کراچی پولیس کی چندمفاد پرست، کالی بھیڑوں کے منفی رویوں ،بد عنوانیوں اور رشوت ستانی کے باعث نہ صر ف محکمےکی ساکھ متاثرہوتی ہے، بلکہ پولیس کے بارے میں عام طور پرعوام کی منفی سوچ کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس کے برعکس چند افسران جرائم کی بیخ کنی کے عزم ساتھ محکمے سے بدعنوانی کےخاتمے اور پولیس میں موجود کالی بھیڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنے اور پولیس کی گرتی ہوئی ساکھ کی بلندی کے لیے اپنے مشن میں مصروف نظرآتے ہیں ۔کراچی پولیس چیف غلام نبی کا شمار بھی ان ہی میں ہو تا ہے۔
فرض شناس ، منجھے ہوئے پروفیشنل پولیس افسر غلام نبی میمن اصولوں پر سودا بازی نہیں کرتے، بلکہ ایمان داری اور میرٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری مرتبہ ایڈیشنل آئی جی کراچی تعینات ہوگئے۔ محکمہ پولیس کے کلیدی عہدوں پر تعینات رہنے والے خوش گفتار،دھیمے لہجے کے مالک غلام نبی میمن سے گزشتہ دنوں جنگ کے لیے انٹرویو کیا گیا،جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
’’ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تعلیم بدین سے حاصل کی، بعدازاں لیاقت میڈیکل کالج حیدرآباد میں داخلہ لیا، یہاں سے فائنل کے دوران ہی سی ایس ایس کے امتحان کی ٹھان لی اور اس میں کام یابی کے بعد آپ کے سامنے وردی میں ہُوں‘‘۔ ہم نے فوری سوال داغ دیا کہ ہم آپ کو ڈاکٹرکہہ سکتے ہیں تو انھوں نے ازرائے تفنن کہا کہ نیم حکیم خطرہ جان ہوتا ہے۔
’’میمن برادری کی اکثریت بینکنگ یا تجارت سے وابستہ ہے، آپ پولیس میں آگئے ؟‘‘ اس سوال کے جواب میں وہ بولے!! نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، میمن برادری کے کافی لوگ سول سروس میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں ، پولیس میں ایڈونچرازم ہے، جس کی وجہ سے اس کو ترجیح دی‘‘۔’’ محکمہ پولیس میں کس عہدے پرشمولیت اختیار کی اور اب تک کن کن عہدوں پر تعینات رہے ؟‘‘
انھوں نےبتایا کہ محکمہ پولیس میں میری تقرری ایس پی گھوٹکی کی حیثیت سے ہوئی، بعد ازاں ایس پی خیرپور تعینات رہا،جب کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر حیدرآباد ،خیر پوراور گھوٹکی میں خدمات انجام دینے کے بعد ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر(سی پی او )اور ڈی آئی جی ساوتھ زون ،ڈائریکٹر انکوائریزاینٹی کرپشن،ایڈیشنل سکیریٹری چیف منسٹرسندھ،ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ کراچی،ایس ایس پی لاڑکانہ،ڈی پی او لاڑکانہ،ایس ایس پی ضلع ملیر، ایڈیشنل آئی جی اسپشل برانچ اور اب دوسری مرتبہ ایڈیشنل آئی جی، کراچی خدمات انجام دے رہا ہوں۔‘‘
’’ شہرمیں جاری اسٹریٹ کرائمز کے تدارک کے لیے آپ کی حکمت عملی کیا ہوگی ؟‘‘ اس بارے میں غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائمز کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور منشیات کی لعنت ہے، جس کی دلدل میں پھنس کر نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے ، منشیات کے عادی افراد منشیات کے حصول کے لیے چور ی اور ڈکیتی کی وار داتیں کرتے ہیں۔ اس کے تدارک کےلیے منشیات کے اڈوں اور منشیات فروشوں کی گرفتاری اور منشیات کے اڈوں کے خاتمےکے لیےخود مانیٹر کرنے کے علاوہ ایس ایچ اوز ضلعی ایس ایس پیز سے لے کر ڈی آئی جیز تک کو سخت کارروائی کی ہدایات کی ہیں اور منشیات فروشوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ دنوں سرجانی ٹاون پولیس نے سرجانی ٹاون سیکٹر 7 /C میں گودام پرچھاپہ مار کر پولیس کی تاریخ کی بڑی کارروائی کے دوران فروٹ کے ڈبو میں چھپائی گئی اربوں روپےکی 5 ٹن سے زائد منشیات، جس میں ہیروئن ،افیون اور چرس برآمد کرکے پولیس نے 2ملزمان کو گرفتار بھی کیا ہے، جب کہ شہرمیں قائم آرگنائزجرائم اڈوں،اسٹریٹ کرائمز کے تدارک کے لیےاسپیشل سیکیورٹی یونٹ(ایس ایس یو) کا خصوصی یونٹ قائم کر دیا گیاہے، جس کا آغاز ایس ایس یو کمانڈوز کی جانب سے ضلع ملیر کے میمن گوٹھ تھانے کی حدود میں پولیس کی سر پرستی میں چلنے والے بدنام زمانہ خادم حسین کےجوئے کے اڈے پر چھاپہ مار کر دیا گیا ہے۔
اس چھاپہ مار کارروائی کے دوران نہ صرف110 سے زائد جواریوں کو گرفتار کیا گیا ، بلکہ دائو پر لگی 50 لاکھ سے زائد رقم، 22 موٹر سائیکلیں،اسلحہ اور بڑی تعداد قمار بازی کا سامان برآمد کر کے مقدمات بھی درج کرلیے گئے ہیں، جب کہ جوئے کے اڈے کی مبینہ طور پر سرپرستی کرنے والے ایس ایچ او میمن گوٹھ ثاقب خان اور ہیڈ محررکو باقاعدہ طور پر گرفتار کیا گیا، جب کہ ڈی ایس پی کنور آصف اور ایڈیشنل ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے ۔ اسٹریٹ کرائمزکی روک تھام کے لیے شہر میں ایس ایس یوکے موٹر سائیکل سوار کمانڈوزکو بھی مامور کیا گیا ہے۔‘‘
’’عام خیال ہے کہ سیف سٹی پروجیکٹ صرف اجلاسوں تک ہی محدود ہے؟‘‘کراچی پولیس چیف نے برملا جواب دیا کہ یہ تاثردُرست نہیں ہے،موجودہ حالات میں سیف سٹی پروجیکٹ کی تکمیل ناگزیرہے، جس کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ بھی سنجیدہ ہیں ،حکومت سندھ نے اس سلسلے میں ایکنک کو سمری ارسال کر دی گئی ہے ،جس کی منظوری کے بعد اس پر کام شروع ہو جائے گا،جس کے نتیجے میں پولیس کو بھی جلد کیس حل کرنے میں سہولت اور آسانیاں میسر آئیں گی ۔‘‘
’’ آپ نےروایتی تھانہ کلچرکو تبدیل کرنے پولیس کی اصلاح اور محکمے کوبد عنوان افسران و اہل کاروں سے پاک کرنے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی ہے ؟‘‘ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس میں جزا و سزاکے نظام پرسختی سے عمل درآمدکیا جاتاہے اور یہی میری پہلی ترجیح ہے، کسی بھی علاقے میں ہونے والےجرائم کی روک تھام کی ذمے داری علاقے کے ایس ایچ اوپرعائد ہوتی ہے۔
میں نے پہلی مرتبہ کراچی پولیس چیف کا عہدہ سبنھالنے کے بعد ہی روایتی تھانہ کلچرکی تبدیلی کی ابتدا ایس ایچ اوزکی تعیناتی کے لیے رشوت اور سفارش کا خاتمہ کر کے کی ، ایس ایچ اوزکی تقرری کے خواہش مند افسران کے لیےامتحان پاس کر کے میرٹ پر ایس ایچ او کی تعیناتی کی بنیاد ڈالی ہے، جس کے نتیجے میں قابل اور اچھے افسران سامنے آئے ہیں۔
اس قدم سے روایتی تھانہ کلچرمیں کو ختم کرنے میں بھی ملے گی۔بدعنوانی اور رشوت خوری میں ملوث پولیس افسر یااہل کارکی اب محکمے میں کوئی گنجائش نہیں ہے ، اس سلسلے میں تمام ڈی آئی جیز اور ضلعی ایس ایس پیز ہدایت کی ہے کہ شکایت ملنے پر فور ی تحقیقات کرکے سخت کارروائی کرکے گھر بھیجنے کی ہدایت کی گئی، جب کہ شہری پولیس اہل کاروں و افسران کی زیادتی کی شکایت واٹس ایپ نمبر 0343.5142770پرارسال کر سکتے ہیں ،جس پر میں خود ایکشن لیتا ہوں ۔
محکمہ پولیس کو بد عنوانی سےپاک کرنا میری پہلی ترجیح ہے ۔‘‘ ’’ ٹریفک پولیس کے سیکشن آفیسر(ایس او) کے علاوہ چالان کا اختیا رنہیں ،آپ کی اس ہدایت کوشہری حلقوں خصوصا طلبا کی جانب سے بہت سراہاگیاہے ، ٹریفک پولیس کی جانب سے شہر بھر میں نو پارکنگ کی آڑ میں جبری طورپرگا ڑیاں اور موٹر سائیکلیں اٹھاکر تھانوں میں لے جا کریومیہ ہزاروں روپے مبینہ طور رشوت وصول کرنے والے ٹریفک پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی ایکشن لیں گے؟‘‘ غلام نبی میمن نے اس سوال کے جواب کہا کہ ٹریفک پولیس کےرویوں اور زیادتی کی شکایت ملنے یا ویڈیووائرل ہونےپر کئی اہل کار معطل کر چکا ہُوں ،ٹریفک پولیس کا قبلہ دُرست کرنا ترجیحات میں شامل ہے۔
اس سلسلے میں میجر اقدامات بھی کیے جائیں گے ۔‘‘ ’’ تفتیشی پولیس کی جانب سےجدید طریقوں اور سائنسی بنیادوں کی بہ جائےروایتی اور کمزور تفتیش ،قانونی سقم ، ٹھوس ثبوت اور گواہان کی عدم حاضری کے باعث حقیقی مجرم عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کر لیتے ہیں یابری ہو جاتے ہیں، اس سلسلے میں آپ نے کوئی جامع طریقہ کاروضع کیا ہے ؟‘‘
