کراچی(ٹی وی رپورٹ)رہنما پیپلز پارٹی سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ نیوٹرل ادارے کے سربراہ کے خلاف حکومت نے کوئی قدم اٹھایا تو اپوزیشن تسلیم نہیں کرے گی، عمران حکومت ختم ہو چکی ہے یہ ایک غیر آئینی حکومت ہے اور اکیس مارچ کے بعد اس حکومت کا ہر اقدام غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ 88-89ء میں عمران کی امریکا میں پہلی ملاقات بینظیر بھٹو سےہوئی تو بش سینئر نے کہا تھا اس بچے کا خیال کرنا، آئین کے غلط استعمال کی کوشش یا اسے فالو نہ کرنے پر اسپیکر کیخلاف آرٹیکل 6 کا استعمال کیا جاسکتا ہے، وزیر اعظم کے بعد اسپیکر و دیگر کیخلاف عدم اعتماد باری باری ہوگا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“میں میزبان سلیم صافی سے بات چیت کررہے تھے۔ رہنما پیپلز پارٹی ،سید خورشید شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہاں سسٹم ڈی ریل ہوسکتا ہے اگر ہم ہر وہ بات کریں جو وہ کررہے ہیں اسٹیج پر کھڑے ہوکر گالیاں دینا، وزیر بے قابو ہونا۔ اسپیکر جو نیوٹرل اور آئین و پارلیمنٹ کا نگراں ہوتا ہے۔ اسپیکر کا رول اس وقت ایک عام آدمی جیسا ہے وہ ایک پارٹی کا ورکر بن کر کام کررہا ہے۔ اسپیکر نے آئین کی دھجیاں اڑائی ہیں آئین کے خلاف اپنا آرڈر کیا ہے۔ آئین کے غلط استعمال کی کوشش یا آئین کو فالو نہ کرنے پر اسپیکر کے خلاف آرٹیکل 6کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ کل بھی عدالت میں کیس ہے اس چیز کو ضرور اٹھایا جائے گا کہ آئین کی خلاف ورزی کرنیوالے اسپیکر کے ساتھ کیا کچھ کیا جائے۔ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم آئین و قانون کے مطابق یہ تبدیلی لائیں گے۔ ہمیں او آئی سی کے شرکا کا اتنا ہی احترام ہے جتنا اپنی پارلیمنٹ کا ہے۔ کیا انہوں نے اس او آئی سی کانفرنس میں کشمیری لیڈر شپ کو بلایا ہے؟ او آئی سی میں مرکزی ایشو کشمیر کا ہے کشمیر کی حمایت ہم کھو چکے ہیں۔ او آئی سی کانفرنس میں اپوزیشن کو بھی مدعو کرنا چاہئے اگر ان کو نہیں بلاتے تو ان پر لعنت ملامت بڑی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر عدم اعتماد موشن موو کراکر اسمبلی اجلاس سات دن ملتوی کرسکتا ہے جاری نہیں رکھ سکتا تو نہ کریں۔ یہ نہیں کرسکتے کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرتے جائیں اس سے انارکی پھیلے گی پاکستان کو ہی نقصان ہوگا۔24کے بعد جب غیرملکی مہمان جائیں گے تو ہم بھی کھل کر میدان میں آئیں گے۔ حکومت کا کام ہوتا ہے تصادم سے دور رہنا امن قائم کرنا اور اپوزیشن کا کام ہوتا ہے حکومت پر دباؤ ڈالنا، دانا حکومت کا کام ہوتا ہے دباؤ سے نکلے یہ نادان لوگ ہیں کہ کچھ دباؤ میں آنا چاہتے ہیں۔ ہمارا لانگ مارچ پہلے سے طے شدہ تھا لڑائی کی شروعات عمران خان خود کررہے ہیں اس لئے انہوں نے 27 کے جلسے کا اعلان کیا ہے۔ اگر حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت اپنا جلسہ ملتوی کرتی ہے تو ہم ایک ٹوکن احتجاج کرکے ختم کردیں گے۔ اگر اتحادیوں کو ہم ملا دیں تو ہم آرام سے 200کا ہندسہ عبور کرسکتے ہیں۔ اس میں پی ٹی آئی کے28کے قریب ہوسکتے ہیں۔ چوہدری برادران24کے بعد کلیئر کریں گے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلز پارٹی کے معاملات کافی حد تک طے ہوگئے ہیں جو ان کی ڈیمانڈز ہیں وہ ایسی ہیں جو ہم بھی چاہتے ہیں کوئی ایسی خاص اور بڑی ڈیمانڈ ان کی نہیں ہے کہ ہم نہ مانیں۔ یہ طے ہوا ہے کہ لیڈر آف دی ہاؤس شہباز شریف ہوں گے۔ اسپیکر کا عہدہ پیپلز پارٹی کو دینے سے متعلق ابھی کچھ طے نہیں ہوا۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد میں کامیابی کے بعد اسپیکر و دیگر کے خلاف عدم اعتماد باری باری ہوگا۔ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین ہماری طرف خود آرہے ہیں وہ ڈھائی تین سال پہلے سے کھل کر پی ٹی آئی کی مخالفت کرتے تھے۔ جب کوئی بل پاس ہوتا تھا تو ووٹ ڈالنے بھی نہیں جاتے تھے ان کو پکڑ کر لایا جاتا تھا ان کو موقع ملا ہے وہ آگئے ہیں۔ پی ٹی آئی کیلئے ممبران اسٹیبلشمنٹ نہیں لائی تھی کام تو یہ لے رہے تھے جہاز تو ان کا چل رہا تھا اگر سارے اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے تو بغیر جہاز کے بھی آجاتے۔ شاہ محمود قریشی نہ آئے گا اور نہ ہی ہم واپس قبول کریں گے اس کے شکوک و شبہات تو خود عمران خان کو بھی ہیں کہ وہ وزیراعظم کا امیدوار ہے۔ وہ وزیراعظم کا امیدوار بن جائے اس کو کوئی لے آئے وہ اور بات ہے مگر اس کو کوئی نہیں لائے گا۔ فواد چوہدری واپسی کے لئے پہلے درخواست دیدے کہ میں واپس آنا چاہتا ہوں پھر سوچیں گے۔ یہ ہمیں یقین اور یقین دلایا بھی گیا کہ ہم نیوٹرل ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا اب کھلا ہوا خط ہے کہ ہم مداخلت نہیں کریں گے جو جس کی طاقت ہے وہ اس کو قابو کرے۔ سلیم صافی کا سوال کہ اب عمران خان ان کا نیوٹرل ہونا اور ان کا آئینی رول تک محدود ہونا جرم سمجھتے ہیں اور اس کے لئے عمران خان ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ آپ نیوٹرل رہنے کی بجائے ماضی کی طرح فریق بن جائیں اور اگر فریق نہیں بنتے تو عمران خان بعض اوقات دھمکیاں بھی دیتے ہیں اگر اس سوال میں وہ جو نیوٹرل کے سربراہ کے خلاف کوئی اقدام کرتے ہیں تو اپوزیشن کا ری ایکشن کیا ہوگا؟ عمران خان کے ساتھ ہوگی یا نیوٹرل کے سربراہ کے ساتھ؟ جواب میں خورشید شاہ نے کہا کہ کل کے بعد یہ حکومت نہیں ہے یہ اپنی اکثریت کھو چکے ہیں غیرقانونی حکومت ہوگی غیرقانونی احکامات ہوں گے۔ جو بھی ان احکامات پہ کل کے بعدعمل کرے گا وہ اس زمرے میں آئے گا کیونکہ جو آئین کی ضرورت ہے ان سے ہٹ کے یہ سارے کام کئے جاتے ہیں۔ مگر ہم چپ اسلئے ہیں کہ او آئی سی ہے پاکستان ہمارا ملک ہے وہاں عمران خان کو یا دوسروں کو نہیں جانا جاتا۔ آج میں نے ایک سینئر وزیر کو عملی طور پر گالیاں دیتے سنا ہے عملی طور پر بھی لعنتیں دیتا جارہا تھا۔ اس نہج پر جب پہنچ جائیں تو اندازہ کریں کیا پوزیشن ہوگی۔ سلیم صافی کا سوال کہ آئین میں تو وزیراعظم کے پاس اختیار ہے لیکن اگر ان حالات میں وہ نیوٹرل ہونے والے ادارے کے کسی عہدیدارکیخلاف کارروائی کرتے ہیں تو اپوزیشن اس کو نہیں مانے گی؟ جواب میں خورشید شاہ نے کہا کہ کیسے مانے گی جو عدم اعتماد ہوگیا ہے وزیراعظم نہیں ہیں قانوناً اس کو روک نہیں سکتے آپ کیونکہ وہ صرف اسمبلی نہیں توڑ سکتے مگر21کے بعد میں نے کہا جو کام بھی ہوگا غیرقانونی غیرآئینی ہوگا۔