• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کے اثرات فوری طور پر آزاد کشمیر میں پڑتے ہیں ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت کےلیے خاصی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جب بھی آزاد کشمیر جبری حکومت بنائی پاکستان میں مدر پارٹی کے جاتے ہی آزاد کشمیر میں تبدیلی کے بادل منڈلانا شروع ہوجاتے ہیں آزاد کشمیر میں تحریک انصاف شروع دن سے تین گروپوں تقسیم ہے ایک گروپ سابق وزیر امور کشمیر علی آمین گنڈاپور کا تھا جس نے عمران خان کے کہنے پر تحریک انصاف کے ایک عام رکن اسمبلی سردار قیوم نیازی کو آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بنایا تھا سردار قیوم نیازی آزادکشمیر کے دور افتادہ علاقہ بانڈی عباس پور کے علاوقہ سے ہے مقامی سطح پر سیاست کرتے تھے۔ 

پہلی مرتبہ 2006میں مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اسکے بعد 2011اور 2016 کا الیکشن نہیں جیت سکے 2021میں دوسری مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے جب عام انتخاب میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی عام خیال تھا کہ آزاکشمیر میں بھی تحریک انصاف کے پنجاب کےطرزپر آزاد کشمیر میں بھی عثمان بزدار کی طرح کا ممبر اسمبلی وزیر اعظم ہوگا وہی ہوا جس کا لوگ قیاس کررہے تھے پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا وزرات اعظمی کےلیے ٹیسٹ انٹرویو کیے گے جس پر وزیر اعظم محفل مجلس میں کلیم کرتے تھے میں ٹیسٹ انٹرویو پاس کرکے وزیراعظم بنا ہوں تمام تر حساب کتاب کے بعد سردار قیوم نیازی کا نام فائنل ہوا ممبران اسمبلی نے جبراً تسلیم کرنا پڑا۔ 

اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا وقتی طور پر تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نے خاموشی اختیار کرلی لیکن ممبران اسمبلی گروپوں میں تقسیم ہوگی اور دل سے عمران خان کا فیصلہ قبول نہیں کیا چند ہفتے قبل جب پاکستان میں عمران خان کے خلاف جانہی تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی اس کے بعد سنیر وزیر سردار تنویر الیاس نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کی تبدیلی کےلیے ان ہاوس لابنگ شروع کردی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی اب تحریک انصاف کا مضبوط گروپ جس میں 15سے زیادہ اراکین اسمبلی ہیں صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جس نے پارٹی صدر کی حیثیت سے 2021 الیکشن میں کامیابی حاصل کی وزرات اعظمی کے مضبوط امیدوار تھے انہیں وزہراعظم نہ بنانے پر سخت رنجیدہ ہوئےاور یہ توقع ہی نہیں کر سکتے تھے کہ انکے ساتھ ایسا ہو گا شروع دن سے وقت کے انتظار میں گن گن کر دن گزار رہے تھے وہ وقت ان پہنچا ہے۔ 

پاکستان کی حالیہ صورت حال ہر ان کی جانب سے کوئی ایک بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی مہم میں شریک ہوئے دوسری جانب وزیر اعظم سردار قیوم نیازی نے چوہدری برادران سے جاکر ملاقات کی عمران خان کی حمایت کےلیے کوشش کی اور چوہدری برادران کو منانے کا دعوی بھی کیا مسلسل بیانات دیے رہے ہیں وہ سمجھتے تھے کہ عمران کے جانے کے بعد انکی کوئی گنجائش نہیں بنتی تحریک انصاف کا تیسرا گروپ سینئر وزیر سردار تنویر الیاس کا ہے وہ بھی اپنا مستقبل محفوظ کرنے کےلیے متحرک ہوگیا ہے دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں اس انتظار میں ہیں کہ جونہی پاکستان میں تبدیلی آئے آزاد کشمیر میں ڈھڑم تختہ کیا جائے تحریک انصاف آزاد کشمیر میں پہلے دن سے تین حصوں میں تقسیم ہے ایک مضبوط دھڑا صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا ہے ان کی اور اپوزیشن کے درمیان رابطے موجود ہیں۔ 

مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر اور پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری یاسین کے درمیان انڈرسٹینڈنگ موجود ہے گزشتہ کئی دنوں سے انکی اہم ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں بیرسٹر سلطان کو جب آزاد کشمیر کا وزیر اعظم نہ بنایا ایسی دن سے انکے بارے میں کہا جاراہے کہ وہ تحریک انصاف میں کسی صورت نہیں رہیں گے انکے گروپ کے اراکین اسمبلی کئی مرتبہ وزیراعظم پر جلسوں میں وزیراعظم کی موجودگی میں تنقید کرچکے اپوزیشن کے 19اراکین ہے پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس اکثریت ایسے ممبران اسمبلی کی ہے جو ہر پانچ سالوں کے بعد پارٹی تبدیل کرتے ہیں پاکستان میں اگر سیاسی تبدیلی ہوتی ہے آزاد کشمیر میں بھی تبدیلی یقینی ہوجائے گی پاکستان اور آزاد کشمیر میں پارٹیاں تبدیلی کے حوالے سے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ جمہوری نظام کو غیر مستحکم ہونے سے بچایا جاسکے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے زریعے ختم کرنے کیلئے پہلے سے عدم اعتماد کی تحریک پر مطلوبہ اراکین اسمبلی نے دستخط کر رکھے ہیں جو مناسب وقت پر پیش کے سکتے ہیں آزاد کشمیر میں تین ماہ قبل کشمیر کونسل کے انتخاب میں پیپلز پارٹی ان لیگ کے ددرمیان طے پایا تھا کہ کونسل کا ووٹ ن لیگ کو متفقہ طور پر دیا گیا کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد میں وزیراعظم پیپلز پارٹی کا ہو گا پیپلز پارٹی کے کے بارہ ممبران اسمبلی ہیں ن لیگ کے سات اس لیے کونسل میں سات ووٹوں والی ن لیگ کے امیدوار کو بارہ ووٹ پیپلز پارٹی کے پڑنے سے ممبر کشمیر کونسل منتخب ہوا حکومتی اتحادی دو جماعتیں بھی حکومت سے خوش نہیں ہیں اعتماد کیلئے مطلوبہ اکثریت آسانی سے پوری ہوجائے گی۔ 

آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت شدید خطرے میں ہے کسی بھی وقت عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو سکتی ہے صدر ریاست اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے سپیکر اسمبلی بھی اپنے عہدے پر برقرار رہے سکتا ہے اگر سپیکر اسمبلی کے ساتھ معاملات طے نہ پاسکے تو پھر ن لیگ کے شاہ غلام قادر سپیکر اسمبلی ہونگے وزرات اعظمی کیلئے پیپلز پارٹی میں چوہدری لطیف اکبر چوہدری یاسین اور سردار یعقوب خان تین امیدوار ہونگے جبکہ سینئر وزارت اور دیگر اہم عہدے ن لیگ کے کھاتے میں آئیں گے ن لیگ کے 6 ممبران اسمبلی کی ایڈجسمنٹ کرنی ہوگی سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کیلئے کوئی عہدہ انکی حیثیت کے مطابق شاہد نہ مل سکے آئندہ چند روز آزاد حکومت کے حوالے سے بہت اہم ہیں پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آزاد کشمیر میں سیاسی ماحول گرم ہو جائے گا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید