آسٹریلیا کا24سال بعد پاکستان آنا واقعی پاکستان کرکٹ کے لئے بہت بڑی خبر ہے ،کراچی میں کل ہفتے سے دوسرے ٹیسٹ کا آغاز ہوگا، پنڈی کےتاریخ ساز ٹیسٹ کے موقع پر اگر بہتر پچ بنادی جاتی تو تماشائیوں کو اچھی تفریح مل سکتی تھی۔پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان راولپنڈی میں ہونیوالے پہلے کرکٹ ٹیسٹ کی وکٹ کو ہر جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، میچ کے پانچ روز میں صرف 14 وکٹیں گرسکیں تھیں ،میچ ڈرا پر اختتام پذیر ہوا تھا جس کے بعد آئی سی سی میچ ریفری رنجن مدوگالے نے اپنی رپورٹ میں وکٹ کو معیار سے کم قرار دیا ہے۔
رنجن مدوگالے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 5 روز کے دوران وکٹ کے ردعمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، وکٹ پر نہ فاسٹ بولرز کیلئے کچھ تھا اور نہ ہی اسپنرز کو کوئی مدد ملی جس کی وجہ سے بیٹ اور بال میں یکساں مقابلہ نہ رہ سکا۔
انہوں نے کہا کہ آئی سی سی قوانین کے مطابق اس وکٹ کو معیار سے کم قرار دیا جارہا ہے۔ اس پاداش میں راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کو ایک ڈی میرٹ پوائنٹ بھی دے دیا گیا ہے ، یہ ڈی میرٹ پوائنٹ پانچ سال تک ایکٹیو رہے گا۔واضح رہے کہ اگر کسی وینیو پر ایک ساتھ 5ڈی میرٹ پوائنٹ عائد ہوجائے تو اس کے ایک سال تک کسی میچ کی میزبانی پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔
رمیز راجا نے چیئرمین بننے کے بعد پچوں کی کوالٹی کی بات کی تھی لیکن پنڈی ٹیسٹ میں بیٹنگ کے لئے ساز گار پچ اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان نے دفاعی حکمت عملی کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلا۔ اگر اسپین بولروں کے لئے ساز گار پچ بنانا تھی تو ایسی پچ بنائی جاتی جس پر گیند زیادہ اسپین کرتا تاکہ بولروں کو زیادہ محنت نہ کرنا پڑتی۔
تماشائیوں کی بڑی تعداد میچ دیکھنے آئی لیکن تمام پانچوں دن بولروں کی درگت بنتی رہی،پنڈی کے تماشائیوں نے جوش وخروش کا مظاہرہ کیا اور تماشائی بڑی تعداد میں اسٹیڈیم آئے۔ مری روڈ سے پنڈی اسٹیڈیم داخل ہوتے وقت جو مناظر سے ثابت ہوا کہ ہمارے تماشائی کرکٹ کے ہیروز ہیں ۔عام تماشائی ٹکٹ خریدنے سے میچ دیکھنے تک،جن مراحل سے گذرتے ہیں وہ تکلیف دے ہوتا ہے۔ خواتین، بچے اور بڑی عمر کے لوگ کئی گھنٹے مختلف مراحل سے گذر کر گراونڈ میں داخل ہوتے ہیں۔
سابق کپتان بازید خان کہتے ہیں کہ ہم اس سے بہتر پچ بناسکتے تھے۔ ماضی میں آسٹریلیا کی ٹیم کو اکثر پہلا ٹیسٹ کراچی میں کھلایا جاتا تھا اور پاکستان وہ میچ جیت کر اگلے دونوں ٹیسٹ ڈرا کردیتا تھا۔لیکن پنڈی سے سیریز شروع کرنا اس لحاظ سے مناسب نہیں تھا کیوں کہ پاکستان کو پنڈی کی پچ سے وہ مدد نہیں مل سکتی تھی جو کراچی میں ملنا تھی۔رمیز راجا کو غیر ملکی ٹیموں کی ٹیسٹ سیریز میں پچوں کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر اچھی پچیں نہیں بنیں گی تو ہم ہوم ایڈوانٹیج حاصل نہیں کرسکیں گے اور تماشائیوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔
پاکستان کی مشکل یہ رہی کہ اس تاریخی دورے کو ممکن بنانے کے لیے پی ایس ایل اپنی ونڈو سے ہٹ کر منعقد کروانا پڑی اور یہ ممکن نہیں تھا کہ پاکستان وارنر، لبوشین اور اسٹیو اسمتھ جیسے مستند بیٹرزکا پہلا امتحان کراچی کی وکٹ پہ لیتا۔ بابر اعظم کے لیے کراچی ٹیسٹ بھی سخت امتحان ہو گا کہ انھیں اپنی ہوم کنڈیشنز میں اب تک کی مشکل ترین اپوزیشن درپیش ہے۔ اس لئے وہ بھی پریشر میں دکھائی دیتے ہیں۔لگ یہی رہا ہے کہ ٹیسٹ کو فیصلہ کن بنانے کے لئے نیشنل اسٹیڈیم میں بہتر معیار کی پچ بنائی جائے گی۔
پنڈی ٹیسٹ میں سیریز سے قبل ٹیسٹ کرکٹ میں مجموعی طور پر 1089 وکٹیں حاصل کرنے والے چار ریگولر بولرز پیٹ کمنز، مچل ا سٹارک، جوش ہیزل ووڈ اور نیتھن لائن کے علاوہ ٹراوس ہیڈ، اسٹیو سمتھ، مارنس لبوشین اور کیمرون گرین کو بھی بولنگ کرنی پڑی۔بنگلہ دیش میں پاکستان نے عبداللہ شفیق اور عابد علی کے ساتھ اننگز شروع کی تھی لیکن عابد علی کے عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر ٹیم سے الگ ہونے کے بعد اب آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں عبداللہ شفیق کے ساتھ امام الحق کو لایا گیا ہے۔امام الحق نے آخری بار ٹیسٹ میچ دسمبر 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ میں کھیلا تھا۔ گزشتہ قائداعظم ٹرافی میں ایک ڈبل سنچری اور ایک سنچری کی مدد سے بنائے گئے 531 رنز کی بدولت انہوں نے واپسی کا اپنا کیس بہت مضبوط کرلیا تھا۔شان مسعود کی موجودگی میں امام کھیلے اور خوب کھیلے۔
شان مسعود بھی واپسی کے لیے اتنے ہی مضبوط دعویدار تھے۔ انہوں نے بھی قائداعظم ٹرافی میں تین سنچریوں اور ایک نصف سنچری کی مدد سے 502 رنز بنائے تھے اور ان کی موجودہ فارم بھی پی ایس ایل میں بہت زبردست دکھائی دی لیکن امام الحق کو اس لیے فوقیت دی گئی کیونکہ وہ بنگلہ دیش کے دورے میں ٹیم کا حصہ تھے۔ امام الحق اور عبداللہ شفیق نے بطور اوپنر دونوں اننگز میں سنچری شراکت دے کر قابل ستائش کار کردگی دکھائی۔
امام الحق نے کہا کہ میری ٹیم میں فواد عالم جیسا کھلاڑی موجود ہےجو مثالی کم بیک کرچکے ہیں میں بھی موقع کا منتظر تھا آج جب چانس ملا تو اس سے فائدہ اٹھایا اس دوران میرے گھر والے اور ارد گرد کے لوگ مجھے سپورٹ کرتے رہے اور میری ہمت ختم ہونے نہیں دی پانچ سال پہلے ٹیسٹ کرکٹ شروع کرنے کے باوجود ٹیم میں موقع کا انتظار تھا۔
دسمبر2019میں ایڈیلیڈ میں آخری ٹیسٹ کھیلنے کے بعد مجھے ٹیسٹ ٹیم میں چانس نہیں مل رہا تھا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری تھی کوشش تھی کہ جب موقع ملے گا تو کارکردگی دکھاوں گا۔ون ڈے میں سات سنچریوں کے باوجود ٹیسٹ کرکٹ کی سنچری کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
پہلی ٹیسٹ سنچری کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ایک پراسس ہے لیکن میں مثبت لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں مجھے یقین تھا کہ جب مجھے موقع ملے گا تو میں رنز بناوں گا۔ دو سال ٹیسٹ نہ کھیلنے کے باوجود محنت کرتا رہا۔قائد اعظم ٹرافی کا سیزن بہت اچھا گیا تھا۔مجھے پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں چانس نہیں مل رہا تھا اس لئے کوشش تھی کہ موقع ملے اور بڑا اسکور بناوں۔ پہلی اننگز میں جب 90رنز پر پہنچا تو کچھ نروس تھا لیکن اظہر علی نے میری بڑی سپورٹ کی اور کہا کہ آرام سے کھیلو100 پکاہے۔
اظہر علی نے بھی میچ میں سنچری بنائی، بابر اعظم بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے۔ بابراعظم کی آخری ٹیسٹ سنچری دو سال قبل پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش کے خلاف بنی تھی لیکن اس کے بعد سے وہ اب تک 19 اننگز بغیر سنچری کے کھیل چکے ہیں اور ان 19 اننگز میں وہ 6 نصف سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔
آسٹریلیا کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں 185رنز کی اننگز کھیلنے والے سنیئر بیٹسمین اظہر علی کا کہنا ہے کہ بڑی ٹیم کے خلاف بڑی اننگز کھیلنے سے ہمیشہ اطمینان اور خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن میں ابھی ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا جب فٹ تک ہوں پاکستان کے لئے کھیلتا رہوں گا۔
ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں ہے البتہ جب بھی کرکٹ چھوڑوں گا اچھے نوٹ کے ساتھ ختم کروں گا۔ آپ نے سست روی سے بیٹنگ کرکے ٹائم ضائع کیا اظہر علی نے کہا کہ آپ نے خود ہی تبصرہ کردیا مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔ سابق کپتان نے کہا کہ شارٹ پچ بولنگ کے خلاف جب بھی آپ رنز کریں گے آپ کو خوشی محسوس ہوگی۔ پاکستانی بیٹسمینوں کے بعد آسٹریلیا نے بھی رنز بناکر میچ کو ڈرا کی جانب گامزن کردیا۔ بارش بھی میچ پر اثر انداز ہورہی ہے۔ دنیا کی بڑی ٹیم کے خلاف اچھی سیریز اور میچ کو فیصلہ کن بنانے کے لئے بہتر پچیں بنانے کی ضرورت ہے۔