تاریخ میں سکندر اعظم غالباً پہلا فاتح گزرا ہے جس نے اپنے ورلڈ آرڈر کے لئے تلوار نیام سے باہر نکالی تھی۔ اس نے اس وقت کی دُنیا کا ایک بڑا حصہ فتح بھی کر لیا تھا۔ اس کے بعد چنگیز خان کا لشکرکچھ ایسے اِرادوں کے ساتھ اپنا طوفانی لشکر لے کر باہر نکلا۔ جدید تاریخ میں نپولین بھی اپنا خودساختہ نیو ورلڈ آرڈرلے کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ بیسویں صدی میں جرمنی کے نازی رہنما اڈولف ہٹلر نے دیکھا وہ بھی دُور تک دوڑ لگا کر ہانپ گیا، میسولینی نے بھی کوشش کی مگر یہ سب فاتحین رہنما کسی نہ کسی موڑ پر ڈھ گئے۔
یورپ کی تاریخ آپس میں جنگ و جدل سے بھری ہے مگر دو بڑی عالمی جنگوں میں یورپی ممالک نے نہ صرف اپنے آپ کو لہولہان کر لیا بلکہ دُنیا کو بھی ایسے زخم دیئے جن میں سے کچھ اب بھی تازہ ہیں۔
روس کو نیٹو کی وجہ سے بیش تر مشکلات اور خدشات کا سامنا ہے۔ چین کو امریکا اور اس کے چند اتحادیوں سے پریشانی کا سامنا ہے۔ اس طرح روس اور چین اپنے اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کی تکمیل اور خدشات کا مقابلہ کرنے کے لئے جس نئے ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے کے خواہاں ہیں اس سے امریکا کو زیادہ پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں یوکرین کے مسئلے پر امریکی مؤقف سے نیٹو ممالک کے دو اہم ممالک فرانس اور جرمنی نے امریکا کے مؤقف کی کھل کر حمایت نہیں کی۔
دونوں اپنے اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کی تکمیل اور خدشات کا مقابلہ کرنے کے لئے جس نئے ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے کے خواہاں ہیں اس سے امریکا کو پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہیں
فرانس کے صدر اور جرمنی کے چانسلر نے یک بعد دیگر ماسکو کے دورے کئے اور روسی صدر سے مذاکرات میں کہا کہ یوکرین میں جنگ بند کر دیں۔ نیٹو کسی بڑی کارروائی میں شریک نہیں ہوگا۔ تاہم امریکا نے اپنے فوجی دستے پولینڈ میں اُتار دیئے۔ امریکا چاہتا ہے کہ نیٹو ممالک یوکرین کی مدد کریں، ہتھیار دیں، پیسہ دیں اور افرادی قوت بھی استعمال کریں اور روس کا راستہ روکیں۔ حالانکہ یورپ اور پھر نیٹو نے ماضی قریب میں دیکھا کہ 2015ء میں روس نے جو چاہا وہ کر دکھایا۔ روس نے کریمیا پر قبضہ بھی کر لیا۔ مگر نہ آسمان گرا نہ زمین پھٹی۔
اس تمام تر تناظر میں دیکھا جائے اور حالات کو پرکھا جائے تو صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ امریکا اور بعض یورپی ممالک یوکرین کی جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔ بعض یورپی ممالک ایسا نہیں چاہتے، مگر روس آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی کی گزرے دو ہفتوں سے زائد عرصے کی کارکردگی سے لگتا ہے وہ اس تمام صورت حال میں شدید کنفیوژ ہیں۔ وہ گومگو کی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ وہ اگر کچھ اسٹینڈ لیں اپنے طور سے فیصلہ کریں کہ پہلے جنگ بند کرائیں اور روس سے یوکرین براہ راست بات کر لے۔ پہلا کام جنگ بندی ہونا چاہئے۔
یہ بات یوکرین کے صدر کو پہلے سوچنا چاہئے، مزید ہتھیار مزید امداد یوکرین کے کام نہیں آئے گی۔ ہزاروں لاکھوں معصوم عوام کی زندگیوں کا مسئلہ یوکرین کے رہنمائوں کو اس تمام مسئلے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اس کو انسانی مسئلہ بنائیں۔ دُنیا کو راغب کریں کہ جنگ بند کرائیں، روس کو مزید آگے بڑھنے سے روکیں اور ہمارا سمجھوتہ کرائیں۔ یوکرین کو امن کی زیادہ ضرورت ہے ہتھیاروں کی نہیں۔ روس کے پاس اتنے ہتھیار ہیں کہ وہ یوکرین میں بیٹھ کر بیس سال تک لڑ سکتا ہے۔
روس اور چین جاری عالمی حالات میں جس حکمت عملی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں اس سے مبصرین کا خیال ہے بلکہ اصرار ہے کہ یہ دونوں بڑی طاقتیں ایک نیا ورلڈ آرڈر نافذ کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے امکانات قوی ہیں اور اگر نیا ورلڈ آرڈر نافذ کیا گیا تب کیا ہوگا؟
واضح رہے کہ سال 2020ء میں جب کووڈ19- نے دُنیا میں تباہی مچائی تھی اس دوران امریکی ڈاکٹر جینے پیج نے ایک دستاویز تیار کی تھی جس کا عنوان تھا۔ ’’کووڈ اور نیو ورلڈ آرڈر۔‘‘
اس وقت امریکا کے سابق صدر ٹرمپ اوران کے ہم نوا چین کو کورونا وائرس پھیلانے کا الزام دے رہے تھے۔ سابق امریکی صدر کو چین سے یہ اعتراض تھا کہ امریکا کو بتایا گیا کہ ووہان شہر میں کوئی وائرس پھیلا ہے اس کی روک تھام کریں۔ ٹرمپ کا اعتراض تھا کہ چین نے یہ نہیں بتایا کہ یہ وائرس سانس کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کو اس وقت بڑا جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ تب ڈاکٹر جینے پیج نے وبائی امراض کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر نیو ورلڈ آرڈر کا نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام ممالک متحد ہو کر وبائی امراض کی روک تھام کریں۔
ڈاکٹر جینے کا یہ نظریہ دُرست ہے کیونکہ اگر فرض کریں پاکستان وبائی مرض پر قابو پا لیتا ہے مگر دُنیا کے کسی اور ملک میں یہ مرض پھیل رہا ہو تو وہ پھر سب کو متاثر کر سکتا ہے۔ دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ فی الفور وبائی امراض کا پھیلائو ہے جو ماحولیات میں بگاڑ اور آلودگی میں اضافے کا سبب ہے۔ حال ہی میں بل گیٹس نے انکشاف کیا ہے کہ ایک خطرناک وائرس خیال ہے کہ عنقریب دُنیا پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ اس لئے بل گیٹس نے پیشگی خبردار کر دیا ہے۔ اس کا سبب انہوں نے بتایا کہ آلودگی، یوکرین کی جاری جنگ اس ضمن میں ہونے والی دفاعی، سیاسی اور سفارت کاری کی پیش رفت کے تناظر میں مبصرین کا یہ دعویٰ کہ روس اور چین ایک نئے ورلڈ آرڈر کو تشکیل دے رہے ہیں اور دُنیا اس طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔
ماہرین مبصرین کا یہ خیال بڑی حد تک دُرست ہے۔ گزشتہ ماہ روسی صدر پیوٹن کا دورۂ چین اور دونوں رہنمائوں کا مشترکہ بیان کہ روس چین ہر معاملے میں ایک دُوسرے سے تعاون کریں گے۔ اور پھر چند روز بعد روس کی یوکرین کی طرف بھرپور پیش قدمی یہ قرائن بتلاتے ہیں کہ دُنیا میں ایک نیا ورلڈ آرڈر سامنے آ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس اور چین کے پاس ہر طریقہ سے ہر شعبہ میں یہ امکانی قوت موجود ہے کہ وہ اپنے حریفوں کو للکار سکیں۔ یوکرین، روس اور چین دونوں کا ٹسٹ چیک تھا۔ امریکا اور نیٹو نے کچھ ہتھار دینے اور بیانات جاری کرنے پر زیادہ اکتفا کیا۔ تاہم امریکا نے حفظِ ماتقدّم کے طور پر پولینڈ میں کچھ فوجی دستے روانہ کئے ہیں۔
