• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سُود کی لعنت نے کس طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سودی کاروبار کرنے والے مائیکرو فائنانس بینکوں کی لائن اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ سود کا کاروبار کس طرح پروان چڑھ رہا ہے، اس سلسلے میں یہ بھی اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں کہ پان کے کیبن اور شاید میڈیکل اسٹوروں کی جتنی تعداد ہے، اس سے اسی مناسبت سے یہ تعداد سودی کاروبار کرنے والے کار شوروم اور مائیکرو فائنانس بینکوں کی، بلکہ شاید یہ ان سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کاروبار یہ ہے کہ سودی قرض حاصل کرنے والے سے ایڈوانس میں چیک لے لیے جاتے ہیں اور اس کے بعد اس کو اس کی ضرورت کے مطابق رقم فراہم کردی جاتی ہے۔ 

اس سلسلے میں شہروں کا کہنا ہے کہ سودی کاروبار کرنے والے ان کی شرح سود عام بینکوں کے مقابلے میں دگنی تگنی ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بینک کی گارنٹی اور اس کے جو قوانین ہیں، اس کے مطابق قرضہ کا حصول ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، جب کہ ان مائیکرو فنائنس بینکوں اور این جی اوز سے یا کار شوروم مالکان سے رقم حاصل کرنے والے کو صرف ایک چیک اور ایک ایگریمنٹ کے ساتھ اسے رقم فراہم کردی جاتی ہے اور اگر وہ شخص سود پر حاصل کردہ رقم کی ادائیگی نہیں کر پاتا ہے، تو اس کے اکاؤنٹ کے دیئے ہوئے چیک پر میمو لگوا کر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی جاتی ہے اور اگر پولیس قرض فراہم کرنے والے کی خواہش کے مطابق مقدمہ درج نہ کرے تو پھر یہ لوگ قانون کا سہارا لے کر وکیل کے ذریعے عدالت سے ایف آئی آر درج کرنے کا حکمنامہ حاصل کرکے سود پر رقم دینے والے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتے ہیں۔ 

اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ روز پیش آیا جب سابق ایم پی اے سردار شیر محمد انڑ کے خلاف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک شخص نے ان خلاف جعلی چیک دینے کا مقدمہ درج کرا کر عدالت سے ان کو تین سال قید اور چالیس ہزار روپیہ جرمانے کی سزا دلوائی اور سردار شیر محمد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا۔ اس گرفتاری کے خلاف قاضی احمد میں مکمل ہڑتال کی گئی ۔ لوگوں نے قومی شاہ راہ پر دھرنا دیا، جب کہ اس موقع پر مظاہرین نے پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے اور وہ سود خوری پر لعنت سود خوروں پر لعنت کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ 

اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے الزام لگایا کہ سردار شیر محمد کو جو ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالک اور علاقے کی ایک معتبر شخصیت ہیں۔ سود کے جال میں جکڑا اور پھر سود در سود کرکے ان کے ذمے کروڑوں روپے کا قرض کردیا اور اس کی عدم ادائیگی پر ان کے ہاتھ سے دیے گئے چیک کے ذریعے ان پر جعلی چیک دینے اور فراڈ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرا کر جیل پہنچا دیا۔ 

تاہم بات اتنی سادہ سی نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ضلع شہید بینظیر آباد جو کہ سود خوروں کی جنت بنا ہوا ہے، یہاں پر اربوں روپے کے سودی قرضے دئے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے انہیں اس جال میں پھنسا کر جائیداد سے محروم کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ایک سرکاری افسر جنہوں نے سُود پر رقم حاصل کی تھی اور ادا نہیں کرتے کہ ان کی موت بھی اسی طرح پرسرار انداز میں ہوئی، جب کہ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس سرکاری افسر کی موت کے پیچھے بھی سود خوروں کی دھمکیاں تھی، جو کہ وہ برداشت نہیں کر سکے اور وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 

تاہم جہاں تک سُودی کاروبار کی قانونی حیثیت کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اس بارے میں واضح قوانین ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی مائیکرو فنانسنگ کر رہا ہوں یا این جی او بنا کر قرض کی لین دین کر رہا ہوں، اس کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ بہ حیثیت ادارہ کام کرے اور سودی قرض کا لین دین کرے، تو اس کی بھی باقاعدہ طور پر اجازت ڈپٹی کمشنر سے لی جائے اور وہ ادارہ رجسٹرڈ ہو، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اس وقت جو بھی لوگ یا این جی او سودی قرض کا لین دین کر رہے ہیں، ان کی اکثریت کے پاس نہ تو کوئی سرٹیفیکیٹ ہے اور نہ ہی وہ کسی ادارے سے رجسٹرڈ ہیں اور اس طرح سے انہیں اپنی من مانی شرح پر سودی کاروبار کا کھلا موقع ملتا ہے۔

جس طرح سے کہا جاتا ہے کہ کار شوروم کی آڑ میں جو قرض دیا جاتا ہے، اس میں قرض لینے والے کو اگر پچاس لاکھ روپے کی کار دی جاتی ہے، تو اس کا ایگریمنٹ اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس پر ہر ماہ لاکھوں روپے کا سود لگا کر یہ کار اسے 75 لاکھ روپے کی دی جاتی ہے اور اس کی واپسی کی مدت چھ ماہ ہوتی ہے ۔ اور چوں کہ کار لینے والا وہ رقم ادا نہیں کر پاتا تو پھر وہ ایگریمنٹ منسوخ کردیا جاتا ہے اور اس کے ذمے 75 لاکھ روپیہ جو کہ پہلی کار کا واجب الادا ہوتا ہے، پھر اس کو اس 75 لاکھ روپے کے بعد اسی طرح ایک اور کار جو کہ درحقیقت اسے دی نہیں جاتی، بلکہ صرف کاغذی کارروائی کرکے اس کے حوالے کر دی جاتی ہے اور پھر اس طرح ایک سال میں پچاس لاکھ روپے لینے والا شخص ڈیڑھ کروڑ روپے کا مقروض ہو جاتا ہے اور پھر اس نے اس رقم کی ادائیگی کے لیے ایڈوانس میں جو چیک دیے ہوتے ہیں، وہ کار شوروم والے کے کام آتے ہیں اور پھر وہ عدالت عالیہ سے یا پولیس کے ذریعے سے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کراکر اس کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد کو اونے پونے داموں بیچ کر اس کی رقم کو ادا کرے اور اگر وہ اس کی ادائیگی نہیں کرتا، تو پھر اسے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے اور اس کے بعد معاشرے میں جو اس کی رسوائی ہوتی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، جس طرح سردار شیر محمد انڑجو ایک معتبر خاندان سے تعلق رکھتے اور معاشرے میں ان کی ساکھ تھی، ان کو بھی اسی طرح اسی جھوٹے چیک کے کیس میں جیل کی ہوا کھانا پڑی اور اس طرح سے ایک رسوائی ان کے مقدر میں لکھ دی گئی۔ 

ادھر اس سلسلے میں سابق ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد تنویر حسین تنیو جنہوں نے تین سال سے زائد عرصہ یہاں ملازمت کی، ان کا یہ کہنا تھا کہ سودی کاروبار کرنے والے اس قدر با اثر ہیں کہ ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے عدالتی نظام کو بھی قانونی موشگافیوں میں الجھا کر اور قانون کی آنکھوں میں دھول جھو نکنےکے علاوہ جعلی چیک کے قانون کو اپنے مفاد کا غلام بنا لیا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے جعلی چیک دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تھی اس لیے اس چیک کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی، لیکن جب سے یہ قانون بنا کہ جعلی چیک دینے والے پر فراڈ کا مقدمہ درج کرنے کی شق شامل کی گئی، تو اس کا فائدہ اس پارٹی کو ہونا چاہیے تھا، جس سے فراڈ کیا گیا تھا، لیکن اس قانون کا فائدہ بھی زیادہ تر وہ سود خور اٹھا رہے ہیں جو ضرورت مند کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے بھاری شرح سود پر قرض فراہم کرتے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید