موبائل کے ذریعہ پُوری دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں بیٹھا شخص ایک دوسرے کی تصویر دیکھ کر گفتگو کرتا ہے، تو اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دونوں آمنے سامنے موجود ہیں۔ اس سلسلے میں یہ ٹیکنالوجی ویسے بھی بہت بڑی سہولت بن گئی ہے کہ پوری دنیا میں چاہے وہ سرکاری ادارے ہوں یا نجی، ماضی میں جہاں آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے بے شمار وسائل خرچ کیے جاتے تھے اور وہاں اب اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کانفرنس کال کرکے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں موجود شخص سے بات کرکے اپنا پیغام پہنچا دیا جاتا ہے۔
تاہم جہاں اس کے بے شمار فائدے دیکھے جا رہے ہیں، وہیں اس کے مضراثرات بھی سامنے آرہے ہیں اور وہ یہ کہ ہماری نوجوان نسل اس کی اس حد تک گرویدہ ہو گئی ہے کہ انہیں رشتوں کی پہچان بھی ختم ہوگئی ہے اور یُوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بچے اس انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے سے ہم سے چھین لیے گئے ہیں۔ نشے کی عادت کے سلسلے میں یہ کہا جاتا ہے کہ نشہ انسان کو تنہا کر دیتا ہے۔
تاہم اس وقت جو موبائل کا نشہ ہے، اس نے منشیات کے نشے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بھرے گھر میں بچہ ہے یا بچی ہو وہ اس موبائل کے ذریعے اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ایک بچہ جس کی عمر دو سال ہے یا ساٹھ سال کا بزرگ اپنے موبائل میں مگن دنیا سے بے خبر اپنا وقت پاس کررہا ہے، بہ ظاہر تو وہ آپ کے سامنے موجود ہے، لیکن پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اس موبائل کے ذریعے وہ یا تو لندن میں موجود ہے یا ہندوستان میں کیوں کہ اس کے پاس جو پروگرام بنا ہوا ہے یا جس پروگرام کو وہ دیکھ رہا ہے، وہ یا تو یورپ کا پروگرام ہے، یا انڈیا کا پروگرام ہے، یا کسی اور ملک کا پروگرام ہے جس میں وہ مگن ہیں اور وہ آپ کے سامنے ہوتے ہوئے بھی آپ کے پاس آپ کے درمیان موجود نہیں ہے۔
بات یہ ہے کہ موبائل فون نے معاشرے کی اقدار کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے، صورت حال یہ ہے کہ اس وقت اس موبائل فون کے ذریعے ہونے والے رابطوں سے نوجوان نسل بے راہ روی کی ایسی منزلوں کی جانب روانہ ہے، جس کا انجام سوائے تباہی کے اور کچھ نظر نہیں آرہا ہے، موبائل فون کے حصول کے لیے چوری کی وارداتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ موبائل فون کے حصول خاص طور پر اچھے موبائل فون حاصل کرنے کے لیے نوجوان نسل سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا سبب اچھے موبائل فون کا حصول بھی ہے اور اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری نوجوان نسل جو کہ موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے اپنی روزمرہ کی مصروفیات کو ترک کر چکی ہے اور کاہل کام چور ہو گئی ہے، اب اس کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنی پسند کے موبائل فون کو کسی سے چھین لے اور اس کام کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں پولیس کو بھی بے پناہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کو روکنے کے لیے اس وقت ہمارے پاس نہ اتنی زیادہ نفری موجود ہے اور نہ اتنے زیادہ وسائل۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال کے مد نظر ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے کہ شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں اور اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ آئی جی پولیس مشتاق احمد مہر کی جانب سے بھرپور تعاون کے بعد یہ ممکن ہوا ہے کہ ہم نواب شاہ شہر کو سیف سٹی بنانے کی سمت گامزن ہوئے ہیں۔
ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ شہر میں 200 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جارہے ہیں، تاکہ پورے شہر کو سیف سٹی بنایا جا سکے۔ اس کی وجہ سے نفری کی جو کمی کا مسئلہ درپیش ہے، وہ بھی حل ہوگا اور اس کے علاوہ یہ کہ پورے شہر میں امن و امان کی صورت حال کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا۔ ایس ایس پی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیوں کہ پولیس اہل کار وں کی بیماری اور اس کے علاوہ دیگر مصروفیات کے باعث ان کے چھٹی پر جانے کے باعث نفری کی کمی کے مسائل ہوتے تھے، چوں کہ سی سی ٹی وی کیمرہ نا تو بیمار ہو گا اور نہ ہی رخصت پہ جائے گا۔
اس لیے ان کا کہنا تھا کہ اس سہولت کے باعث پوری دنیا میں جہاں کرائم کی سطح میں کمی آئی ہے، امید ہے کہ اب نواب شاہ شہر میں امن و امان کی صورتِ حال جو کہ پہلے بھی کوئی خاص خراب نہیں ہے، اس میں مزید بہتری آئے گی، جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمرہ کے دیگر فوائد بھی شہریوں کو حاصل ہوں گے، جن میں ٹریفک کے مسائل سر فہرست ہے اور گھنٹوں ٹریفک جام رہنے کی وجہ سے شہریوں کو جو مشکلات درپیش تھیں ، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ان مشکلات پر بھی قابو پایا جا سکے گا اور شہر کے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی مانیٹرنگ روم سے ہی ہدایت جاری ہوگی اور فوری طور پر پولیس اہل کار جہاں پر ٹریفک جام ہوگا، وہاں وہاں پہنچ سکیں گے۔
ادھر موبائل فون کے فوائد کے ساتھ اس کے مضمرات یُوں بھی سامنے آرہے ہیں کہ موبائل فون حاصل کرنے کے لیے ہماری نسل اپنے گھر والوں کے لیے کس طرح کے مسائل پیدا کر رہی ہے، اس سلسلے میں گاؤں چاڑھی میں موبائل فون نہ دلانے پر میٹرک کے طالب علم نے خود کشی کر لی۔ پولیس کے مطابق میٹرک کے طالب علم سترہ سالہ عبدالحفیظ ڈائری نے گھر والوں سے موبائل فون دلانے کے لیے فرمائش کی اور نہ دلانے پر اپنے والد کے پستول سے خود پر فائر کرکے اپنی زندگی کا چراغ گل کر لیا۔ دوسری جانب موبائل فون کے ذریعے نوجوان نسل کے درمیان رابطوں کی بھی عجیب و غریب داستانیں سامنے آرہی ہے ۔
گزشتہ دنوں نواب شاہ پریس کلب میں ایک ایسا جوڑا آیا، جنہوں نے پسند کی شادی کی تھی اور اس سلسلے میں لڑکی نے یہ بیان دیا کہ اسے اپنے گھر والوں سے جان کا خطرہ ہے اور انہیں تحفظ دیا جائے، جب کہ اس سلسلے میں جب لڑکے سے بات کی گئی کہ کیا وہ آپس میں رشتے دار تھے یا ایک ہی گاؤں کے رہنے والے تھے، تو اس کا جواب نفی میں تھا، اس لڑکے نے بتایا کہ وہ قاضی احمد سے مورو اپنی کار میں جا رہا تھا کہ راستے میں یہ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ بس کے انتظار میں کھڑی تھیں اور انہیں دیکھ کر اس نے کار روکی اور ان کو لفٹ دی، جب اس سے پوچھا گیا کہ اس لڑکی سے اس سفر کے دوران جو کہ آدھے گھنٹے کا بھی نہیں تھا، کس طرح سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہوا، تو لڑکے کا کہنا تھا کہ اس نے باتوں باتوں میں لڑکی کو اپنا موبائل نمبر دیا اور اس کے جواب میں اس نے میسج کے ذریعے اپنا نمبر اس لڑکے کو دیا اور پھر مورو تک سفر کے دوران بات بن گئی اور پھر موبائل کے رابطے کورٹ میرج تک پہنچ گئے اور اس طرح سے ان دونوں نے پسند کی شادی کرلی۔
اس بارے میں ممتاز قانون دان خادم حسین سومرو ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت پسند کی شادی کا جو ریشو ہے، وہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موبائل فون رابطوں کے ذریعے ہونے والے پسند کے رشتوں سے اپنا بیاہ کرنا چاہتی ہے، لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پسند کی شادی کا انجام یہ ہے کہ اس وقت ایک مہینے میں کورٹ سے اسی لڑکیوں نے خلع لیا ہے اور یہ تعداد ہر مہینے بڑھتی جا رہی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پسند کی شادی کرنے والے لڑکا اور لڑکی پہلے عشق اور محبت کے اعلی دعؤوں کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک ہو جاتے ہیں اور پھر گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لیتے ہیں، لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور سب سے پہلے لڑکے کی طرف سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس سے پہلے کسی اور کو پسند تو نہیں کیا اور لڑکی کی جانب سے جب نفی کا جواب دیا جاتا ہے تو پھر بھی لڑکے کی تشفی نہیں ہوتی اور پھر بات بڑھتے بڑھتے یا تو لڑکی کی جانب سے خلع کی درخواست آجاتی ہے یا لڑکے کے جانب سے طلاق دی جاتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا سبب خوفناک انجام کاری کی وہ رسم ہے، جس کے ذریعہ لڑکا اور لڑکی دونوں یا ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ تاہم ہمارا معاشرہ جس تیزی کے اخلاقی قدرومنزلت چھوڑتا جارہا ہے۔