پروفیسر اعجاز احمد فاروقی
سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ
پاکستان میں ایک اور ڈومسیٹک سیزن ختم ہوا بظاہر اس نئے نظام کے ثمرات نظر نہیں آئے ،تین سال پہلے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے بند ہونے سے سینکڑوں کھلاڑیوں کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں ،کرکٹرز ملازمتوں سے محروم ہونے کے بعد اب محنت مزدوری کرکے اپنا گذر بسر کررہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے چھ ایسو سی ایشن کا نظام لانے کے بعد ایک سال کے لئے عبوری عہدیداران کا اعلان کیا لیکن پی سی بی کی نامزد کردہ ٹیم ایک سال میں کلبوں کی رجسٹریشن اور اسکروٹنی مکمل نہ کرسکی۔
اب پی سی بی نے اسکروٹنی کے لئے کسی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایسوسی ایشن کے ذمے داروں کو مزید چھ ماہ کی توسیع مل گئی ہے۔ایسو سی ایشن کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا سسٹم جلد بازی میں لایا گیا اور اس سسٹم میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آرہی جس سے یہ کہا جائے کہ یہ نظام آسٹریلوی طرز پر ہے اور اس سے انقلاب برپا ہوجائے گا۔پی سی بی چیئرمین رمیز راجا کرکٹر ہیں انہیں علم ہے کہ کرکٹ کو کس طرح چلانا ہے۔ لیکن گذشتہ تین سالوں سے کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی بلکہ پیچیدگیاں زیادہ ہوگئی ہیں۔
کپتان یاسر شاہ کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت بلوچستان نے خیبرپختونخوا کو 8 وکٹوں سے ہراکر پاکستان کپ کا ٹائٹل جیت لیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر کی تشکیل کے بعد بلوچستان نے کسی ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کا ٹائٹل جیتا ہو۔ چیمپئن ٹیم نے 172 رنز کا آسان ہدف 32 اوور کی دوسری گیند پر محض 2 وکٹوں پر حاصل کرلیا۔10 اوورز میں 33 رنز کے عوض 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھانے پر یاسر شاہ کو پلیئر آف دی فائنل قرار دیا گیا۔ یاسر شاہ کو آسٹریلیا کی سیریز میں یہ کہہ کر نہیں کھلایا گیا تھا کہ وہ ان فٹ ہیں لیکن پاکستان کپ میں انہوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کردکھایا کہ وہ ان فٹ نہیں ہیں۔
فائنل میں یاسر شاہ نے 10 اوورز پر مشتمل اپنے کوٹے میں محض 33 رنز کے عوض چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اس دوران انہوں نے 2 میڈن اوورز بھی پھینکے۔ انہوں نے کامران غلام، محمد سرور آفریدی، عادل امین اور محمد عمران سینئر کو پویلین کی راہ دکھائی۔ لوچستان کے کپتان یاسر شاہ 24 وکٹیں حاصل کرکے ٹورنامنٹ کے بہترین بولر قرار پائے۔آسٹریلیا کے خلاف سیریز خاص طور پر ون ڈے سیریز میں پاکستانی اسپنرز بری طرح ناکام رہے۔
پہلے ون ڈے میں پاکستان کے تینوں اسپنرز زاہد محمود، افتخار احمد اور خوشدل شاہ نے مجموعی طور پر 26 اوورز میں 145 رنز دیے اور چار وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ساتھ ساتھ وہ فی اوور صرف پانچ اعشاریہ پانچ رنز دینے کے ذمہ دار بھی تھے۔ آسٹریلیا نے آخری دس اوورز میں 81 رنز بنائے جس کی بڑی وجہ کیمرون گرین کے ناقابل شکست 40 رنز تھے۔
لاہور کے دوسرے ون ڈے انٹر نیشنل میں پاکستان چار بولروں شاہین،حارث ،وسیم اور زاہدکے ساتھ میچ میں اترا جبکہ پانچویں بولر کے دس اوورز کرانے والے افتخار احمد اور خوش دل شاہ نے مجموعی طور پر دس اوورز میں95رنز دیئے۔اسپنرز کے بیس اوورز میں166رنز بنے۔ یاسر شاہ کو اگر کسی اور وجہ سے آسٹریلیا کے خلاف نہیں کھلایا گیا تو پی سی بی کو بتانا چاہیے تھا کیوں کہ ٹیسٹ سیریز میں اسپنرز کی کارکردگی واجبی سی تھی۔نعمان علی نے سب سے زیادہ ,9وکٹ حاصل کئے۔نعمان علی نے سیریز میں بہترین بولنگ کرتے ہوئےچھ وکٹ107رنز دے کر حاصل کئے۔
ساجد خان نے تین ٹیسٹ میں چارکھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔بحرحال پاکستان میں24سال بعد آسٹریلیا کا آنا اور سیریز کھیلنا پاکستان کرکٹ بورڈ کی بڑی کامیابی ہے۔ جون میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پنڈی میں تین ون ڈے انٹر نیشنل میچ کھیلے گی۔ گرم موسم میں اگر تینوں میچ کراچی میں کرادیئے جاتے تو بہتر تھا کیوں کہ کراچی میں شام کے وقت موسم نسبتا بہتر ہوتا ہے۔
اس سال انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کو بھی پاکستان آنا ہے اس لئے جلدی پچوں کی حالت بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔آسٹریلوی پچ کنسلٹنٹ پاکستان آنے والے ہیں امید ہے کہ وہ پاکستان آکر مردہ پچوں میں جان ڈالنے کے لئے پاکستانی کیوریٹرز کو وہ گر بتائیں گے جو ان کے علم میں نہیں ہیں۔ پچوں کی حالت درست کئے بغیر کرکٹ میں بہتری نہیں لائی جاسکتی۔