روس اور یوکرین جنگ کے اَثرات نمایاں ہونے شروع ہو چکے ہیں چونکہ روس پر امریکا اور یورپی ممالک نے سخت اقتصادی سیاسی اور سماجی پابندیاں عائد کر دی ہیں ایسے میں روسی صدر نے ان کا کسی حد تک توڑ کرنے کے لئے کریملین سے ایک نیا حکم نامہ جاری کر دیا ہے کہ جو بھی ملک روس سے گیس یا تیل خرید کر ے گا اس کی ادائیگی روبل میں کی جائے گی۔ ڈالر قبول نہیں ہوں گے۔ اس حکم نامہ کو گزشتہ اختتام ہفتہ لاگو کردیا گیا ہے۔ اس اچانک اعلان سے پوری دُنیا میں خاص طور پر یورپی یونین میں زیادہ ہلچل مچی ہوئی ہے۔
یورپی یونین جس میں دو درجن سے زائد ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کو مجموعی گیس کی ضرورت کا چالیس فیصد حصہ روس پورا کرتا رہا ہے۔ روس پر پابندیوں کی فہرست میں جزوی پابندی گیس پر لگائی ہوئی ہےتا کہ روس کی طرف سے قدرتی گیس کی فراہمی جاری رہ سکے۔ روس تاحال بیش تر یورپی ممالک کو قدرتی گیس فراہم کررہا ہے۔
ایک حقیقت تو یہ ہے کہ قدرتی گیس کے سب سے بڑے ذخائر روس میں ہیں۔ دُوسرے لفظوں میں قدرتی گیس رکھنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ روس میں تیل بھی وافر مقدار میں موجود ہے اس میں دُنیا میں روس کا چھٹا نمبر شمار ہوتا ہے۔ مگر قدرتی گیس میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ دُوسری حقیقت یہ ہے کہ روس اور یورپی ممالک ایک ہی برّاعظم کے حصے ہیں۔ روس کے جو تین بڑے تیل اور گیس فراہم کرنے کے مراکز ہیں وہاں سے جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، فرانس اور دیگر ممالک کو براہ راست پائپ لائنوں سے قدرتی گیس فراہم کی جاتی ہے جبکہ جرمنی، فرانس اور ہالینڈ تیل بھی خریدتے ہیں اس کی بھی براہ راست لائنیں متعلقہ ممالک سے ملتی ہیں۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک میں روسی گیس اور تیل کی خریداری کرنے والی کمپنیوں کے مالک بڑے اجارہ دار سرمایہ دار ہیں جو یہودی ہیں۔ ایسے میں صاف ظاہر ہے کہ پابندیوں کے باوجود روس سے گیس خرید رہے ہیں۔ روس گیس اور تیل فراہم کررہا ہے۔
گزشتہ دنوں جرمنی اورروس کے درمیان قدرتی گیس اور تیل کی پائپ لائنز بچھائی گئیں مگر اس کے افتتاح کے موقع پر یوکرین اورروس کے مابین جنگ شروع ہوگئی ایسے میں جرمنی نے ان پائپ لائنز کا افتتاح نہیں کیا انہیں کیپ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یورپ میں آباد بڑے یہودی سرمایہ دار گروپس روس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن ہرچند کہ دُنیا کے امیر ترین صدر ہیں مگر ماہر معاشیات یا آج کی معاشی جدلیات پر عبور نہیں رکھتے ہیں یہ فارمولے اور معاشیات کے دائو پیچ انہیں فراہم ہوتے ہیں۔ دلچسپ نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ روس اور بھارت کے تعلقات پرانے اورگہرے ہیں۔ بلاشبہ روس نے ہر کڑے موقع پر بھارت کی مدد کی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت بھی روس کو وہی اہمیت دیتی ہے جو گزشتہ برسوں میں کانگریس پارٹی دیتی ہے۔ اب روس کے ساتھ بھارت نے تیل خریدنے کا کئی ٹریلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ جس پر امریکا اور یورپی ممالک شدید ناراض ہیں۔
اس ضمن میں بھارت کے وزیر پیٹرولیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس نے تیل کی خریداری کے سودے میں بھارت کو پچیس ڈالر فی بیرل کا ڈسکائوٹ دیا ہے جو بھارت کے لئے بہت بڑا فائدہ ہے تو ہم اس کو کس طرح نظرانداز کر سکتے ہیں۔ یہ قومی مفاد کا فیصلہ ہے۔ کمیشن کک بیک یا انڈر ٹیبل کا معاملہ نہیں ہے۔
اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت نے روس سے طے کردہ معاہدہ اور تیل کی مقدار کو بھی پوشیدہ رکھا ہے اور ایک مقدار واضح کی ہے جس کی خریداری کی بات کی ہے۔ دُوسری جانب روس نے بھارت کویہ کہا ہے کہ وہ ڈالر یا روبل میں ادائیگی کے بجائے بھارتی روپیہ میں ادائیگی کرے۔ تاہم روس نے بھارت کو یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ ادائیگی کا ایک حصہ روبل میں بھی ادا کرے مگر بڑی رقم وہ روپے میں وصول کر رہا ہے۔
