سندھ میں جرائم کی شرح میں اضافے اور گرفتار ملزمان کی عدالتوں سے رہائی نے پولیس کے تفتیشی نظام اور کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تعیناتیوں اور من پسند افسران کو اہم سیٹوں پر بٹھانے کے باعث پُوری پولیس کا نظام ہی سیاست زدہ ہو کر گل سڑ چکا ہے، آئی جی سندھ کی کارکردگی بھی کافی مایُوس کن ہے۔ گزشتہ ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے سنگین جرائم میں ملوث افسران کی تعیناتیوں پر آئی جی سندھ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ تین تین قتل میں ملوث ایس ایچ اوز بھی عہدے انجوائے کر رہے ہیں۔
آپ کے افسران زمینوں پر قبضے کررہے ہیں، غریبوں کا مال کھا رہے ہیں، کیا جرائم میں ملوث افسران کو فری ہینڈ دے دیا ہے؟ انسپکٹر منظور چانڈیو نے تین افراد کا قتل کیا اور غریبوں سے کمپرومائز کیا ،مطلب بریت نہیں اعتراف جرم کیا، مسلسل سرزنش پر آئی جی سندھ خاموشی سے سر ہلاتے رہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی۔ سینیارٹی لسٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا اور آئی جی سندھ کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر لسٹ کے مطابق ترقیاں ثابت نہیں ہوئی، تو آپ پر یہیں فرد جرم عائد کریں گے۔
جسٹس آفتاب احمد گورڑ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو عدالتی حکم کے باوجود پولیس انسپکٹرز کو قانون کے مطابق ترقیاں نہ دینےکے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ آئی جی سندھ کے متضاد بیانات پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے ریمارکس دیے کہ ہم بہت سادہ بات کررہے ہیں، عمل درآمد رپورٹ پیش کریں۔ سندھ پولیس کو اس وقت بڑے پیمانے پر ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
کراچی پولیس میں نئے پولیس چیف کی تعیناتی کے بعد متعدد ایسے فیصلے کیے گئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی پولیس میں اصلاحات کی کم از کم کوشش تو کی جا رہی ہے۔ کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے شہریوں کی آسانی اور حدود کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ماڈل تھانے بنائے بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے مطابق چھوٹی حدود رکھنے والے دو تھانوذں کو ضم کردیا جائے گا۔ پولیس حکام نے بتایا کہ بوٹ بیسن اور کلفٹن تھانے کو دوبارہ ماڈل تھانہ میں تبدیل کیا جائے گا۔
سپر مارکیٹ اور لیاقت آباد تھانے کو بھی ضم کیا جارہاہے، فیروز آباد اور بہادرآباد تھانوں کو بھی ضم کیا جائے گا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ماڈل تھانوں میں ایک ایس ایچ او تعینات ہوگا، نفری دو تھانوں کی فراہم کی جائے گی۔ ماڈل تھانوں میں اہل کار اور افسران کی ڈیوٹی بھی بارہ کے بہ جائے اٹھ گھنٹے تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ غلام نبی میمن، جب اس سے قبل بھی ایڈیشنل آئی جی کراچی بنے تھے ، تو انہوں نے ماڈل تھانے بنائے تھے۔
تاہم ان کے بعد آنے والے عمران یعقوب منہاس نے دوبارہ سے تھانوں کو الگ کر دیا تھا۔ دوسری جانب کراچی پولیس کی ناقص تفتیش کوبہتر اور ملزموں کو سزا دلوانے کے لیے قابل اور تجربہ کار دو سو پرائیوٹ وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے تفتیشی افسران کے ناموں سمیت منصوبے سے متعلق تمام سفارشات حکومت کو دے دی ہیں۔ مختلف نوعیت کےسنگین جرائم کو نو کٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، ایڈیشنل آئی جی کراچی نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی سربراہی میں پانچ رکنی ٹیم وکلاء کے انٹرویوز کرے گی۔