واضح رہے کہ روس یوکرین کی جنگ کے ذریعہ جو نتائج حاصل کرنا چاہتا تھا اس نے یہ نتائج حاصل کرلئے۔ مثلاً روس اپنی طاقت اور عالمی سطح پر اپنا کردار وضع کرنا چاہتا تھا۔ طاقت کا مظاہرہ چاہتا تھا۔ نیٹو کی توسیع روکنا چاہتا تھا اور مشرقی یورپی ممالک کو جو نیٹو میں شریک ہونے کے لئے پَر تول رہے تھے ان کے پَر کاٹنا چاہتا تھا۔ دُوسری طرف روس اس اَمر کو بھی یقینی بنانا چاہتا تھا کہ امریکا کا اس سارے معاملے میں ردّعمل کیا ہو سکتا ہے۔ امریکا کس حد تک جا سکتا ہے مگر نیٹو نے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے یہ طے کر لیا تھا کہ ان کے خطّے میں جنگ نہ ہو تو بہتر ہے۔ یہ نیٹو ممالک کی کمزوری ہے ان کے 27 ممالک ایک دُوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین ایک گچھے کی طرح نظر آتی ہے۔ روس یورپی یونین کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے۔
تاہم امریکا اور یورپی یونین سمیت آسٹریلیا، جاپان نے بھی روس پر طرح طرح کی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ روسی صدر، روسی وزیر خارجہ اور روسی وزیر دفاع کے ذاتی اکائونٹ بھی منجمد کرا دیئے ہیں۔ بلاشبہ ان اقتصادی پابندیوں سے روس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مگر ایک طرف چین نے یقین دلایا ہے کہ وہ روس کی مدد کرتا رہے گا۔ دُوسرے یہ کہ روس یورپی یونین کو ان کی ضرورت کا چالیس فیصد تیل فروخت کرتا ہے۔ روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیٹو نے روس کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا تو وہ تیل گیس پائپ لائن بند کر دے گا۔
اس دھمکی کے بعد جرمنی نے روسی تیل کی نئی لائن اور دیگر ممالک نے بھی اپنی اپنی لائنیں اَزخود بند کر دی ہیں۔ ایسے میں روس کو مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ روس کے دو درجن سے زائد شہروں میں روسی عوام نے اپنی حکومت کے خلاف بڑے مظاہرے کئے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ روس فوری طو رپر یوکرین میں جنگ بند کرے۔ عوام جنگ و جدل سے بیزار ہیں۔ ایسے بعض یورپی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ بقول ان کے اگر مظاہرے جاری رہے تو روس کی کمیونسٹ پارٹی کا پیولٹ بیورو اپنا نیا رہنما تلاش کر سکتا ہے اور صدر ولادی میر پیوٹن گھر جا سکتے ہیں۔
مگر بعض مبصرین اس خیال کو رَدّ کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ روسی صدر پیوٹن زیرک، تجربہ کار ہیں۔ انہوں نے اس کارروائی سے قبل سب کچھ سوچ سمجھ کر قدم اُٹھایا ہوگا۔ مگر اصل مسئلہ کسی شخصیت کے طاقتور یا تجربہ کار ہونے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ جو یوکرین کے عوام کا تھا وہ روس کے عوام بالخصوص روسی نوجوانوں کا ہے۔ ہرچند کہ روسی معاشرہ اور ریاست مختلف پابندیوں کے حصار میں ہے مگر آج کی دُنیا آزاد خیالی، جمہوری روایات، جدید ثقافتی لوازمات کا دلدادہ ہے۔ کوئی حکمراں کوئی حکومت کوئی نظریہ ہوا، دُھوپ، چاندنی اور برسات کو نہیں روک سکتا۔ یہ جدید لوازمات محدود پیمانہ پر روس میں دستیاب ہیں مگر اس کے ساتھ دیگر مسائل بھی ہیں۔
روس سیکولر اسٹیٹ ہے۔ بہت بڑی طاقت ہے۔ دُنیا کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ موجودہ روسی صدر پیوٹن سال 2000ء سے کسی نہ کسی اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہے اور تیسری بار صدر منتخب ہوئے انہیں روس کا طاقتور ترین رہنما تصوّر کیا جاتا ہے۔ روس دفاعی طورپر بہت طاقتور ملک ہے اس کی برّی فوج بارہ لاکھ سے زائد، نیم فوجی دستے رضاکار آٹھ لاکھ سے زائد، روس کا بحری بیڑہ کئی لڑاکا طیارہ بردار جہازوں پر مشتمل ہے۔ سب میرین کی تعداد دو درجن سے زائد ہے سب جوہری اسلحہ سے لیس ہیں۔ ہوائی فوج میں جدید طرح طرح کے جہاز، ہیلی کاپٹرز اور بیلسٹک میزائل شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روس کا دفاعی بجٹ 68 بلین ڈالر سے زائد ہے۔
خلائی ٹیکنالوجی میں روس دُنیا کا پہلا ملک ہے 1957ء میں پہلا خلائی سیّارہ خلا میں بھیجا تھا۔ 1961ء امیں پہلا خلانورد خلا میں بھیجا تھا۔ روس نے سیّارہ وینس پر سب سے زیادہ تحقیق کی ہے۔ اس وقت روس کے پونے دو سو کے قریب سیارچے خلا میں کام کر رہے ہیں۔ روس کا تعلیمی نظام جدید اور مفت ہے ملک میں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے۔ اسی طرح صحت کا شعبہ بھی جدیدترین ہے اور تمام علاج معالجہ تعلیم کی طرح مفت ہے۔
روس نے اَدب، شاعری، فنون لطیفہ میں بہت اعلیٰ کام کیا ہے۔ روسی اَدب نے دُنیا کے دیگر ممالک کے اَدب اور شاعری پر گہرے اَثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر چین کا مختصر جائزہ لیا جائے تو چین آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ سیکولر ریاست ہے۔ چین میں ہر طرح کی صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ چین کی مجموعی آمدنی 30 ٹریلین ڈالرز اور سالانہ اوسط آمدنی تیرہ سو ڈالر ہے۔ چین کی دُنیا کے ایک سو پچپن ممالک سے تجارتی تعلقات ہیں۔ چین دُنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔
اس کا دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے وہ اپنے دفاع پر سالانہ 152 بلین ڈالرز صرف کرتا ہے۔ اب اگر روس اور چین کا موازنہ کیا جائے تو یہ دونوں بڑے ممالک اور بڑی طاقتیں امریکا کے قریب قریب کھڑی ہیں اور دونوں مل کر امریکا پر بہت بھاری ہیں۔ اگر نیٹو امریکا کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور آسٹریلیا، جاپان بھی اپنا وزن اُدھر ڈال دیتے ہیں تو دونوں جانب کے دھڑوں کا پلّہ تقریباً برابر محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح پھر بھی امریکا کے لئے مشکلات ہیں کیونکہ مساوی طاقت کا مطلب فیصلہ کن نہیں ہو سکتا۔
البتہ دیگر محوری طاقتیں جیسے بھارت، پاکستان، مشرق وسطیٰ، مصر، برازیل، اسرائیل، جنوبی، شمالی کوریا، وینزویلا، کیوبا وغیرہ توازن بدل سکتے ہیں۔
تازہ خبروں کے مطابق امریکا نے پولینڈ میں پیٹریاٹ میزائل نصب کر دیئے ہیں۔ مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ روس چند دن بعد پولینڈ پر حملہ کر سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پولینڈ دس بارہ برس قبل نیٹو کا رُکن بنا ہے اگر وہاں حملہ ہوا تو کیا نیٹو بڑی کارروائی کر سکتا ہے۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے پولینڈ کا ہنگامی دورہ کیا ہے۔ انہوں نے پولینڈ کے صدر، وزیر دفاع سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ روس کسی صورت پولینڈ پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس نے اپنا ہدف پورا کر لیا ہے۔ مگر دُوسری رائے یہ ہے کہ روس پولینڈ پر اس لئے حملہ کر سکتا ہے کہ یوکرینی باشندے پولینڈ میں پناہ لے رہے ہیں اور اس راستے نیٹو یوکرین کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
عسکری ماہرین کا تجزیہ یہ ہے کہ پولینڈ پر روسی حملے سے جنگ پورے خطّے میں پھیل سکتی ہے۔ مگر روسی عوام مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں، جنگ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ پیوٹن کی سیاسی حیثیت کا مقبولیت کا گراف کم ہوتا جا رہا ہے۔ روسی عوام کو یہ بھی شکوہ ہے کہ صدر پیوٹن کی پالیسیوں سے روس پھر دُنیا میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ روسی مبصرین یہاں تک سوچتے ہیں کہ روس اور چین کی دوستی مستحکم نہیں ہے چین کو اب تائیوان میں کارروائی کرنی ہے اس لئے وہ روس کی محتاط حمایت کر رہا ہے۔ اس رائے میں کس قدر حقیقت ہے یہ تو چین تائیوان ملاکھڑا ہوگا تب معلوم ہوگا۔
1991ء کے بعد امریکا نے اپنا نیو ورلڈ نافذ کر دیا تھا۔ اس نے تنہا سُپرپاور ہونے کا خاصا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جو عسکری کارروائیاں کی گئیں وہ قابل مذمت ہیں۔ اس میں عرب نوجوانوں کی تحریک عرب اسپرنگ بھی شامل ہیں۔
جاری حالات میں جبکہ دُنیا دو بلاکس میں بٹ چکی ہے روس اور چین اور ان کے ہم نوا نیو ورلڈ نافذ کریں گے جس کی شروعات یوکرین سے ہو چکی۔
روس کے صدر پیوٹن نے مغربی ممالک کی طرف سے روس پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کے جواز میںروس میں موجود تمام مغربی کمپنیوں اور ان کے اثاثوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کر جدیا ہے۔
اس حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ تین غیرملکی ہوائی کمپنیوں کے 190 سے زائد پسنجر اور کارگو طیاروں کو روس نے ضبط کر لیا ہے۔ ان کمپنیز میں ایک کمپنی کے ایم ڈی نے بتایا کہ ان کی کمپنی کو روسی صدر کے اس اعلان سے بلینز آف ڈالرز کا نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ روس کی ہوائی کمپنی ایئروفلوٹ نے 82طیارے لیز پر حاصل کئے تھے۔ روس کی اندرون ملک ہوائی کمپنی نے اور سامان کی نقل و حمل کرنے والی کمپنی نے ایک سو سے زائد طیارے لیز پر حاصل کئے تھے۔ یہ کمپنیاں عالمی عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی تیاری کر رہی ہیں مگر روسی ذرائع کہتے ہیں کہ ریاست جس چیز کو قومی ملکیت قرار دے وہ ریاست کی ملکیت ہو جاتی ہے اس ضمن میں کوئی قانون ان کمپنیز کی مدد نہیں کر سکتا۔
ماسکو اور دیگر بڑے شہروں میں امریکن معروف فوڈ برانڈ کمپنیز جیسے میکڈونلڈ، کوک، وال مارٹ وغیرہ ان کے بھی اثاثے ضبط ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ چین ایک عرصہ قبل اپنی گوگل، فیس بُک سوشل میڈیا کو اپنے نظریاتی انداز میں ڈھال رہا تھا۔ اب ایسا ہی روس کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور متعلقہ کمپنیاں ماسکو سے اپنے دفاتر یورپی ممالک میں منتقل کر رہی ہیں یا بند کر رہی ہیں۔ اس طرح یہ دونوں بڑی طاقتیں اپنے عوام کو اپنے انداز میں مذکورہ سہولتیں فراہم کریں گی۔ چین پہلے ہی یہ کام کر چکا ہے۔ تمام معلومات چین نے چینی زبان میں اپنے طور پر منتقل کی ہیں اب ایسا روس کر رہا ہے۔
نیو ورلڈ کی اصل بنیاد یہ اقدام ہیں۔ کچھ پر عمل کر لیا گیا ہے اور باقی پر کام ہو رہا ہے۔ روس چین شمالی کوریا اور دیگر اس مجوزہ نیو ورلڈ آرڈر کے فعال ممالک ہوں گے جبکہ امریکا کے ورلڈ آرڈر کے داعی امریکا سمیت کچھ یورپی اور ایشیائی ممالک ہوں گے۔
جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کیا گیا کہ محوری قوتیں دونوں کیمپوں میں کس جانب رُخ کریں گے۔ اس کا تعین آئندہ حالات پر منحصر ہے۔ اس طرح ایک حلقہ گومگو کا شکار ہے۔ مثلاً بھارت، برازیل، ترکی اور مصر وغیرہ۔