اس کے جواب میں غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کو تفتیش میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، ہم نےتفتیش کی خامیوں کا تدارک کرنے اورمجرموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے شعبہ تفتیش کو 5کٹیگریز میں تقسیم کردیا ہے، جوقتل، ڈکیتی مزاحمت پر قتل، ڈکیتی مزاحمت پر زخمی، ریپ اور منشیات کے ہائی پروفائل جیسے سنگین مقدمات پر مشتمل ہیں ، پہلے مرحلے میں کراچی پولیس کے 80 قابل تفتیشی افسران کی فہرست مرتب کر لی گئی ہے۔ ملزمان کے مقدمات کے لیے خصوصی تفتیشی افسران کو ضلعی سطح پر ذمے داری دی جا رہی ہے۔ قتل کے مقدمات کے تفتیشی افسران کو سال میں 15 سے زائد مقدمات کی تفتیش نہیں دی جائے گی تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ کے ساتھ کام کر سکیں۔
بہترین تفتیش کی بنیاد پر کم از کم 5سال سزا دلوانے والے تفتیشی افسر کو ایک لاکھ روپے انعام اور تعریفی اسناد بھی دی جائے گی۔ قتل سمیت 5کیٹیگری کے مقدمات میں پولیس کے تفتیشی افسر کی معاونت کے لیے خصوصی طور پر پراسیکیوشن افسر بھی تعینات کئے جا رہے ہیں۔ جرائم کا سدباب جرائم کا کھوج لگانے اور جو اچھی تفتیش سے ہی ممکن ہے، پولیس کے انویسٹیگیشن اور پروسیکیوشن آفیسرز کی جدید خطوط پر تربیت کا بھی فیصلہ کیا گیاہے، تاکہ عوام کو جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تفتیش نقائص اور کمزوریوں کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ملزمان ضمانت حاصل کرنے یا بری ہونے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ سزا کی شرح میں کمی اور فوجداری نظام انصاف پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کو فوری بحال کرنے کے لیے تفتیشی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا عزم کر رکھا ہے۔
تفتیشی شعبے سے منسلک افسران کے لیے بھی مختلف نوعیت کے مقدمات میں جدید ٹیکنالوجی و تکنیکی تربیت کا آغاز بھی کرنےجارہے ہیں، جس سے ملزمان کو سزائیں دلانے اور مدعی کو انصاف فراہم کرنے میں مدد ملے گی، جب کہ پولیس کی ناقص تفتیش کو دُرست سمت میں لانے اور ملزمان کو سخت سزا ئیں دلوانےکے لیے قابل اور تجربہ کار 200 قانون کے ماہر پرائیوٹ وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان منصوبوں سے متعلق تمام سفارشات حکومت کوارسال کردی گئی ہیں۔‘‘ ’’آپ کی دوران ملازمت کوئی نا قا بل فراموش واقعہ؟
اس کے جواب انھوں نے کہا کہ یُوں تو بے شمارواقعات ہیں، اب یاد بھی نہیں رہے، پہلی مرتبہ جب ایس پی گھوٹکی تعینات ہوا تو ، ڈاکوشہریوں کو اغوا کر کے لے جاتے تھے ، ایک مرتبہ تو26بندوں کو اغوا کر کےلے گئے ، ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ مغویوں کو کچے کے راستے سےبرج کےنیچے سے لے جاتے تھے، ان کے خلا ف آپریشن کیا، جس کےلیے باقاعدہ آرمی کی بوٹ حاصل کیں،اس کے بعد ان کی کارروائیوں کو روکنے کے70کلومیٹر تک140پولیس چوکیاں تعمیر کرائیں‘‘۔ ’’ یہ بات آپ کےعلم ہےکہ کسٹم کے انفارمرکے اغوااور قتل میں ملوث گرفتارسابق ایس ایچ اوہارون کورائی کا نام ایس ایچ او کے حالیہ امتحان کی فہرست میں شامل کردیا گیا تھا؟
غلام نبی میمن بتایا کہ یہ آفس سپرنٹنڈنٹ کی غلطی سے ہوا تھا، جس کا فوری ایکشن لے کر اسے معطل کر دیاگیا ہے ‘‘۔ صحافی اطہرمتین کے قاتلوں کو قرار واقع سزا کب ملے گی ؟ انہوں نے بتایا کہ ہماری پوری کوشش ہےکہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، میں نے مقدمے کے تفتیشی افسران کو ہدایت کی ہے کہ کیس میں کوئی قانونی سقم نہ رہے، جب کہ مقتول کے اہل خانہ نے بھی قابل وکلاکی خدمات حاصل کی ہیں ، اللہ تعالی بہتر کرےگا۔‘‘