روس نے بھارت کویہ خصوصی رعایت اپنے دیرینہ تعلقات سمیت اس لئے دی ہے کہ وہ بھارتی کرنسی کو بھارت سے دیگر ضروری سامان خریدنے کے لئے استعمال کرے گا۔ اس سے روس کو بھی فائدہ اور بھارت کو بھی فائدہ ہے کہ اس کا سامان فروخت ہوگا اور رقم واپس بھی مل جائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے وزیراعظم نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ بھارت نے دُرست خطوط پر خارجہ پالیسی استوار کی ہے۔ درحقیقت روس کو نیٹو ممالک سے خطرہ ہے۔ یہ سب روس کے قریب واقع ہیں جن میں برطانیہ اور فرانس نہ صرف بڑی طاقت بلکہ ان کے پاس بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں۔
روس کو انقلاب روس 1917ء سے معاشی ناہمواری کا مسئلہ رہا ہے۔ روس کی معیشت اشتراکی انداز پر استوار رہی جبکہ اس کا دفاعی بجٹ سمیت تعلیم، صحت عامہ اور دیگر عوامی امور پر اخراجات الگ رہے اس لئے ہر سال دس سے پندرہ فیصد خسارے کا بجٹ بنتا رہا۔ 2021ء کے اعداد و شمار کے حوالے سے روس کا سالانہ بجٹ 470ارب ڈالر تھا جبکہ آمدنی کم اخراجات زیادہ، اس طرح تقریباً 20 فیصد بجٹ خسارہ ظاہر کر رہا ہے۔ روس یومیہ تیل اور گیس کی فروخت سے بتایا جاتا ہے پانچ سو ملین ڈالر کماتا ہے۔ روسی بجٹ میں ہتھیاروں کی فروخت، تیل اورگیس کی فروخت اس کے بعد اناج، ادویات اور مشینری وغیرہ کی آمدنی سے بجٹ سازی کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے روس کے نزدیک قدرتی گیس کی فراہمی اور اس کی آمدنی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اب جبکہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نےڈالر کو رَدّ کر کے رقم کی ادائیگی روبل میں کر دی ہے تو اس کے دُور رَس اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ اختتام ہفتہ جب روسی صدر نے کریملین سے حکم نامہ جاری کر دیا، فوری طور پر اوپن مارکیٹ میں روبل کی قیمت میں قدرے اضافہ ہوگیا ہے۔ روس پر طرح طرح کی اقتصادی پابندیاں عائد ہیں اس لئے اتنے بڑے فیصلے کے بڑے اثرات زیادہ نمایاں نہیں ہوں گے مگر یورپی ممالک جو پابندیوں کے باوجود روس سے تیل گیس خرید رہے ہیں وہ روبل ضرور خریدیں گے۔ اس حوالے سے امریکا پہلے ہی نیٹو ممالک کو وارننگ دے چکا ہے کہ روسی قدرتی گیس یا تیل پر انحصار کم سے کم کرتے جائو۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب پر زوردیا ہے کہ وہ یورپی یونین کو قدرتی گیس اور تیل کی فراہمی میں اضافہ کر کے ان ممالک کا روس سے جاری سلسلہ بند کرائیں۔
اس ضمن میں قطر کے پیٹرولیم کے وزیر سعد ثرید نے کہا کہ قطر نے شمالی گیس لائن پر کام کا آغاز کر دیا ہے جو یورپی یونین تک جائے گی۔ اس پورے پروجیکٹ کی تکمیل چار سال میں ہوگی۔ اور اس پر 28 ارب ڈالر لاگت آ رہی ہے۔ قطر کے وزیر پیٹرولیم کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کےبعض ممالک بھی براہ راست ہم سے رابطے میں ہیں اس کے علاوہ یورپی یونین کی بعض ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی قطر سے قدرتی یس کی فراہمی کے طویل المدت معاہدے طے کرنے میں پوری دلچسپی لے رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں قطر قدرتی گیس اور تیل کی فراہمی کا بڑا مرکز بن جائے گا اور صارفین کو اس سے رابطے کرنے ہوں گے۔ علاوہ اس کے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مابین تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنے یا نہ کرنے پر کچھ کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ سعودی عرب تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں دُوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات آٹھویں نمبر پر شمار ہوتا ہے۔
یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر پیوٹن نے جو بار بار اصطلاح استعمال کی جن ممالک سے دوستانہ مراسم نہیں ہیں انہیں روبل میں ادائیگی کرنا ہوگی۔ ایسے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ روس سے زیادہ تر بلکہ قطعی اکثریت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ یوکرین کے مسئلے پر روس کے محض چند حامی ہوں گے۔ کچھ غیرجانبداری ظاہر کرتے ہیں باقی کوئی بھی روس کی حمایت نہیں کر رہا ہے۔
بعض ماہرین معاشیات کی رائے یہ ہے کہ اگر ہر ملک جو تجارت کرتا ہے وہ اپنی اپنی کرنسی پر زور دے گا تو عالمی معیشت ٹھپ ہو کر رہ جائے گی اور عین ممکن ہے کہ دُنیا ایک بار پھر 1929ء کی عالمی مندی کا شکار نہ ہو جائے کیونکہ آج کی دُنیا کا ایک دوسرے پر انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔ دُنیا میں آمد و رفت کے ذرائع اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ٹوکیو سے قاہرہ تک سفر کرنے والا تین وقت کا نہ سہی دو وقت کا کھانا فضا میں کھاتا ہے۔ ایک مغربی ملک میں کوئی وائرس پھیل جائے تو اس کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ تک پہنچتے محض چند گھنٹے لگتے ہیں۔ اس طرح دُنیا واقعی ایک طرح گلوبل ولیج بن چکی ہے۔
اس چھوٹی سی دُنیا میں اَزخود بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے جس قدرتی ماحول موسمی تغیرات آبادی میں بے ہنگم اضافہ گھمبیر مسائل ہیں۔ ایسے میں روس کا یوکرین پر حملے کو کسی بھی دلیل سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا پھر وہ بھی دُنیا کی ایک بہت بڑی طاقت یوکرین کے ساتھ تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کر سکتا تھا۔ اگر اب اس مسئلے کوباریک بینی اور منطقی طور پر دیکھا جائے تو معاملہ زیادہ سنگین دکھائی دیتا ہے۔ ایک خبر میں بتایا جا رہا ہے کہ یوکرین کے سرحدی علاقوں سے روسی فوجی پیچھے ہٹ رہے ہیں وہاں بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں۔
یہ اور بھی خطرناک عمل ہے۔ اس میں علاقے کے بوڑھے بچے خواتین سب ہی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یوکرین کے حملے کے بعد یورپی ممالک میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ یہ روس سے خوف، ناپسندیدگی کی لہر بھی ہے یورپی ممالک میں نئے اتحاد کی لہر بھی اور خطے کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی بھی لہر ہے۔ سب نے دیکھا امریکی صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں پولینڈ کا دورہ کیا وہاں وہ یوکرین کے سرحدی علاقوں تک گئے اور یہی بات کی کہ نیٹو اپنا دفاع مزید مستحکم بنائے۔
آپس میں اتحاد مضبوط کرے اور روسی گیس اور تیل پر انحصار کم سے کم کر کے ختم کرے مزید کہا کہ امریکا یورپی یونین کی انرجی کی ضروریات پوری کرنے کی کوششیں کرے گا۔ دُنیا میں گیارہ ممالک 72 فیصد سے زائد قدرتی گیس کے ذخائر رکھتے ہیں۔ ان میں نمایاں روس، ایران، قطر، امریکہ، سعودی عرب اور ترکمانستان ہیں جبکہ قدرتی گیس کی فراہمی یا فروخت میں شامل ممالک میں سرفہرست امریکا ہے جبکہ دُوسرا روس، تیسرا ایران، چوتھا کینیڈا، پانچواں الجیریا اور ناروے قطر شامل ہیں۔
امریکا نے ماضی قریب میں اپنے تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کو محفوظ رکھا تھا امریکی پالیسی تھی کہ کھلی منڈی سے تیل اور قدرتی گیس خریدو گھریلو ذخائر محفوظ رکھو۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے امریکا میں تیل اور قدرتی گیس کی دریافت اور فروخت کا سلسلہ شروع کیا امریکا کی ضروریات دُنیا کے ہر ملک سے زائد ہے۔ ہرچند کہ تیل اور قدرتی کوئلہ کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی عالمی مہم کی وجہ سے تیل کا متبادل تلاش کیا جا رہا ہے اور بیشتر کاریں، ریل روڈ وغیرہ بجلی کا استعمال کر رہی ہیں۔
ماہرین ماحولیات کا اصرار بھی یہی ہے اور دُنیا کی سلامتی بھی اس میں ہے کہ دُنیا تیل اور قدرتی گیس کوئلہ پر انحصار کم سے کم کر لے۔ ایسے میں روسی صدر پیوٹن کو یورپی ممالک سے مذاکرات کر کے معامات کو سلجھانے کی کوششیں کریں۔ بصورت دیگر معاملات اُلجھتے رہے تو نقصان سب کا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