے گی ،تو اسے جنوبی پنجاب میں ایک بڑے سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وزیراعظم نے جنوبی پنجاب کے بجٹ میں پانچ سو ارب روپے کے مزید اضافہ کا اعلان بھی کیا اور کسانوں کے لئے اپنی حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں کا بھی ذکر کیا ،پیپلزپارٹی کے مقامی حلقے اگرچہ اسے بلاول بھٹو کے عوامی لانگ مارچ کے دباؤ کا نتیجہ قراردینے کا دعویٰ کر رہے ہیں ،تاہم وزیراعظم کی باڈی لینگویج یہ بتارہی تھی کہ انہیں مخالفین کے لانگ مارچ اور جلسے جلوسوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ،تحریک عدم اعتماد کی باتیں بھی ان کے لئے کوئی خوف کی علامت نہیں بنیں۔ 

انہوں نے بڑے پرجوش اور پراعتماد انداز میں جلسہ سے خطاب کیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور ان کے خلاف جو مافیاز اکھٹے ہوگئے ہیں ،وہ انہیں شکست دیں گے ،وزیراعظم کے ان جلسوں کی وجہ سے عوامی سطح پر ایک مقابلےکا منظرنامہ نظرآرہا ہے ،ایک طرف اپوزیشن ،عوامی حمایت کا دعویٰ کررہی ہے ،تو دوسری طرف وزیراعظم کے بڑے بڑے جلسے اس بات کو ظاہر کررہے ہیں کہ عوامی سطح پر پی ٹی آئی کی مقبولیت میں ابھی تک کوئی بڑی کمی نہیں آئی اور وہ اب بھی چھوٹے بڑے شہروں میں کامیاب جلسے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، اس جلسہ میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء خسرو بختیار ،سید فخرامام ،معاون خصوصی ملک عامر ڈوگر کے علاوہ وفاقی وزیر اسدعمر اوروزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی موجود تھے۔

اس طرح میلسی کا یہ جلسہ تحریک انصاف کا ایک بڑا پاور شو بن گیا ہے۔گزشتہ ہفتہ خاتون اول ثمینہ عارف علوی بھی ملتان آئیں اور انہوں نے مختلف تقاریب میں شرکت کی ،انہوں نے ویمن چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹریز ،ہنر مند خصوصی افراد کے لئےاپنا روزگار پروگرام اور سپیشل بچوں کی تقریبات میں شرکت کی۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو ہر شعبہ میں آگے آنا چاہیے،کیونکہ خواتین کی شرکت کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ،ہم سب مل کر پاکستان کو ایک خوشحال ،فلاحی اسلامی ریاست بناسکتے ہیں اور اس کے لئے سب کو اپنے حصہ کا کردارادا کرنا پڑے گا ،سپیشل بچوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم سپیشل بچوں کو اپنی توجہ اور بھرپور کوشش سے معاشرے کا ایک فعال فرد بنائیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید