پیپلز میڈیکل یونیورسٹی اس وقت خبروں کا موضوع بن گئی، جب ہاؤس آفیسر نرسنگ پروین نے ڈائریکٹر یونیورسٹی غلام مصطفی پر جنسی ہراسمنٹ کا مبینہ الزام لگایا اور اس کے بعد پورے سندھ میں تمام پریس کلبوں کے سامنے وہ گئی اور مظاہرے کیے۔ نواب شاہ پریس کلب کے سامنے وہ پورے دن ننگے پاؤں بیٹھی رہیں، ان کا کہنا تھا کہ جب تک مجھے انصاف نہیں ملے گا، میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ اس کے بعد ایس ایس پی امیر سعود مگسی، ڈپٹی کمشنر عامر حسین پہنور اور وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن میمن کے ساتھ پریس کلب پر پہنچے اور ڈاکٹر گلشن میمن نے دو لیٹر پروین کے حوالے کیے۔
اس میں ایک لیٹر میں ہاسٹل وارڈن اور ان کی اسسٹنٹ کو معطل کرنے کا جب کہ دوسرے لیٹر میں ڈائریکٹر یونی ورسٹی کے خلاف انکوائری پر مشتمل آرڈر کی کاپی تھی جو کہ سیکریٹری ہیلتھ کو بھیجی گئی تھی اور اس طرح پروین نے اس دھرنے کو ختم کیا ۔ اس سلسلے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروین کا یہ کہنا تھا کہ وہ ہاؤس آفیسر نرسنگ ہے اور اس نے ایک ماہ قبل یہ کورس پاس کیا اور پیپلز میڈیکل یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں قیام پذیر تھی۔
اس نے الزام لگایا کہ ڈائریکٹر یونی ورسٹی غلام مصطفی انہیں جنسی ہراساں کرتا تھا اور اس نے انہیں وائس میسج کیے اور اس سلسلے میں پروین کا یہ بھی الزام تھا کہ غلام مصطفیٰ کے ساتھ مبینہ طور پر ہاسٹل کی وارڈن اور ان کی اسسٹنٹ بھی غلام مصطفی سے ملی ہوئی ہے اور مبینہ طور پر اسے غلام مصطفیٰ کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے مجبور کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں پروین کا یہ کہنا تھا کہ وہ صبح کے وقت ہاسٹل کے کمرے میں سوئی ہوئی تھی کہ وارڈن اور ان کی اسسٹنٹ وہاں پر آئیں اور انہوں نے آ کر اسے خوب مارا اور بلکہ اسے پکڑ کر دیوار پر پھینکا، جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوئیں، اس کا یہ دعویٰ تھا کہ اس منظر کو ہاسٹل کی بے شمار لڑکیوں نے دیکھا، بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ اس وقت وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو بھی دورے پر آئیں تھیں اور میں نے انہیں جاکر اپنی روداد بتائیں اور انصاف کی اپیل کی، جس وقت اس کے بقول یہ واقعہ پیش آیا۔
اس وقت اسپتال انتظامیہ وائس چانسلر بھی وہاں موجود تھے اور انہوں نے بھی اس کو انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ پروین کا کہنا تھا کہ میں پورا دن انتظار کرتی رہی، لیکن وزیر صحت سندھ کی طرف سے انہیں کوئی بھی رسپانس نہیں ملا اور نہ ہی یونی ورسٹی انتظامیہ کی طرف سے پروین کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ مایوس ہو کر پریس کلب آئی اور پورے دن اس نے دھرنا دیا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وہ عدالت جائیں گی اور اپنا کیس خود لڑیں گی۔
پروین کی پریس کلب کے سامنے آمد کے موقع پر قوم پرست پارٹیوں کے سیکڑوں کارکنان اس کے علاوہ تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی اس سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچے اور ان سب نے پروین انصاف کی فراہمی کے لیے بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اس سلسلے میں دوسری جانب نے پیپلز یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن میمن نے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی، جس میں رجسٹرار یونیورسٹی ڈاکٹر قربان راہو اور اس کے علاوہ دو دیگر ممبران بھی شامل کیے اور انہیں ٹاسک دیا گیا کہ وہ تین یوم کے اندر رپورٹ پیش کریں گے۔
اس بارے میں رجسٹرار یونی ورسٹی ڈاکٹر قربان راہو نے جنگ کو بتایا کہ انھوں نے پروین اور اس کے چچا علی نواز کو فون کیے۔ وائس میسج کیے کہ وہ یونی ورسٹی آکر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں، لیکن وہ وہاں پر نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے آکر اپنا بیان ریکارڈ کرایا، جب کہ اس سلسلے میں حکومت سندھ محکمہ صحت کی جانب سے بھی ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ اور دو دیگر ممبران شامل تھے اور لیکن پتہ چلا کہ اس کمیٹی کے سامنے بھی پروین صاحبہ پیش نہیں ہوئی، جب کہ اس دوران چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے سوموٹو ایکشن لیا اور پروین کو ہائی کورٹ میں طلب کیا۔ پروین ہائیکورٹ گئی اور وہاں جا کر انھوں نے چیف جسٹس کو اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور وہ الزامات جو اس سے پہلے انہوں نے میڈیا کے سامنے لگائے تھے، انہیں دہرایا.۔
دوسری جانب پروین کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے بعد پورے سندھ میں پریس کلبوں کے سامنے سیول سوسائٹی اور قوم پرستوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ پروین سمیت وہ تمام بچیاں جو کہ مبینہ طور یونی ورسٹی میں جنسی ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں، اس سلسلے کو بند ہونا چاہیے اور بچیاں جو کہ سب کی ایک جیسی ہیں، ان کو تحفظ ملنا چاہیے۔
اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اخبارات اور چینلز میں اس مسئلہ کو خوب اجاگر کیا گیا اور اس پر کالم بھی لکھے گئے، لیکن پھر کیا ہوا اس بارے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے کچھ اس طرح حقائق بتائے کہ ساری کہانی ہی پلٹ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پروین نے یہ الزام لگایا کہ لیڈی وارڈرن اور ان کی اسسٹنٹ نے انہیں مارا پیٹا اور یونی ورسٹی کی ہاسٹل میں موجود بچیوں نے اس منظر کو دیکھا، وہ چار سال تک نرسنگ کے کورس میں یہاں زیر تعلیم رہی اور ایک ماہ پہلے ہی انہیں ڈگری ملی تھی، تو ایس ایس پی کا یہ کہنا تھا کہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ وارڈن اور ان کی اسسٹنٹ کو نہیں پہچان پائیں، جب کہ انہوں نے ایف آئی آر میں ڈائریکٹر یونی ورسٹی غلام مصطفی کا نام تو لیا ، لیکن لیڈی وارڈن اور ان کی اسسٹنٹ کے نام درج کرانے کے بجائے یہ بیان لکھوایا کہ وہ دیکھ کر پہچانیں گی۔
ایس ایس پی امیر سعود کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سارے معاملے میں یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی کہ پروین کو وارڈن اور ان کی اسسٹنٹ نے تشدد کیا اور وہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو جو کہ یونی ورسٹی میں اس وقت آئی ہوئی تھیں کہ سامنے جاکر یہ شکایت کی، جب کہ اس بارے میں وائس چانسلر پیپلز میڈیکل یونی ورسٹی ڈاکٹر گلشن میمن نے جو بیان دیا۔
اس میں بھی ان کا کہنا تھا کہ پروین آئی اور آ کر انہوں نے درخواست کی کہ وہ صوبائی وزیر صحت سے ملنا چاہتی ہے اور انتظامیہ نے انہیں ملوایا، لیکن انہوں نے نہ تو تشدد کی کوئی بات کی اور نہ ہی کسی قسم کا کسی پر الزام عائد کیا، لیکن اس کے بعد پھر پروین نے صحافیوں کے سامنے یہ بیان دیا کہ اسے ڈائریکٹر یونی ورسٹی غلام مصطفی جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں اور جب کہ اس نے یہ بھی کہا کہ وارڈن اور ان کی اسسٹنٹ بھی ان سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ وہ ڈائریکٹر یونی ورسٹی کا کہا مان لے اور ان کے ساتھ دوستی کریں۔
ان سنگین الزامات کے بعد جو صورت حال بننی تھی، وہی بنیں اور پھر پورے سندھ میں ہر جگہ پر مظاہرے ہوئے اور پروین سے اظہارِیکجہتی کیا گیا، لیکن ایس ایس پی امیر سعود کسی کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں بھرپور طریقے سے تفتیش کی تو ایسے حقائق سامنے آئے کہ جن پر عام حالات میں یقین بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ایک بچی اس طرح کے الزامات لگا کر اپنے آپ کو خبروں میں اِن کرنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو شخص پروین کے ساتھ اس کا چچا بن کر آیا وہ حقیقی طور پر اس کا چچا نہیں تھا، بلکہ دادو کے ایک تھانے میں اسی شخص کے خلاف جس کا نام علی نواز تھا، اس کے خلاف پروین نے ایف آئی آر درج کرائی ہوئی تھی کہ وہ اسے جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہے، جب کہ اس کے بدلے میں علی نواز نے پروین پر بھی ایک ایف آئی آر کاؤنٹر کرائی ہوئی تھی۔