وکلاء کا انتخاب کرنے والی ٹیم میں ایڈیشنل سیکریٹری لاء اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سمیت دیگر شامل ہوں گے۔ وکالت میں پانچ سال سے زائد تجربہ رکھنے اور دس کیسز میں سزا دلوانے والے وکلاء کو ترجیح دی جائے گی۔ منصوبے پر سالانہ 63 کروڑ روپے اخراجات آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے ان سفارشات پر مثبت رد عمل دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ ڈاکٹر فیاض حسین شاہ کا گزشتہ دنوں مشترکہ اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پولیس پراسیکیوشن کے باہمی تعاون پر روشنی ڈالی گئی۔ ترجمان کراچی پولیس کے مطابق پروسیکیوشن کو تفتیش میں مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہے، لہذا ماہانہ بنیادوں پر ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر اور انویسٹیگیشن آفیسرز کی میٹنگز کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ، تاکہ تفتیش کی خامیوں اور غلطیوں کا تدارک کیا جاسکے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔
ترجمان پولیس کے مطابق پہلے مرحلے میں کراچی پولیس میں 80 بہترین تفتیشی افسران کی فہرست مرتب کی گئی ہے ، جنہیں 05 کیٹیگری کے مقدمات کی تفتیش کے لیے خصوصی طور پر تفتیشی افسر مقرر کیا جا رہا ہے۔قتل، ڈکیتی مزاحمت پر قتل، ڈکیتی مزاحمت پر زخمی، ریپ اور منشیات کے ہائی پروفائل ملزمان کے مقدمات کے لیے خصوصی تفتیشی افسران کو ضلعی سطح پر ذمے داری دی جا رہی ہے۔
قتل کے مقدمات کے تفتیشی افسران کو سال میں 15 سے زائد مقدمات کی تفتیش نہیں دی جائے گی، بہترین تفتیش کی بِنا پر کم از کم پانچ سال سزا دلوانے والے تفتیشی افسر کو ایک لاکھ روپے انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹ دیے جائیں گے۔ قتل سمیت پانچ کیٹیگری کے مقدمات میں پولیس کے تفتیشی افسر کی معاونت کے لیےخصوصی طور پر پراسیکیوشن افسر بھی تعینات کئے جا رہے ہیں۔
تفتیشی افسران کے لیے ہر ممکن آسانی و سہولت دی جا رہی ہے، تاکہ تفتیشی نظام کو مضبوط اور تفتیشی افسر کو ذہنی اور معاشی مسائل سے آزاد کیا جاسکے۔ تفتیشی افسران کو ترجیحی بنیادوں پر پولیس لائنز میں فوری سرکاری رہائش فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
سیکیورٹی، ضروریات اور وسائل کی کمی تفتیش کے دُرست سمت میں نہ ہونے کی بڑی وجہ ہے، مستقبل میں تفتیشی افسران کے مسائل کو فوری حل کیا جائے گا۔ جرائم کا سدباب جرائم کا پتہ لگانے سے ہوگا ، جو اچھی تفتیش سے ہی ممکن ہے، پولیس کے انویسٹیگیشن آفیسرز اور پروسیکیوشن آفیسرز کی جدید خطوط پر تربیت کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ عوام کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کے تفتیشی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔
پروسیکیوشن اور پولیس کے درمیان باہمی رابطے، تعاون اور مشاورت کو یقینی بنانا بھی تفتیش کے نظام میں بہتری کے لیے ضروری ہے۔ پولیس کو ان نقائص اور کمزوریوں کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی، جس کی وجہ سے ملزمان ضمانت حاصل کرنے یا بری ہونے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ سزا کی شرح میں کمی اور فوجداری نظام انصاف پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کو فوری بحال کرنے کے لیے تفتیشی نظام میں انقلابی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔
تفتیش سے منسلک افسران کے لیے مختلف نوعیت کے مقدمات میں جدید ٹیکنالوجی و تکنیک پر کام کرنے کے حوالے سے تربیت دینے کا آغاز کا فیصلہ کیا گیا، جس سے ملزمان کو سزائیں دلانے اور مدعی کو انصاف فراہم کرنے میں مدد ملے گی، شعبہ تفتیش کو موجودہ دور سے مطابقت جدید آلات اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کوششیں کی جارہی ہیں ، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
کراچی میں کرائم سین یونٹ کا قیام اور تفتیش میں اس کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ اجلاس میں شریک کراچی کے 80 بہترین تفتیشی افسران کو بہترین کارکردگی دکھانے پر کیش انعام و تعریفی اسناد دی گئیں اور آئندہ بھی بہترین تفتیش پر پولیس افسران کو کیش انعامات و اسناد تسلسل کے ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا۔
کراچی پولیس چیف نے اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ ڈاکٹر فیاض حسین شاہ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح شہریوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنے والے ملزمان کے ٹھکانوں کا پتہ لگانے کے لیے کراچی پولیس نے سروے شروع کر دیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں سے اغوا کیے جانے والے شہریوں کو اغوا کار عموماً مضافاتی علاقوں میں رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے کراچی پولیس نے اب تک 30 سے 35 ایسے علاقوں کا سروے کر کے ان کی نشان دہی کی ہے اور وہاں موجود افراد اور علاقے کی معلومات اکٹھی کی ہیں، جہاں ممکنہ طور پر مغویوں کو رکھا جاتا ہے اور ملزمان قانون نافذ کرنے والے اداروں سے روپوش رہتے ہیں، جن علاقوں کی معلومات جمع کی گئی ہیں، ان میں سے اکثریت علاقے تھانہ گلشن معمار،سائٹ سپر ہائی وے صنعتی ایریا،سرجانی ٹاؤن ،منگھوپیر، سچل ، سہراب گوٹھ اور تھانہ گڈاپ سٹی کی حدود میں شامل ہیں۔
اس حوالے سے سی پی ایل سی، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل، ایس ایس پی ملیر، ایس ایس پی ایسٹ اور ایس ایس پی ویسٹ کے ساتھ میں میٹنگ کی گئی ہے۔ کراچی میں ٹریفک پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھی کراچی پولیس چیف نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں احکامات دیے تھے کہ شہر میں سیکشن آفیسرز ہی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان کرنے کے مجاز ہوں گے اور ماتحت عملہ شہریوں کا چالان نہیں کرے گا۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں اور شہر میں ٹریفک کی روانی میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے، کیوں کہ پہلے ٹریفک اہل کاروں کی توجہ ٹریفک کنٹرول کرنے کے بہ جائے صرف چالان کا ٹارگٹ پورا کرنے میں تھی۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں صرف انسپکٹرز اور سب انسپکٹرز کو چلانے کرنے کا اختیار دیں گے۔
تاہم اس کے لیے بھی ہم اچھی شہرت اور ساکھ والے افسران منتخب کریں گے۔انہوں نے بتایا کہ منتخب شدہ انسپکٹرز اور سب انسپکٹرز کو بھی سیکشن آفیسر کی طرح کا آرم بینڈ دیا جائے گا، ہر ایک کو اجازت نہیں دیں گے کہ جس کی مرضی ہو وہ مشین اٹھا کر چالان کرنا شروع کر دے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مرحلے کے لیے انسپکٹرز اور سب انسپکٹرز کی سیلیکشن کی جا رہی ہے، ہم جس افسر کو اختیار دیں گے، اس کا نام باقاعدہ نوٹیفائڈ کریں گے۔ واضح رہے کہ سال 2021 میں کراچی ٹریفک پولیس نے 90 کروڑ روپے سے زائد کے چالان کیے تھے اور پولیس کی تمام تر توجہ ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے بہ جائے صرف چالان کاٹنے کی حد تک تھی۔ کراچی کی حد تک کم ازکم یہ کوشش دیکھنے میں آ رہی ہے کہ پولیس چیف ایک وژن رکھتے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ پولیس کے اندر اصلاحات لائی جائیں۔