موسم بہار میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں تحریک عدم اعتماد کے اعلان نے انتخابی سرگرمیوں جیسا ماحول پیدا کردیا ہے۔ اس تحریک کے انجام کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ حکومت تو پریشان ہے ہی دوسری جانب اپوزیشن بھی انجام کے حوالے سے گومگو کا شکار ہے۔ کچھ واضح نہیں ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟ یا کیا کچھ ہو سکتا ہے۔اپوزیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا کہ کامیابی کا ستر فیصد امکان ہے جب ان سے سوال کیا گیا کہ 30 فیصد کیوں نہیں؟
تو ان کا کہنا تھا کہ نمبر گیم تو پوری ہے لیکن اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انہونی کوئی واقعہ، کوئی حادثہ، کوئی مداخلت 30فیصد میں آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمابلاول بھٹو نے تو آن دی ریکارڈ کہہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کی سو فیصد گارنٹی نہیں۔ اپوزیشن کے حلقوں میں اس بیان کو مایوسی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے بلکہ کچھ حلقے تو اس کو کافی مشکوک انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے حکومت کو ریلیف دیا ہے اور اپوزیشن کو بوجوہ خوفزدہ کیا ہے۔
دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ دراصل پیپلز پارٹی کی خواہش اور کوشش ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں عبوری سیٹ اپ میں چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دینے پر تیار ہو جائے لیکن تاحال وہ ایسا کرنے سےگریزاں ہے۔ بلاول بھٹو نے مسلم لیگ کو یہ کہہ کر ڈرایا یا دھمکایا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے بغیر کامیابی سو فیصد ممکن نہیں، مگر اندر کی خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن) تاحال اس کے لئے تیار نہیں تاہم اگر کوئی ایسی گارنٹی مل جائے کہ انتخابات کا انعقاد فوری طور پر ہو جائے تو پھر مسلم لیگ (ن) کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون وزیر اعظم ہوتا ہے یا کون وزیر اعلیٰ بنتا ہے۔
دراصل پیپلز پارٹی اس بات سے بھی پریشان ہے کہ تحریک انصاف کے حکومتی ارکان کی بڑھتی تعداد مسلم لیگ (ن) کی طرف راغب ہے اور آئندہ کے لئے ٹکٹ لینے کی خواہشمند ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صورتحال اس طرح کی ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) ٹکٹوں کے حوالے سے تمام دروازے کھول دے تو نہ تو اس کو کسی حکومتی اتحادی کی ضرورت پڑے گی نہ اپوزیشن کی کسی جماعت کا مشورہ لینا پڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ پھر عدم اعتماد کی تحریک میں تاخیر کیوں کی گئی؟اس کی وجہ اندرون خانہ یہ ہے کہ مقتدرہ کے بارے میں کوئی بھی واضح اور حتمی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا صرف اپوزیشن کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ حکومت بھی صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ ایک سوچ یہ ہے کہ مقتدر قوتیں غیر جانبدار ہوگئی ہیں۔ تحریک اعتماد کا ڈول اسی لئے ڈالا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب سب کچھ فطری انداز میں وقوع پذیر ہو رہا ہے یہ جو ابہام اور پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ پہلے یہ قوتیں سہولت کے ساتھ ترتیب کرکے پکی پکائی فراہم کردیتی تھیں۔
اب حکومت اور اپوزیشن کو ازخود سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ سوال یہ تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک میں تاخیر کا کیا سبب بنا؟ اس کا جواب اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کا یہ تھا کہ ہمیں حیرانگی ہے کہ اگر ’’وہ‘‘ قوتیں نیوٹرل ہوگئی ہیں تو اتحادی اب تک حکومت سے کیوں جڑے ہوئے ہیں اس لئے کہ ان اتحادیوں کو حکومت سے ان ہی قوتوں نے منسلک کیا تھا یا جوڑا تھا۔
اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد دیر تک ان کے علیحدہ ہونے کا انتظار کرتی رہی لیکن ایسانہ ہوا اس کی وجوہات میں کتنی گہرائی اور پراسراریت ہے یہ کسی کو اندازہ نہیں، یا کہا جاسکتا ہے کہ معلوم نہیں اپوزیشن کے بعض عمائدین کا کہنا ہے کہ صرف ’’ان‘‘ کا نیوٹرل ہونا کافی نہیں جو کانٹے ہماری راہ میں بچھا دیئے گئے ہیں اب وہی چن کر دیں، جو مضبوطی تحریک انصاف کو فراہم کی گئی ہے اس کی واپسی کا بندوبست بھی وہی کر سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم، باپ پارٹی، جی ڈی اے، جنوبی پنجاب کے ارکان اور خاص طور پر مسلم لیگ (ق)تاحال کسی اشارے کے منتظر ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ اشاروں کے اس قدر عادی ہوگئے کہ وہ کسی اور منظر اور ازخود فیصلے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایک سوال یہ بھی بار بار کیا جارہا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت مضبوط اور اپوزیشن اور مشکل میں آ جائے گی لیکن ایک بڑے طبقے کی رائے ہے کہ کچھ نہ ہوگا۔ یہ تحریک دراصل مہنگائی اور ریاست کی پیدا ہونے والی مشکلات کے باعث لانی پڑی ہے، تحریک کی ناکامی کے باوجود حالات اور ابتر ہوں گے۔ چار چھ ماہ بعد عوام کی بے چینی اضطراب اپنی جگہ پر قائم رہے گا جو ہر ایک کےلئے باعث تشویش ہوگا۔
اب پریشان کن صورتحال میں غیرسیاسی قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ ان پر بلاوجہ کوئی الزام آئے، موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ان کو قرار دیا جائے۔ ویسے بھی عدم اعتماد کی کامیابی میں ابھی مستقبل کا نقشہ واضح اور کوئی خوش کن نہیں ہے، بہت رکاوٹیں، پیچیدگیاں اور بے اصولیاں شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو بجاطور پر یہ امید ہے کہ شہباز شریف جو اعلیٰ منتظم اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں وزیراعظم بننے کی صورت میں معالمات کی گتھی سلجھا لیں گے، وطن عزیز کو ایسے معاملہ فہم، دور اندیش رہنما کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جس دلجمعی اور پختہ عزم کے ساتھ بہت سی رکاوٹیں دور کی ہیں امید ہے کہ آئندہ بھی وہ حالات کو اپنی گرفت میں لے آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ مریم نواز ان حالات میں اپنے بیانیے کو زور دار انداز میں لے کر چلتی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور معاملات روایتی سیاست کی طرف چلے گئے۔ ایسے ماحول میں شیخ رشید کا قبل از وقت الیکشن کے لئے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش ایک اور بڑی بات ہے۔ اگر ان کی اس پیشکش میں کوئی گہرائی اور وزیراعظم کی بھی آشیرباد شامل ہےتو یہ پیشکش بہت سی پیچیدگیوں اور بے اصولیوں سے قوم کو بچالے گی۔