روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ یوکرائن کے مختلف علاقوں میں یوکرائنی افواج کے دستے بھی محاصرے میں آچکے ہیں جن سے روسی افواج غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کررہی ہیں جب کہ یوکرائن کے صدر بار بار اپنے عوام اور افواج سے کہہ رہے ہیں کہ ہم آخر دم تک لڑیں گے یعنی اُس صورت میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان یوکرائن کو برداشت کرنا پڑے گا اُس کے ساتھ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ کہیں روس کیمیائی ہتھیار نہ استعمال کرے۔
اگر روس کیمیائی ہتھیار استعمال کرتا ہے تو ممکن ہے کہ جنگ جلد ختم ہوجائے مگر اُس کے نتیجے میں ہونے والے تباہی کے بعد بین الاقوامی طور پر روس دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور اُس کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات عالمی عدالت میں بھی چلائے جا سکیں گے۔ کیمیائی اور حیاتیاتی یعنی بایولاجیکل ہتھیاروں پر دنیا بھر میں پابندی ہے لیکن پھر بھی کئی ممالک نہ صرف ایسے ہتھیار بناتے ہیں بل کہ استعمال کے لیے بھی تیار رکھتے ہیں۔
روس نے وہ ممالک بھی جو ممکنہ طور پر غیر جانبدار رہتے انہیں بھی نیٹو کی چھتری کے تلے آنے پر مجبور کردیا ہے
اُدھر برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ جو برطانوی لوگ یوکرائن سے آنے والے پنا گزینوں کو اپنے گھروں میں رکھیں گے اُنہیں برطانوی حکومت معقول معاوضہ ادا کرے گی۔اس طرح ظاہر ہے بہت سے برطانوی گھرانے راضی ہوجائیں گے اور یوکرائن کے لوگ اب مغربی یورپ اور برطانیہ کے بارے میں بہت مثبت خیالات لے کر رہیں گے۔ اسی طرح یوکرائن کے بچے جو برطانوی یا دیگر یورپی ممالک میں پلے بڑھیں گے اُن کے دل میں روسیوں کے لیے شدید نفرت پروان چڑھے گی۔
روس نے یوکرائن پر حملہ کرکے نہ صرف اپنا اور اپنے عوام کا نقصان کیا ہے بل کہ آنے والی نسلوں کے لیے ایسی مثالیں قائم کردی ہیں جنہیں آسانی سے بھلایا نہیں جا سکے گا۔آنے والے عشروں اور ممکن ہے صدیوں تک یہ نفرتیں روس کے لیے اور اُس کے عوام کے لیے مغربی یورپ میں پروان چڑھیں گی۔ پہلے ہی مشرقی یورپ کے ممالک سوویت دور کی تلخ یادیں اب تک نہیں بھلا پائے گو کہ جرمنی نے اپنے ہٹلر کے دور کے بھیانک ماضی کے داغ دھو دیے ہیں۔ اصل مسئلہ اب روس کے سامنے یوکرائن کے دارلحکومت کیف پر قبضے کا ہے۔
روسی افواج اس کوشش میں ہیں کہ ڈرا دھمکا کر یوکرائن کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے لیے مجبور کردیا جائے لیکن نہ یوکرائن کے صدر اور نہ ہی افواج ایسا کرنے پر تیار ہیں ۔اگر کیف کے لیے جنگ ہوتی ہے تو یہ شہر جو یورپ کے خوبصورت ترین شہروں میں ہے اور اس میں عظیم تاریخی ورثہ موجودہ ہے بڑی تباہی کا شکار ہوگا۔ اور روسی افواج نے اگر ایسا کیا تو تاریخ میں ان کا نام ایک بار پھر کالے حروف سے لکھا جائے گا۔روس کے پاس ایک اور متبادل یہ موجود ہے کہ وہ مشرقی یوکرائن کے مقبوضہ علاقوں میں آزاد مقامی حکومتیں قائم کردے اور وہاں روسی افواج کے طویل مدت کے لیے قیام کی تیاری کرے۔
