• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذیشان شوکت

خوبصورت گھر اور بہترین سواری ، معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے کی خواہش ہر نوجوان کو ہوتی ہے، ان کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کرتی ہے۔ جب وہ ملازمت کے لیے جاتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نوکری تلاش کرنا آسان نہیں، کیونکہ پاکستان کے کمزور معاشی حالات (اور بے شمار دیگر وجوہات) کی وجہ سے یہاں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔80 کی دہائی کے اختتام تک بھی ’’بی کام‘‘ کرنے اور ’’بی سی ایس‘‘ کرنے والوں کو فوری نوکری مل جاتی تھی، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج مارکیٹ میں ہزاروں، ماسٹر ڈگری یافتہ، ایم بی اے، ایم سی ایس کرنے والے بے روزگار ہیں، جس سے وہ پریشان ہیں۔ جن کو نوکری مل گئی وہ اس سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ 

 اکثریت کو ان کی تعلیم سے کم درجے کی نوکری ملتی ہے مثلاََ جنہوں نے کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے، وہ کمپیوٹر آپریٹر ہیں، جسے وہ اپنے کمزور معاشی حالات اور دیگر عوامل کی وجہ سے کرنے پر مجبور ہیں۔ کانٹریکٹ میں درج کام کے علاوہ بھی ان سے دیگر بہت سارے کام لیے جاتے ہیں جو صرف اس لیے کرنے پر مجبور ہیں کہ کہیں یہ نوکری بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ تنخواہ اتنی قلیل ہوتی ہے کہ گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔ 

اسی لیے بیش تر نوجوان بددل اور شدید فرسٹریشن کا شکار نظر آتےہیں۔۔ وہ نوکری کر بھی رہے ہوتے ہیں اور شکوے شکایت بھی۔ آ جب بھی حکومت بجٹ کا اعلان کرتی ہے، یا غیر اعلانیہ مہنگائی کرتی ہے، تو ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ تعلیمی قابلیت کے برعکس ملازمت اور قلیل آمدنی نے نوجوانوں کی وقت سے پہلے کمر توڑ دی ہے۔بعض ایسے نوجوان بھی ہیں جو سرکاری نوکری کے انتظار میں عمر کا ایک طویل حصہ ہاتھ پہ ہات دھرے گزار دیتے ہیں،جس سے نہ صرف معیشت بلکہ ان کی صحت اور اخلاقی حالت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نوجوانوں میں پناہ صلاحیتیں ہیں۔ لیکن جس وجہ سے اُن کی صلاحتیں ضائع ہورہی ہیں ان کا درست سمت کی جانب سفر نہ کرنا ہے۔ بعض نوجوان ملازمت کے حصول میں ناکامی کے باعث جرائم کی دلدل میں چلے جاتےہیں اور وہ ملک کی شان بننے کی بجائے نا سور بن جاتے ہیں ۔

وزیرِاعظم اسکل ڈیولپمنٹ اور پرائم منسٹر یوتھ بزنس لون جیسے پروگرام شروع تو ہوگئے ہیں، مگر ان کا کوئی خاطر خواہنتیجہ نظر نہیں آرہا ۔بے روزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت نے کامیاب جوان کی ذیلی یوتھ انٹرپرینیورشپ اسکیم متعارف کروائی ہے، جس کے تحت 5 سال میں چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لیے 100 ارب روپے کے قرضے دیے جانے ہیں۔ یہ اسکیم اکتوبر 2019ء میں شروع کی گئی تھی، تاہم گزشتہ سال جون میں جب بجٹ پیش کیا گیا تو اس اسکیم کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی، البتہ رواں سال 2 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں، جس میں کسان پروگرام کے تحت بھی رقم کا اجرا شامل ہے۔

حکومت کی جانب سے کاروبار کرنے کے لیے بلا سود قرض دینے کیا سکیموں کا اجرا ء بھی کیا گیا، جن میں کامیاب نوجوان پروگرام اور کامیاب پاکستان پروگرام جیسی اسکیمیں شامل ہیں، تاہم اکثر افراد اس بارے میں شکایت کرتے ملتے ہیں کہ اس قرض کے حصول کے لیے درخواست دینے کے باوجود یہ قرض انھیں نہیں ملا۔ ایسے میں نوجوان کیا کریں؟ ہے کسی کے پاس اس کا حل۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی