اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) عدم اعتماد کی تحریک پر ایوان میں کارروائی شروع ہونے سے پہلے اسپیکر اسد قیصر کے متوقع بلکہ یقینی کردار کے پیش نظر ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کراکر اپوزیشن اپنی دانست میں سرپرائز دینے کی خوشی میں نجانے یہ کیوں نظرانداز کر بیٹھی کہ حکومتی جماعت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے پاس بھی وہی اختیارات ہیں جو سپیکر کے ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے قانونی ماہرین اور پارلیمانی امور پر دسترس رکھنے والی تجربہ کار آئینی شخصیات نے بھی اس پہلو کو نظرانداز کیسے کیا کہ جو کردار اپنی قیادت کے حکم پر اسد قیصر ادا کر سکتے ہیں وہ قاسم سوری کیوں نہیں کریں گے، تحریک عدم اعتماد کو مسترد کئے جانے کی رولنگ کے اختتام پر سپیکر اسد قیصر کا نام درج تھا اور ڈپٹی سپیکر نے رولنگ کے اختتام پر انکا نام بھی پڑھا، گوکہ اپوزیشن کی جانب سے یہ استدلال کافی حد تک درست ہے کہ حکومت کی جانب سے اس انتہائی اقدام جیسی غیر آئینی اور غیر قانونی رولنگ کی ہرگز تو قع نہیں تھی کیونکہ حکومت نے بار بار کہا تھا کہ تحریک پر ووٹنگ ہوگی اور ایوان کے کسٹوڈین بھی یہی یقین دہانی کرا رہے تھے لیکن اپوزیشن میں تجربہ کار شخصیات کو یہ بھی تو سوچنا چاہئے تھا کہ اگر وزیراعظم ارکان کی عددی تعداد میں اپوزیشن کی واضح برتری اور اپنے منحرف اراکین کی بڑی تعداد میں بے وفائی کے باوجود تسلسل کیساتھ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ ’’ آخری بال تک لڑیں گے‘‘ تو اس کا مقصد کیا تھا، وہ اتنے پراعتماد کیوں تھے اور اپنے ساتھیوں کو حوصلہ اور یقین دہانیاں کیوں کرا رہے تھے شاید اسی لئے سابق وزیراعظم بڑے فخریہ اور طنزیہ انداز میں کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ان کیساتھ ہوا کیا ہے، اس صورتحال پر اپوزیشن کے ایک رکن اسمبلی کا کہنا تھا ہمیں خدشہ تھا کہ سپیکر معاملے کو طول دینے کیلئے کوئی جواز بنا کر اجلاس ختم نہ کردیں یہی وجہ تھی کہ ہمیں سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ ایوان میں حکومتی بنچوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کے باوجود کسی جوابی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرنا لیکن ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ڈپٹی سپیکر عدم اعتماد کی تحریک ہی کو غیر آئینی قرار دیکر خود اتنی بڑی آئین شکنی کرینگے، قومی اسمبلی رخصت کرنے کے بعد عمران خان خود بھی وزارت عظمیٰ کے منصب سے رخصت ہوگئے ہیں۔