حال ہی میں ایک اہم خبر یہ بھی آئی کہ اسرائیل اور امریکا کے مابین ایران امریکی جوہری معاہدہ کے مسئلے پر اسرائیل نے شدید ردّعمل ظاہر کیا ہے۔ امریکا نے ایران کو پیش کش کی ہے کہ وہ پندرہ برس تک جوہری پروگرام معطل کردے۔ اس مسئلے پر اسرائیل کا اعتراض ہے کہ اس عرصے میں ایران اپنی میزائل ٹیکنالوجی پر کام کرے گا اور مزید خطرہ ثابت ہوگا۔ اس مسئلہ پر ان دونوں ممالک میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مگر بعض اسرائیلی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل یورینیم کی افزودگی میں بہت آگے جا چکا ہے اور کسی بھی وقت تجرباتی دھماکہ کر سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی قیاس عرب اور خلیجی ریاستوں کا ہے۔ انہیں بھی یہی اندیشہ ہے۔ مگر خطّے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل عرب ریاستوں کے مابین کسی نہ کسی سطح پر سفارتی تعلقات استوار ہیں۔
ایسا ہی خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات آپس میں کشیدگی کم سے کم کرنے پر بھی کوشاں ہیں۔ تاہم ان ممالک کی طرف سے کوئی واضح اشارے نہیں ملے ہیں۔ اس خطّے میں امریکا سے زیادہ اب چین اور روس اپنا سیاسی اثر بڑھا رہے ہیں۔ ایران پہلے ہی چین سے بیش تر اہم معاہدے طے کر چکا ہے۔
اس لئے اس رائے کو قطعی رَدّ نہیں کیا جا سکتا کہ روس اور چین پلس ہم خیال ممالک ایک نیا ورلڈ آرڈر دُنیا کو دے رہیں۔ امریکہ، نیٹو اور بھارت وغیرہ ان حقائق سے آگاہ ہیں اس لئے بھارت نے سلامتی کونسل کی حالیہ یوکرین میٹنگ میں ’’غیرجانبدار‘‘ رہنا پسند کیا۔ ایسا ہی چین اور متحدہ عرب امارات نے کیا۔ اس تمام عالمی صورت حال کو بعض تجزیہ کار خیال کریں گے اس نیو ورلڈ آرڈر اور امریکا کے تیس سالہ نیو ورلڈ آرڈر سے طاقت کا توازن قائم ہوگا۔ دُنیا میں امن کو استحکام مل سکے گا۔ لوگوں کا ایسا سوچنا فطری عمل ہے۔
مگر زمینی حقائق اور رُونما ہونے والے واقعات صورت حال کا تعین کرتے ہیں۔ آج کی دُنیا پچاس ساٹھ کے عشروں کی دُنیا سے بہت مختلف دُنیا ہے۔ کھلی منڈی کی معیشت، آزاد معیشت، پابند معیشت اور تجارت میں زبردست مسابقت۔ اس کے علاوہ ہر دو جانب عالمی دھڑوں میں شامل ممالک کے پاس خطرناک جدید جوہری ہتھیار ہیں۔ روس کو جوہری ہتھیاروں کا اسٹور کہا جاتا ہے جبکہ دُنیا کی سب سے بڑی فوج رکھنے کا اعزاز چین کو حاصل ہے۔ دُوسری جانب امریکا کے سات بحری لڑاکا بیڑے سات سمندروں میں حکمرانی کر رہے ہیں۔ برطانیہ فرانس بڑی قوت اور جوہری طاقتیں ہیں۔
ایسے میں کیا یہ اندیشے دُرست نہیں کہ کسی جانب سے کسی رہنما کی غلطی سے طاقت کے زعم میں یا تکنیکی غلطی سے کوئی خوفناک حادثہ ہو جائے تب کیاہوگا۔ یہ اہم نازک سوال ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں بھارت کا میزائل ڈھائی سو کلومیٹر اندر آ کر گر گیا۔ اس سے ہرچند کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ پھر بھارت نے تسلیم کیا کہ تجرباتی میزائل تھا غلطی سے پاکستان کی حدود میں آ گیا۔
دونوں جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بڑا قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ اگر ایسے واقعات ایٹمی ممالک میں رُونما ہوں تو پھر کیا ہوگا۔ اس وقت دُنیا کا سب سے ہاٹ اسپاٹ جنوبی بحیرۂ چین ہے۔ اگر چین کا لڑاکا طیارہ یا تائیوان کا لڑاکا طیارہ ٹکرا جائے، گر جائے، کوئی حادثہ ہو جائے تب؟ لہٰذا دُنیا کا نیا ورلڈ آرڈر جو روس چین نافذ کر رہے ہیں یہ سب کے لئے اتنا ہی خطرناک ہو سکتا ہے جو امریکا کا ورلڈ آرڈر خطرناک ہے۔ ماضی میں دُنیا اس کی کارستانیاں بھگت چکی ہے۔ امکان ہے روس اور چین زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