جنگ فوٹو،شعیب احمد
1999 میں پی سی بی چیئرمین مجیب الرحمن نے پاکستانی کیوریٹرز کو مالی قرار دیا تھا۔ اس وقت ان کے بیان کا بہت مذاق اڑایا گیا تھا لیکن آج کے دور میں ان کی یہ بات حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ پاکستانی کیوریٹرز سالہا سال سے معیاری پچ بنانے میں ناکام ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجا نے چارج سنبھالنے کے بعد پی سی بی کے معاملات میں کو غیر معمولی طریقے سے چلانے کی کوشش کی ہے۔
ستمبر میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد انہوں نے جو وژن دیا اس میں ملک میں پچوں کی کوالٹی سب سے بڑی ترجیح قرار دی گئی۔پھرڈراپ ان پچوں کے لئے ایک پرائیویٹ کمپنی سے معاہدہ کیا لیکن آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لئے جو پچیں بنائی گئی ہیں اس پر ہر جانب واویلا مچا ہوا ہے، تنقید ہورہی ہے۔ وسیم اکرم اور کئی کرکٹرز پچ کے بارے میں بات کررہے ہیں۔
رمیز راجا بھی پچ کے بارے میں اپنی فرسٹریشن کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان میں طویل عرصے بعد کوئی بڑی ٹیم آئی ہے اس لئے بابر اعظم اور ثقلین مشتاق بھی شکست سے خوف زدہ نظر آئے اور کیو ریٹر کو ایسی پچ بنانے کے لئے کہہ دیا جس پرنہ اسپنرز کو مدد ملی اور نہ فاسٹ بولر کچھ کرسکے۔رمیز راجا جو پی سی بی کے سب سے بڑے اور پالیسی میکر ہیں وہ بھی پچوں کی تیاری پر ناخوش ہیںان کا کہنا ہے کہ پچ کے حوالے سے گفتگو میرا حق ہے، میں پچ پر بات کیوں نہ کروں۔ شائقین کرکٹ کی طرح میرے بھی تحفظات اور فرسٹریشن ہے۔
کس حساب سے پنڈی ٹیسٹ کی وکٹ تیار کی یہ بتانا ضروری تھا۔آسٹریلیا کی سیریز کی بڑی اہمیت ہے ہم بڑی ٹیم کی میزبانی کرنے کے ساتھ ساتھ سیریز بھی جیتنا چاہتے ہیں شائقین نے سیریز میں زبردست جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ میں چیئرمین بعد میں ہوں کرکٹر پہلے، ہر چیز کرکٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ پنڈی کی وکٹ پر شائقین کا جو غصہ تھا وہ جھنجھلاہٹ میری بھی تھی۔ اس کو کلیئر کرنا تھا کہ پنڈی کی وکٹ کس طرح بنی۔ رمیز راجا پاکستان کے سابق کپتان اور مشہور تجزیہ کار ہیں انہیں وائس آف پاکستان کرکٹ کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی وکٹوں میں جان ڈالیں لیکن اس کام میں وقت لگے گا۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کو 24 سال کے طویل انتظار کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت دی گئی اور دینی بھی چاہیے تھی کیونکہ دنیا کی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر کھیلتا دیکھنے کے لیے شائقین کی بے صبری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس جوش وخروش کا اندازہ پنڈی ٹیسٹ کے پانچوں دن اسٹیڈیم میں بڑی تعداد میں شائقین کی موجودگی اور ان کے ہاتھوں میں موجود مختلف خیرمقدمی اور دلچسپ پلے کارڈز دیکھ کر بخوبی ہوگیا۔ٹیسٹ کرکٹ دیگر دو فارمیٹس سے یکسر مختلف ہے۔
اس میں شائقین کی دلچسپی اس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک میدان میں سنسنی خیز کرکٹ ہوتی رہے اور آخر میں نتیجہ بھی برآمد ہو جائے لیکن راولپنڈی ٹیسٹ کے لیے جو پچ تیار کی گئی اس پر میچ کا اختتام یہی ہوسکتا تھا یعنی رنز کی بھرمار کے بعد ڈرا۔ ماضی میں پاکستانی وکٹوں پربولنگ کرنے کے بعد آسٹریلوی فاسٹ بولر ڈینس للی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کی قبر یہیں بنا دی جائے۔ واضح رہے کہ راولپنڈی ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 1187 رنز بنے اور صرف 14 وکٹیں گریں۔
پنڈی ٹیسٹ میں بیٹرز نے میلہ لوٹ لیا پھر کراچی ٹیسٹ میں بھی آسٹریلیا نے556رنز بنائے اور ٹیسٹ سیریز کی ابتدائی تین اننگز میں کسی ٹیم کی دس وکٹیں نہ گر سکیں۔ پنڈی ٹیسٹ کے بعد پچ پر ہونے والی تنقید پر رمیز راجا نے ویڈیو بیان داغ دیا اور کہا کہ آسٹریلیا کو ہرانے کے لئے پچ تیار ی میں احتیاط سے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اور اگلے میچوں کو فیصلہ کن بنانے کے لئے لوبائونس والی پچ بنائی جائے گی تاکہ سیریز نتیجہ خیز ہو ۔ پاکستان کا کمبی نیشن نیا تھا اس کے لیے بیٹنگ کے لیے سازگار پچ بنائی تھی۔
