وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد نے نہ صرف بکھری ہوئی اپوزیشن کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کردیا ہے بلکہ اپوزیشن جماعتوں میں نئی جان بھی ڈال دی ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے قبل ازیں پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی حمایت کیساتھ ساتھ اس میں شرکت بھی کی اور اب پی ڈی ایم نے25مارچ کو جس لانگ مارچ اور اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔
پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اس میں شرکت کا اعلان کردیا ہے اگر ہم صوبہ خیبر پختونخوا کی بات کریں تو یہاں عوامی نیشنل پارٹی ایک موثر سیاسی قوت کے طور پر جانی جاتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا لانگ مارچ شروع کرنا تھا تو اس سے قبل پارٹی کے وفود نے باچا خان مرکز پشاور اور ولی باغ چارسدہ کے دورے کرکے اے این پی کو لانگ مارچ میں شرکت کیلئے تیار کرایا، ویسے بھی اے این پی کا جھکاؤ پی ڈی ایم سے کہیں زیادہ پیپلز پارٹی کی طرف دکھائی دے رہا تھا ، پی ڈی ایم میں جمعیت علمائے اسلام کی صورت میں اے این پی کو ایک ایسی سیاسی قوت دکھائی دے رہی تھی جو آنے والے انتخابات میں اس کیخلاف میدان گرم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہی وجہ تھی کہ پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرنے کے بعد اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ جے یو آئی کیساتھ ہوگا۔
چنانچہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے مابین قربتیں بڑھنے لگیں اور اےاین پی نے پھر پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت بھی کی، دوسری طرف جے یو آئی کی جانب سے 25 مارچ کو اعلان کردہ لانگ مارچ کیلئے تیاریاں اور رابطے جاری ہیں اور مرکزی سطح پر ہونے والے اجلاسوں کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور اے این پی نے بھی لانگ مارچ میں شرکت کی یقین دہانی کرادی ہے اور اب 25مارچ کو خیبر پختونخوا سے مختلف اپوزیشن جماعتوں کے قافلے اسلام آباد کا رخ کرنے والے ہیں چنانچہ تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی عوامی محاذ گرم ہونے والا ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی27مارچ کو اسلام آباد میں10لاکھ لوگ جمع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
یقینی طور پر یہ بڑھتا ہوا سیاسی تناؤ اگر کم نہ ہوا اور ایوانوں کے فیصلے سڑکوں پر کئے جانے کی روش اسی طرح اختیار رکھی گئی تو غیر جمہوری قوتوں کو ایک مرتبہ پھر مداخلت کا جواز مل سکتا ہے اس لئے سیاسی قوتوں کو کشیدگی غیر ضروری طورپر بڑھانے سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے، دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے بھی رابطہ عوام مہم تیز کی ہوئی ہے بلکہ اپوزیشن سے پہلے ہی حکومتی جماعت نے رابطہ عوام مہم شروع کی اور اب تک وزیراعظم عمران خان پنجاب سمیت خیبر پختونخوا میں کئی بڑے جلسوں سے خطاب کرچکے ہیں تاہم یہ امر حیران کن ہے کہ حکومت آئینی اداروں کی بے توقیری پر تلی ہوئی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیر اعظم کو خیبر پختونخوا کے ضلع دیر اور چترال میں جلسوں کے انعقاد سے روکا ہوا تھا اسی قسم کے احکامات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کیلئے بھی تھے تاہم دونوں نے الیکشن کمیشن کے احکامات کورد کرتے ہوئے نہ صرف دیر اور سوات میں جلسے کئے بلکہ اب صوبہ کے دوسرے مقامات پر بھی جلسوں سے خطاب کرنے والے ہیں۔
یاد رہے کہ جب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ہی الیکشن کمیشن کی ہدایات اور احکامات کی پاسداری نہیں کریں گے تو پھر دیگر مرکزی اور صوبائی وزرا سے اس کی توقع کم ہی رکھی جاسکتی ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پھر الیکشن کمیشن کی ساکھ انتہائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے پھر شاید اگلے عام انتخابات کی شفافیت بھی مشکوک ہوجائے، حکومت کا موقف ہے کہ اس نے ایک آرڈیننس کے ذریعے حکومتی شخصیات کے جلسوں میں شرکت پر عائد پابندی ختم کررکھی ہے تاہم الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ اس نے جو نیا ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے اس میں بدستور حکومتی مناصب رکھنے والوں پر جلسوں میں شریک ہونے کی پابند ی عائد ہے، بہتر تو یہی ہوگا کہ صورت حال مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے حکومت اور الیکشن کمیشن ایک میز پر بیٹھ کر نیا ضابطہ اخلاق کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے تک پہنچ جائیں۔
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے بھی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور امیدوار میدان میں نکل پڑے ہیں ساتھ ہی پہلے مرحلے کے کامیاب بلدیاتی نمائندوں نے اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھالیا ہے، دوسرے مرحلے میں بھی تحریک انصاف اور جے یو آئی میں گھمسان کے مقابلے کا امکان ہے تاہم تحریک انصاف کو اب بھی کئی مقامات پر پارٹی کے باغی امیدواروں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ساتھ ہی یہ دوسرا مرحلہ اس وقت وزیر اعلیٰ محمود خان کیلئے بھی سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ پہلے مرحلے میں شکست کا داغ مٹانے کے ساتھ ساتھ اب انہیں اپنے آبائی ضلع سوات اور آبائی ڈویژن ملاکنڈ میں کامیابی حاصل کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہے اور ظاہر ہے کہ اگر وہ سوات میں نتائج نہیں دے پاتے یا پھر ان کے بھائی الیکشن ہار جاتے ہیں تو پھر آنے والے دنوں میں ان کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ مرکزی قیادت کی جانب سے ان کے خلاف مزید سخت اقدام کیلئے بھی تیار رہنا ہوگا کیونکہ تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ جس کی سفارش پر ٹکٹ جاری ہوا ہے یا جس شخصیت کا رشتہ دار الیکشن میں حصہ لے رہا ہے تو اس کے نتائج کی ذمہ داری مذکورہ حکومتی شخصیت پر عائد ہوگی اور شاید یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام کو کاؤنٹر کرنے کیلئے صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں22ہزار سے زائد آئمہ مساجد اور خطبا کو ماہانہ10ہزار روپے اعزازیہ دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اگرچہ اعزازیہ دینے کا اعلان کافی پرانا ہے۔
تاہم بلدیاتی الیکشن کے اس مرحلہ پر اعزازیہ کی تقسیم بہرحال سوالات کھڑے کرنے کا باعث بن رہی ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی انتخابی اضلاع میں اعزازیہ کے چیک تقسیم کرنے پر پابند عائد کردی ہے۔