اس طرح مغربی یوکرائن اور کیف تباہی سے بچ سکتے ہیں مگر یہ کوئی دائمی حل نہیں ہوگا اور پورا خطہ مسلسل جنگ کے دھانے پر کھڑا رہے گا۔ روس جن شہروں پر قبضہ کررہا ہے وہاں کے مقامی رہنماؤں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ کیف سے اپنی آزادی کا اعلان کردیں اور روس کے ساتھ الحاق کا معائدہ کرلیں یا کم از کم روس کے خلاف کھڑے نہ ہوں لیکن تا حال کسی بھی مقبوضہ شہر کی انتظامیہ یا مقامی رہنماؤں نے ایسا نہیں کیا ہے۔سب سے بُرا حال یوکرائن کے ہسپتالوں اور زہنی امراض کی علاج گاہوں کا ہے جہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
مثال کے طور پر کئی کینسر کے ہسپتالوں کے مریض بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ کچھ کو پولینڈ وغیرہ منتقل کردیا گیا ہے مگر بہت سے مریض نہ نکل سکے۔مجموعی طور پر مہاجرین کی تعداد بیس سے پچیس لاکھ بتائی جارہی ہے۔اس دوران میں فیس بک نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اب تک اس کی پالیسی نہ تھی کہ کسی بھی طرح کے تشدد پر اکسانے والی پوسٹ لگانے کی اجازت دی جائے مگر اب فیس بک کا کہنا ہے کہ روسی افواج اور صدر پوتن کے خلاف تشدد تک پر اکسانے والی پوسٹ کی اجازت ہوگی۔
اس کے جواب میں روس نے کہا ہے کہ وہ فیس بک پر روس میں پابندی لگا سکتا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ یوکرائن کے ایٹمی پلانٹ کا ہے جن میں کچھ چل رہے ہیں اور کچھ بند ہوچکے ہیں مگر اُن میں سے کسی بھی وقت تاب کاری کا اخراج ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں پورے یورپ کو خطرے کا سامنا ہوگا۔ مثال کے طور پر چرنوبل اور زاپاروژے کے پلانٹ کسی بھی وقت ایٹمی ذرات کا اخراج شروع کرسکتے ہیں۔ چرنوبل کا پلانٹ تو انیس سو چھیاسی کے حادثے کے بعد سے بند ہے مگر اب بھی اس پر حملے یا قریبی دھماکے کی صورت میں تابکاری خارج ہوسکتی ہے۔
زاپاروژے کا پلانٹ یورپ کاسب سے بڑا ایٹمی پلانٹ ہے جو روسی افواج کے قبضے میں آچکا ہے اور وہاں سینکڑوں روسی فوجیوں کو تعینات بھی کردیا گیا ہے۔ اس تنازعہ کا ایک مذہبی پہلو بھی سامنے آرہا ہے جس کے تحت ایمسٹرڈم کے آرتھوڈوکس چرچ نے ماسکو کے مذہبی پیشوا سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔
یاد رہے کہ روسی آرتھوڈوکس چرچ کی ذیلی تنظیمیں یوریپ کے کئی ممالک میں ہیں جہاں مقامی لوگ روسی آرتھوڈوکس چرچ کے عقائد پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر اب روسی کلیسا بھی اپنا اثر و ورسوخ کھورہا ہے۔ خود روس کے اندر عوام جنگ کے خلاف ہیں اور مسلسل مظاہرے کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پوتن کے پولیس اہلکار ایسے مظاہرین کو پکڑ لیتے ہیں اور اُن پر وطن سے غداری کے مقدمے چلاتے ہیں۔ روس کے حملے کے ردِعمل میں اسکینڈے نیویا کے ممالک بھی نیٹو میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ مثلاً سوئیڈن نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی جلد نیٹو میں شامل ہوجائے گا۔
اس پر روس نے ناراضی کا اظہار کیا ہے مگر سوئیڈن اس طرح کے کسی دباؤ کو برداشت نہیں کرے گا کیوں کہ اُس نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ سوئیڈن ایک آزاد ملک ہے اور اُسے اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح فن لینڈ نے بھی نیٹو میں شمولیت کے لیے رابطے کیے ہیں۔ یعنی روس نے حملے کی غلطی کرکے وہ ممالک بھی جو ممکنہ طور پر غیر جانبدار رہتے اُنہیں بھی نیٹو کی چھتری کے تلے آنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طرح پوتن کی آمریت پورے یورپ کو نیٹو میں دھکیل رہی ہے۔