اس طرح سے ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا یہ کہنا ہے کہ یہ سارا معاملہ جب ان کے سامنے آیا تو انھوں نے اعلیٰ حکام کو اس سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ یہ سارا سلسلہ ہاسٹل کے ایک کمرے کو پروین کو الاٹ نہ کرنے سے شروع ہوا، جس کے بارے میں حقیقت یہ تھی کہ پروین ہاؤس آفیسر نرسنگ کا کورس مکمل کرکے جب پیپلز میڈیکل یونی ورسٹی کی ایم بی بی ایس کی طالبات کے ساتھ ان کے کمرے میں رہنے لگیں تو ان کی ان طالبات سے اس بات پر تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا کہ یہ طالبات جو کہ فرسٹ سیکنڈ سمسٹر کی تھیں، وہ رات کو روشنی کرکے اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتی تھیں، جب کہ پروین جو کہ ایک نرس تھی اور وہ بھی پاس کر چکی تھی۔ ان کا یہ اصرار تھا کہ وہ اسی کمرے میں رہے گی اور رات کو کوئی روشنی نہں کرنے دیں گی۔
اس معمولی بات پر یونی ورسٹی انتظامیہ اور پروین کے درمیان تلخی پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد پروین کی جانب سے یہ الزام سامنے آیا اور ڈائریکٹر یونیورسٹی کے خلاف جنسی ہراسمنٹ کا الزام لگا کر پھر یہ سارا ماحول پیدا کیا، لیکن اس سلسلے میں یونی ورسٹی انتظامیہ کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ پروین نے جو الزام لگایا ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں ہے رجسٹر یونیورسٹی ڈاکٹر قربان راہو نے ایک بیان میں کہا کہ انتظامیہ ان سے ہاسٹل کا یہ کمرہ خالی کروا کر انہیں نرسنگ ہاسپٹل میں جو کہ پیپلزمیڈیکل یونی ورسٹی میں نہیں، بلکہ پیپلز میڈیکل اسپتال سے منسلک بلڈنگ میں واقع ہے، وہاں پر انہیں بھیجنا چاہتی تھی، لیکن پروین کا اصرار تھا کہ وہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہی رہے گی اور اس طرح سے یہ مخاصمت بڑھی اور پھر اس کے بعد پروین کی جانب سے ڈائریکٹر یونیورسٹی پر یہ الزام عائد کیا گیا، لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، اس لیے کہ پروین نے اپنے موبائل میں ڈائریکٹر یونی ورسٹی غلام مصطفی کی جانب سے بھیجے گئے وائس میسج اور اس کے علاوہ واٹس ایپ کے میسج دکھائے۔ اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں بلکہ مبینہ طور پر ڈائریکٹر یونی ورسٹی نے کچھ خفیہ اداروں کے بارے میں بھی لکھا کہ ان کا فون ریکارڈ ہوتا ہے اس لیے وہ زیادہ بات نہیں کر سکتے۔
اس سلسلے میں یہ ہوا کہ پروین کی جانب سے اب تک کوئی بیان یونیورسٹی میں ریکارڈ نہیں کرایا گیا، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ اصرار ہے کہ پروین آکر اپنا بیان ریکارڈ کرائے تو وہ اس کی انکوائری شروع کریں گے اور ڈائریکٹر یونی ورسٹی جو کہ اس وقت معطل اور ان کے خلاف وومن پولیس اسٹیشن پر ایف آئی آر بھی درج ہے اور پولیس ان کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے، لیکن اب تک ان کی گرفتاری نہیں ہو سکی ہے۔
میں اب تک یہ بات مبہم ہے کہ پروین کیوں یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی کے سامنے اور ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کے سامنے بیان دینے کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن اس سارے معاملے میں جو بھی صورت حال بنتی ہے، ایک سوال یہ ہے کہ کیا سندھ میں یونیورسٹیاں طالبات کے لیے غیر محفوظ ہیں اور آئے دن یہ جنسی ہراسمنٹ کے جو الزامات سامنے آتے ہیں۔ اس کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ اس کی غیر جانبدار اداروں کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے اور جو لوگ بھی اس میں ملوث ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