اسلام آباد(نمائندہ جنگ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس پر اٹارنی جنرل سے 3مارچ کو دلائل طلب کرلئے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ جمہوریت ملک میں سینسر شپ کیسے ہوسکتی ہے.
آرڈیننس بادی النظر میں آئین سے متصادم ہے، سیکشن 20 میں ترمیم پر دلائل دیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پیکا آرڈیننس کیخلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی سمیت دیگر درخواستوں میں دلائل کیلئے آخری مہلت دیتے ہوئے حکومت سے تین سوال بھی پوچھ لئے.
عدالت نے کہا کہ اس نکتے پر مطمئن کریں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاچکا تھا تو آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدارتی آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا؟
کیا صدر کے آرڈی نینس جاری کرنے کے آئینی اختیار کا درست استعمال ہوا؟ سیکشن 20میں ترمیم پر بھی دلائل دیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان سول رائٹس کے عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، آپ ان کیخلاف جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پیکا آرڈیننس بادی النظر میں آئین سے متصادم ہے، ایف آئی اے نے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کیا، اختیارات کا غلط استعمال تنقید اور مخالف آوازوں کو دبانے کیلئے کیا گیا.
دلائل دیں عدالت سن کر فیصلہ کرے گی، یہاں تین سوالات ہیں، پہلا سوال آرڈیننس بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی میں جاری ہوا، پیکا سیکشن 20کا غلط استعمال ہورہا ہے۔