وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام اورکامیاب بنانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے جوڑ توڑ اور رابطوں سے سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، تمام اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف صف آرا ہیں اور انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کرنے کےلئے حکومتی اراکین اور حکومتی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہی ہیں جس میں اپوزیشن جماعتیں بڑی حد تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں بظاہر کامیاب نظر آرہی ہیں، وزیراعظم اپنی پارٹی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی کو واپس لانے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے عوامی جلسے کرکے اپنے سیاسی مستقبل کے لائحہ عمل اور اگلے سیاسی منظر کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔
متحدہ اپوزیشن کے حکومتی اراکین وفاداریاں تبدیل کرکے پی ٹی آئی حکومت کو گرانے اور وزیراعظم کے عوامی جلسوں سے جارحانہ خطابات سے ملک ایک نئے سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں نظرآرہا ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی کا اجلاس کل جمعہ پچیس مارچ کو طلب کرلیا ہے جس میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اس ماہ کے آخری دنوں میں رائے شماری ہوگی۔
اِس سے قبل اپوزیشن کی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادکو غیر موثر بنانے کے لیے یا موخر کرنے کے لیے حکومت نے فلور کراسنگ کرنے والے ممبران کے خلاف کارروائی کے لیے آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے انہیں تاحیات نااہل قرار دلوانے کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس پر فیصلے کے بڑے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ ممبران پارلیمنٹ کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانا کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں بھی حکومتیں گرانے اور بنانے میں سیاسی وفاداریاں خریدنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔
اب بھی پی ٹی آئی کے جن ممبران نے اپنی پارٹی کے خلاف بغاوت کرکے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، ان میں اکثریت ماضی میں بھی سیاسی پارٹیاں بدل بدل کر اسمبلی ایوانوں میں اپنے جوہر دکھاچکے ہیں، ان منحرف اراکین میں زیادہ تر ممبران وہ ہیں جو ماضی میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے اور2018ءکے انتخابات میں پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل ہوئے۔
ان سیاسی تجربہ کار ارکان پارلیمنٹ کا تعلق پنجاب کے پرانے سیاسی گھرانوں سے ہے جو ہوا کا رخ دیکھ کر ہر الیکشن سے پہلے ہی اپنے سیاسی گھونسلوں کی تلاش میں پارٹیاں بدلنے کے عادی ہیں، جو موجودہ سیاسی و پارلیمانی نظام کے لیے زہر قاتل ہے، جب تک سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کو عبرت ناک سزا نہیں ملے گی ہمارا پارلیمانی نظام غیر مستحکم رہے گا اور سیاسی جماعتوں کے ایسے ممبران پارلیمنٹ کی حمایت لینا مجبوری بنی رہے گی یہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا میثاق جمہوریت معاہدے اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے منحرف ہونا پڑےگا ۔ پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں نے پچیس اور ستائیس مارچ کو اسلام آباد میں اپنی اپنی سیاسی طاقت کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں کارکن جمع کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا تحریک عدم اعتماد کا عوامی طاقت سے مقابلہ کرنا کسی بھی طرح آئینی اور جمہوری نہیں کہا جاسکتا۔
ایسا کرنے سے ملک سیاسی تصادم کی طرف بڑھے گا جو جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے اور جس میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی فتح و شکست نہیں ہوگی بلکہ دونوں صورتوں میں ہی ملک میں عدم استحکام پیدا ہونے سے ملک کمزور ہوگا اور ملک کا ہی نقصان ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو تصادم سے اجتناب کریں ورنہ اس کے نتیجے میں کوئی ایسا حادثہ ہو گیا تو سب اپنے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے پلان بی کے تحت متحدہ اپوزیشن نے پی ٹی آئی کے ممبران کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے الزام سے بچنے کے لیے حکومتی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لیے مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بی اے پی سے رابطے بڑھادئیے ہیں۔ اتحادی جماعتیں تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کے لیے تیار کھڑی ہیں اور کسی بھی وقت اعلان متوقع ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو ملک کا سیاسی منظر نامہ کیسا ہوگا، اِس حوالے سے حکومتی اتحادی جماعتیں اور اپوزیشن خود تذبذب کا شکار ہیں۔
اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف کو وزیراعظم نامزد کردیا ہے جبکہ آصف علی زرداری پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانے کی پوری کوشش کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں سیاسی تبدیلی کے لیے بہت جلد وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا ہوم ورک مکمل کرلیاگیا ہے تاہم اس حوالے سے جہانگیر ترین گروپ بھی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے کوشاں ہے لیکن اِس گروپ کو وزیراعلیٰ کے منصب کے لیےقد آور ممبر پنجاب اسمبلی کی تلاش کا سامنا ہے جو پنجاب کے انتظامی امور چلانے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی پرسب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔
مسلم لیگ ق کے پنجاب اسمبلی میں دس ممبران ہیں۔ وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے چودھری برادران کو مسلم لیگ ن کا تعاون درکار ہے لیکن چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قلم دان دینے پر مسلم ن کا ایک مضبوط گروپ نالاں ہے اورانکا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کا ہدف صرف وزیراعظم عمران خان کو گھر بھجوانا ہے۔ بہرحال اِس ساری صورتحال میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک بار پھر خطرے میں پڑا نظرآتا ہے کیوں کہ تمام جماعتوں کی نظریں بلدیاتی انتخابات کی بجائے اب تحریک عدم اعتماد پر مرکوز ہیں۔