• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انقلابی رہنما چی گویرا کو قتل کرنیوالا بولیویائی فوجی انتقال کر گیا

کراچی (نیوز ڈیسک) بولیویا کے جس فوجی نے بین الاقوامی شہرت یافتہ انقلابی گوریلا رہنما ارنیستو ’’چی‘‘ گویرا کو ہلاک کیا، 80؍ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ 

1967ء میں مہینوں تک پیچھا کرنے کے بعد چی گویرا کا ایک اسکول میں محاصرہ کرکے ہلاک کرنے والی ٹیم کے سربراہ ریٹائرڈ جنرل گیری پرادو کا کہنا تھا کہ گویرا پر گولی چلا کر انہیں قتل کرنے والے فوجی ماریو تیران نے فوج میں بحیثیت سارجنٹ گولی چلا کر اپنا فرض ادا کیا تھا۔ 

ریڈیو کومپینیئرا پر ایک انٹرویو میں بات چیت کرتے ہوئے گیری پرادو کا کہنا تھا کہ ماریو تیران طویل علالت کے باعث انتقال کر گئے، انہوں نے بیوی اور دو بچوں کو سوگوار چھوڑا ہے، مسلح افواج کے کمانڈوز اور ان کے خاندان نے مجھے بتایا تھا کہ وہ سانتا کروز کے شمالی شہر سیرا میں زیر علاج تھے۔ 

’’طبی رازداری‘‘ کے باعث اسپتال نے ماریو تیران کے انتقال پر تبصرے سے انکار کردیا۔ بولیویا کی فوج نے 8 اکتوبر 1967 کو چی گویرا کو امریکی سی آئی اے ایجنٹس کی مدد سے پکڑا تھا۔ چی گویرا بھوک اور بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود گوریلا گروپ کی قیادت کر رہے تھے۔ 

زخمی گویرا کو لاگیویرا گاؤں کے ایک اسکول میں لایا گیا تھا جہاں انہوں نے رات گزاری تھی، اگلے ہی روز ماریو تیران نے انہیں زخمی حالت میں قتل کر دیا۔ اس وقت کے کمیونزم کے مخالف صدر رینی برینتوس نے چی گویرا کے قتل کی منظوری دی تھی۔ اس واقعے کے بعد ماریو تیران کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کا بدترین لمحہ تھا۔ 

ماریو تیران کے مطابق اس وقت چی گویرا بہت بلند دیکھ رہے تھے، اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، جب میں نے گویرا پر نظر جمائی تو مجھے محسوس ہوا ہے وہ مجھ پر حملہ کرکے غیر مسلح کر دیں گے لیکن چی گویرا نے کہا کہ پُر سکون رہو اور اپنے ہدف پر توجہ رکھو، تم ایک مرد کو قتل کرنے جارہے ہو۔ ماریو تیران نے بتایا کہ اس کے بعد میں ایک قدم پیچھے ہٹا، آنکھیں بند کیں اور گولی چلادی تھی۔ 

اپنی موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایفرو ایشین سولیڈیریٹی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چی گویرا نے کہا تھا، ’’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔‘‘ 

ارجنٹینا میں پیدا ہونے والے چی گویرا کیوبا کے انقلابی رہنما تھے جو بائیں بازو کے حامیوں کے ہیرو بن گئے۔ چی گویرا کے نام سے مشہور ارنیستو گویرا ڈی لا سرنا 14 جون 1928ء کو ارجنٹینا کے علاقے روساریو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بوئنس آئریس یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ 

اس عرصے میں انہیں جنوبی اور وسطی امریکا میں بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور ظلم و جبر کا مشاہدہ کیا اور مارکسزم میں دلچسپی نے انہیں اس بات پر قائل کیا کہ جنوبی اور وسطی امریکا کے مسائل کا واحد حل مسلح انقلاب ہے۔ 

برطانوی ادارے کی ایک رپورٹ میں چی گویرا کو رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، دمے کا مریض، ڈاکٹر، فوٹوگرافر، موٹر بائیک رائیڈر، شاعر، گوریلا کمانڈر، باپ، شوہر، ڈائری نویس، ادیب اور انقلابی کے طور پر یاد کیاگیا تھا۔ 1954ء میں وہ میکسیکو گئے اور اگلے سال کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ملے۔ 

چی گویرا نے ’ʼ26 جولائی کی تحریکʼ‘ میں کاسترو کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور کیوبا کے امریکا نواز آمر باتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ کاسترو نے 1959 میں باتیستا کا اقتدار ختم کیا اور حکومت سنبھال لی۔ 1959 سے 1961 کے دوران چی گویرا کیوبا کے نیشنل بینک کے صدر تھے اور پھر وزیر برائے صنعت رہے۔ 

اس عہدے پر انہوں نے کیوبا کے سفارتکار کی حیثیت سے دنیا بھر میں سفر کیا۔ امریکا کے سخت ناقد کی حیثیت سے انہوں نے کاسترو کی حکومت کو سوویت یونین سے اتحاد میں معاونت فراہم کی۔ امریکا کی جانب سے تجارتی پابندیوں اور ناکام اصلاحات کے بعد کیوبا کی معیشت بدحال ہوئی۔ 

بعدازاں گویرا نے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے بعد 1965 میں فیدل کاسترو نے اعلان کیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے۔ کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ان کی جانب سے کاسترو کو لکھے گئے دو خطوط بھی ہیں جن میں سے ایک میں وہ لکھتے ہیں، ’’مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا، سو میں تم سے، ساتھیوں سے اور تمھارے عوام سے جو میرے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔ کوئی قانونی بندھن مجھے اب کیوبا کے ساتھ نہیں باندھے ہوئے، جو بندھن ہیں وہ ایک اور نوعیت کے ہیں ایسے بندھن جنہیں اپنی مرضی سے توڑا نہیں جا سکتا۔’‘ 

جاتے جاتے اپنے بچوں کے نام خط میں چی گویرا نے لکھا، ’’تمہارا باپ ایک ایسا آدمی تھا جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا، یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا۔ یاد رکھو اگر کوئی چیز اہم ہے تو انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات، ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘’ چی گویرا نے کئی ماہ براعظم افریقہ، بالخصوص کانگو میں گزارے۔ 

انہوں نے گوریلا جنگ کیلئے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی جو رائیگاں گئیں اور 1966 میں وہ خفیہ طور پر کیوبا لوٹ گئے۔ کیوبا سے انہوں نے بولیویا جانے کی ٹھانی تا کہ وہ رینی بارنتوس اورتونو کی حکومت کیخلاف باغی افواج کی قیادت کر سکیں۔ 

امریکی مدد سے بولیویا کی فوج نے انہیں اور ان کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا اور ایک لڑائی کے دوران شدید زخمی حالت میں انہیں بولیویا کے فوجی ماریو تیران سالازار نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 9؍ اکتوبر 1967 کو بولیویا کے گاؤں لاہیگورا میں چی گویرا کو خفیہ طور پر سپرد خاک کیا گیا۔ 1997 میں ان کی باقیات کا پتا چلا جنہیں نکال کر کیوبا کو لوٹایا گیا۔ 

کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ایک مضمون فیدل کاسترو کا بھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں، ’’اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا، اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک سکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔‘’

اہم خبریں سے مزید