تحریک عدم اعتماد نے تمام ترسیاسی سرگرمیوں کا رخ اپنی جانب موڑرکھا ہے اس تحریر کی اشاعت تک امکان ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے پتے کھل کر سامنے آجائیں گے ترپ کا پتہ اس وقت حکومت کے اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ(ق) اور جی ڈی اے ہیں ان تمام جماعتوں سے حکومت اور اپوزیشن رابطوں میں ہیں ان میں سے کسی نے بھی تادم تحریر کسی بھی فریق کو کھل کہ حمایت کی یقین دہانی نہیں کرائی ہے سب نے آپشن کھلے رکھے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اتحادی جماعتیں اور حکومت کے اندر موجود جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان گروپ بھی حکومت سے خوش نہیں ۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کے 6 ارکان قومی اسمبلی نےبھی خاموشی سے اپوزیشن کا ساتھ دینےکا عندیہ دیا ہے۔
ان میں پی ٹی آئی کے ایک انتہائی سینئر رکن بھی شامل ہیں جنہیں عمران خان کی حکومت نے بری طرح نظرانداز کردیا تھا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا عمران خان ان چھ گروپوں کو راضی کرلیں گے یا پھر عدم اعتماد کی ناکامی کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں گے ثانی الذکر آپشن ٹکراؤوتصادم کی طرف جائے گا اور ممکن ہے کہ ٹوٹ پٹوٹ کی کھیر کسی کے ہاتھ نا آئے حکومتی اتحاد میں شامل دو اہم جماعتیں ایم کیو ایم پاکستان کے پاس سات اور جی ڈی اے کے پاس تین نشستیں ہیں یہ دس نشستیں اگر اپوزیشن حاصل کرلیتی ہے تو ان کی کامیابی یقینی ہے عمران خان اپنے اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے گزشتہ ہفتے کراچی تشریف لائے تھے۔
جہاں انہوں نے ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادرآباد میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامرخان نے ملاقات کے بعد میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں مگر ہمارے آپشن کھلے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ عدم اعتماد پر وزیراعظم نے کوئی گفتگو نہیں کی۔
ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی نے کہاکہ اگر ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو ہمارے آپشن کھلے ہیں بعد ازاں گورنرہاؤس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی ہے اور انہوں نے وہ کام کیا ہے جس کے لیے میں اللہ سے دعائیں مانگتا تھا، اللہ نے میری سن لی، اپوزیشن جال میں پھنس گئی ہے، عدم اعتماد کی تحریک اپوزیشن کی سیاسی موت ہوگی، ان کی صرف عدم اعتماد کی تحریک ہی ناکام نہیں ہوگی بلکہ میں نے اس سے آگے کی بھی تیاری کی ہوئی ہے، پہلے میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، اب میرے ہاتھوں کی رنجیرکھل جائے گی ، اب میں رکوں گا نہیں، ان کے پیچھے جاؤں گا اور انہیں نہیں چھوڑوں گا، آصف علی زرداری میرا پہلا نشانہ ہوگا، بوٹ پالش کرنے والے شوباز اور فضلو ڈیزل کو بھی نہیں چھوڑوں گا، ان کی گردن میرے ہاتھ میں آگئی ہے، ان تینوں کی شکلیں دیکھنے والی ہیں، یہ ملک بچانے نہیں بلکہ خود کو مجھ سے بچانے نکلے ہیں۔
دوسری جانب ایم کیو ایم کے اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن نے ایم کیو ایم کے مطالبات تسلیم کرلئے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے گرین سگنل دے دیا ہے ، ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے ساتھ سندھ کی گورنر شپ ، بلدیات سمیت 6وزارتوں ، بلدیاتی قانون میں ترامیم واپس لینے اور ملازمتوں میں شہری نوجوانوں کو 40 فیصد کوٹہ دینے پر معاہدہ ہوگا جس کے ضامن جے یو آئی (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق متحدہ اپوزیشن نے ایم کیو ایم کو تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے پر اس کے تمام مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے سندھ اور وفاق میں وزارت دینے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق اسی بناء پر ایم کیو ایم نے اتوار کو وزیر اعظم اور گورنر سندھ کو حکومت کی حمایت جاری رکھنے کے اپنے واضح فیصلے سے آگاہ نہیں کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کا وفد اگلے دو دن میں کراچی آئے گا اور ایم کیو ایم کے مرکز جاکر معاہدے کو حتمی شکل دے گا ، سندھ کی گورنر شپ ، صوبائی کابینہ میں بلدیات سمیت 6؍ وزارتیں دینے، بلدیاتی ترامیم کو واپس لینے، ملازمت میں شہری نوجوانوں کو 40 فیصد کوٹہ دینے پر معاہدہ کیا جائے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ پی پی کی اعلیٰ قیادت نے اپوزیشن کو اس حوالے سے گرین سگنل دے دیا ہے، معاہدے پر عمل در آمد کیلئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اہم رہنما شہباز شریف ضامن کا کردار ادا کریں گے۔
اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ادھر گورنرسندھ نے بھی ایم کیو ایم کے عارضی مرکز پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ گورنر کی سر براہی میں پی ٹی آئی کے وفد نے بہادر آباد میں ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں تحریک عدم اعتماد اور ملک کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا، تاہم ایم کیو ایم نے اس حوالے سے کوئی واضح اور مثبت یقین دہانی نہیں کرائی۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی سے اعدادی اکثریت ثابت کرنے کو کہا ہے اور یہ بھی کہاہے کہ اتحادی نہیں بلکہ آپ کے اپنے ارکان آپ کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔
وفد کے ارکان نے ایم کیو ایم سے حکومت کی حمایت جاری رکھنے کے امور اور اسکے مطالبات پر بھی تبادلہ خیال کیا اور وزیر اعظم کا پیغام بھی دیا۔اس صورتحال میں حکومت کی پوزیشن بادی النظر میں کمزور نظر آرہی ہے۔جبکہ اپوزیشن رہنماؤں سمیت وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ کا لہجہ پراعتماد ہے، وزیراعظم کے مختلف جلسوں میں اختیار کرتا لہجہ بھی ان کی جھنجھلاہٹ اور غصہ کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے اپنے اتحادیوں سمیت پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے بھی ایسا لہجہ اختیار کرنے سے انہیں منع کیا ہے۔ بہرحال تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اسے ناکام بنانے کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک رابطے جاری ہیں۔
اس ضمن میں چین کے سفارت کاروں کی چوہدری برادران سے ملاقات کو بھی بڑی اہمیت دی جارہی ہیں جبکہ چوہدری شجاعت سے سابق گورنر سندھ عشرت العباد نے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے فیصل وڈا کی تاحیات نااہلی سے خالی ہونے والی نشست پر پی پی پی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو نے 99ووٹ حاصل کرکے کامیابی سیمٹی پی ٹی آئی کے چار ارکان سندھ اسمبلی اسلم ابڑو، شہریار خان شہر، کریم بخش گبول اور دیوان سچل نے پی پی پی کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا نثارکھوڑو کوکامیابی پر سابق صدر آصف علی زرداری نے مبارکبادی۔