شائقین کو یقین دلاتا ہوں کہ سیریز میں فیصلہ کن میچوں کے لئے پچیں بنائی جائیں گی۔ ہمارے پاس پچیں بنانے کے لئے جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ ڈنڈا ہلائیں گے اور پچ گرین بن جائے گی۔رمیز راجا نے کہا کہ ہمیں آسٹریلیا کو ہرانے کے لئے احتیاط کے ساتھ اپنی حکمت عملی بنانا ہے۔پاکستان میں پچیں ایسی بنتی ہیں کہ لوبائونس ٹریک بنیں جن پر گیند ریورس سوئنگ کرے۔ یقینی طور پر نتیجہ آجاتا تو اچھا تھا۔ یہ تین ٹیسٹ کی سیریز ہے اور ابھی دو ٹیسٹ اور بہت کرکٹ باقی ہے ہم تیز پچ بناکر ہوم ایڈوانٹیج کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے نہ جیت کو آسٹریلیا کی گود میں ڈالنا چاہتے تھے۔
سیزن ختم ہونے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں پچاس سے ساٹھ پچ تیار کریں گے۔شائقین کرکٹ کی مایوسی کا احساس ہے۔ رمیز راجا نے کہا کہ ڈرا ٹیسٹ کی کبھی اچھی تشہیر نہیں ہوتی،آج کل پانچ دن میں نوے فیصد میچوں کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ میں نے جب پی سی بی کا چارج سنبھا لا تھاتو پہلی بڑی ہیڈلائن یہی آئی تھی کہ پاکستان میں پچوں کو از سر نو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک پچ بنانے کے لئے پانچ چھ ماہ لگتے ہیں میں ستمبر میں آیا تھا اس وقت قومی سیزن چل رہا تھااس لئے جب سیزن آف ہوگا تو آسٹریلیا سے مٹی آرہی ہے ہم نے پاکستان میں تجربہ کرکے ماہرین کی مدد سے مٹی کو پچز کے لئے تیار کیا ہے۔
پاکستان میں پچاس سے ساٹھ پچز پر سیزن ختم ہونے کے بعد کام ہوگا۔مجھے شائقین کرکٹ کی مایوسی کا احساس ہے۔رمیز راجا نے کہا کہ حسن علی اور فہیم اشرف کے ان فٹ ہونے سے ہمارا پیس اٹیک متاثر ہوا۔ اس لئے عبداللہ شفیق اور امام الحق کی جوڑی نئی تھی۔ عبداللہ شفیق کی فارم پر کچھ تشویش تھی۔ یہی بحث ہورہی تھی کہ کیا آسٹریلیا کے بڑے پیس اٹیک کے خلاف وہ کھڑا ہوسکیں گے یا نہیں۔
امام الحق کی سوا دو سال بعد واپسی ہورہی تھی۔آسٹریلیا کی ٹیم ابھی ایشیز سیریز جیت کر آئی ہے اور کرکٹ کی دنیا میں پاور ہاس ہے۔ ہم ان کے ٹیلنٹ کی عزت کرتے ہیں اور اتنی جلدی ہم اپنی ٹیم کو تجربات کی بھٹی میں اتارنا نہیں چاہتے تھے۔ لوباونس پچوں پر ہماری عادت بنی ہوئی ہے وہ ہمارا ایڈوانٹیج ثابت ہو۔ پنڈی ٹیسٹ کی تشہیر اچھی نہیں ہوئی ہے لیکن یہ بڑی سیریز ہے جس میں سیریز کے لئے بڑے اور عظیم کھلاڑی پاکستان آئے ہیں۔ یہ سیریز آگے چل کر دلچسپ ہوگی اس لئے کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے گریز کیا جائے۔
رمیز راجا کو پی سی بی میں آئے ہوئے ابھی چھ ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں اس لئے انہیں وقت دینا چاہیے لیکن ماضی میں پچوں کے بارے میں پی سی بی کے سربراہ بہت کچھ کہہ چکے ہیں بیرون ملک سے ماہرین کو بلا کر پچوں کو دکھایا گیا بیرون ملک سے مٹی منگوانے کے دعوے کئے گئے لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوسکا دیکھتے ہیں کہ رمیز راجا کس طرح کی تبدیلی لاتے ہیں۔ تبدیلی تو خواتین کرکٹ میں بھی لانے کی ضرورت ہے۔
نیوزی لینڈ میں خواتین ورلڈ کپ میں پاکستان ملسل چار میچ ہار گیا۔ جس میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں ناکامی بھی شامل ہے، آسٹریلیا کی سیریز کی وجہ سے خواتین کرکٹ کی کوئی بات نہیں کررہا۔ اس بارے میں رمیز راجا کو بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ڈنڈا اٹھا کر مافیا کے خلاف کریک ڈاون کی ضرورت ہے۔ رمیز راجا خواتین کرکٹ کی جانب جتنی جلدی توجہ دیں گے اس سے ان کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔
کراچی ٹیسٹ ،میزبان مشکل میں
کراچی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے نو وکٹ پر556رنز کے جواب میں پاکستان کی ٹیم پہلی اننگز میں 148 رنز بناسکی،پاکستانی بیٹسمین گبھراہٹ اورجلد بازی کا شکار نظر آئے، میچ میں مہمان ٹیم کا پلہ بھاری ہے،شکست کے سائے پاکستانی ٹیم کا پیچھا کررہے ہیں،حیرت انگیز طور پر مہمان بیٹسمین بھی چلے اور بولروں نے بھی جلوہ دکھایا جبکہ ہمارے کھلاڑی ہوم گراؤنڈ پر بے بس ثابت ہوئے۔ دوسری اننگز میں آسٹریلیا نے ایک وکٹ پر 81 رنز بناکر 489 رنز کی بھاری سبقت حاصل کر لی ہے۔