• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آئینی بحران کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

وزیر اعظم عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے غبارے سے ہوا نکال کر اگلے انتخابات کی تیاری شروع کر چکے ہیں، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے اور وزیراعظم کے ایڈوائس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اعلان پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس نوٹس لے کر اتوار کے روز عدالت تو لگا لی مگر اپوزیشن کو کوئی فوری ریلیف نہیں مل سکا نہ تو ان کی حکم امتناعی کی درخواست منظور ہوئی اور نہ ہی فل بنچ کی درخواست منظور کی گئی۔

عدالت عظمی فیصلہ سب کو سن کر دینے کا عندیہ دے چکی ہے، سب کو سننے میں کتنا وقت صرف ہو گا اس بارے صرف اندازے لگائے جا سکتے ہیں یقینی کچھ کہنا ممکن نہیں ،7 مارچ کو اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا علم بلند کیا تھا ،27 مارچ کو وزیر اعظم نے پی ٹی آئی کے جلسے میں دھمکی آمیز خط کا ذکر کیا اور عدالت کے منع کرنے کے باوجود میڈیا کے سامنے نادانستگی میں امریکہ کا نام ہے لیا اور اپوزیشن کو للکارا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی تمھاری اقتدار کی خواہش دھری کی دھری رہ جائے گی اور پھر 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر نے وفاقی وزیر قانون فواد چوہدری کی نشاندھی پر تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے تحریک مسترد کر کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا جس کے بعد عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تین ماہ میں انتخابات کرانے کا اعلان کردیا ۔ایک طرف معاملہ عدالت میں ہے جبکہ دوسری طرف صدر مملکت نگران وزیراعظم کی تقرری کا عمل شروع کر چکے ہیں۔ 

اپوزیشن لیڈر نے صدر مملکت سے عدم تعاون کا اعلان کر دیا ہے جبکہ وزیر اعظم ریٹائرڈ چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد کا نام دے چکے ہیں ،6 مارچ تک اپوزیشن لیڈر کی طرف سے نامزد نہ ہونے کی صورت میں جسٹس (ر) گلزار احمد کی تقرری ہو جائے گی، اپوزیش ابھی عدالت عظمیٰ پر ہی تکیہ کئے بیٹھی ہے جبکہ عمران خان حیران کن انداز میں کھیلتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے کراچی اور وفاقی دارالحکومت میں عوامی اجتماع ہو رہے ہیں پارلیمانی بورڈ کا اجلاس اور امیدواروں کے انٹرویو منظم سیاسی صف بندی کی نشاندھی کرتے ہیں، سلیکٹیڈ کہنے والوں کو تسلیم کرنا ہو گا کہ عمران خان ایک حقیقت ہے جس نے حیران کن سیاسی داؤ پیچ استعمال کرکے ثابت کردیا ہے کہ انتخابات میں ٹف ٹائم دے گا۔

اگرچہ مہنگائی کے ڈسے ہوئے عوام سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں عمران خان کو مسترد کر دیں گے مگر کے پی کے میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اپوزیشن کی توقعات کے برعکس ہیں، عمران خان نے جس دیدہ دلیری سے تحریک عدم اعتماد سے بچا ہے اس کے نتیجے میں سارا دباؤ عسکری قیادت پر آگیا ہے ،متحدہ اپوزیشن نے مطالبہ کردیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے عسکری ارکان عمران خان کے بیان کی وضاحت اور اپنی ، پوزیشن واضح کریں۔

آئی ایس پی آر اس سے قبل کئی بار اپنے غیر جانبدار ہونے کا کہہ چکا ہے مگر اب مزید وضاحت ضروری سمجھیں جا رہی ہے،مولانا فضل الرحمن ، آصف علی ذرداری بلاول بھٹو اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ اداروں کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی وفادار قیادت کو غداری کے الزام میں دھکیلنے کے کیا نتائج ہوں گے، کیا سلامتی کمیٹی نے 197 اپوزیشن ارکان کو بیرونی سازش کا حصہ قرار دیا تھا عمران خان اور آس کے حواریوں نے آئین کی واضح خلاف ورزی اور آئین شکنی کی، اپوزیشن جماعتوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ جمہوریت کی طاقت فوج نہیں، جمہوریت کی طاقت عدالت نہیں اور جمہوریت کی طاقت صحافی بھی نہیں ،جمہوریت کی طاقت صرف اور صرف عوام ہیں۔ اپوزیشن کو عدالتی فیصلے کے انتظار میں خاموشی سے دن گننے کی بجائے دستور کے حق میں ملک گیر مظاہرے کرنے چاہیے، عوام ہی آئین اور ووٹ کو عزت دے سکتے ہیں۔ 

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی 9 جماعتوں نے متحد ہو کر تحریک عدم اعتماد پیش کی اب الیکشن، مہم شروع ہو چکی ہے جلد یا تاخیر سے الیکشن ہوں گے اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گی تو یقیناً بھکر جائیں گی ،بکھری ہوئی اپوزیشن پی ٹی آئی کو اقتدار سے دور نہیں دھکیل سکتی، اپوزیشن عمران خان کو سویلین ڈکٹیٹر قرار دے چکی ہے اور مارشلائی نظام سے بچنے کے لیے انہیں اکٹھے ہی آگے بڑھنا پڑے گا، آٹھارویں ترمیم کی روشنی میں کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کے اسمبلی تحلیل کرنے کے باوجود صو بائی اسمبلیوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔

صوبوں میں انتخابات کے لئے مل بیٹھنے کی ضرورت ہو گی مگر عمران خان پونے چار برس اپوزیشن کو نظر انداز کر کے حکومت چلانے کی کوشش کرتا رہا ہے، صوبوں میں انتخابات کے لئے صوبائی حکومتیں راضی ہو ں گی تو بات آگے بڑھ گی، شاید یہ فرض بھی سپریم کورٹ کو ادا کرنا پڑے کہ وہ اپوزیشن کو سابقہ حکومت سے مل بیٹھ کر متنازعہ معاملات طے کرنے پر مجبور کر دے، آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ عدالت عظمی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کر دے تو معاملہ ختم ہو جائے گا جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چونکہ اب الیکشن کا اعلان کردیا گیا ہے اس لئے عدم اعتماد کی طرف واپس جانے کی بجائے الیکشن پر فوکس کیا جائے۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن انتخابات کو شفاف اور غیر متنازع بنانے کی خواہاں ہے اور یہ سب کے مل بیٹھنے سے ہی ممکن ہے، اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے بعد انتخابی تحفظات دور کرنے کی خواہاں تھی اب اگر سپریم کورٹ سب کو عدالت میں ہی سن لے تو معاملہ حل ہو سکتا ہے ،کچھ لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ انتخابات سے قبل حکومت بن کر معیشت کو سہارا دیا جائے ،فوری انتخابی اخراجات سے بچا جائے، سیاسی حلقے پر امید ہیں کہ چونکہ سپریم کورٹ تمام فریقین کو سن ہی فیصلہ دیں گے اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ تم معاملات پر سیر حاصل فیصلہ سامنے آنے گا۔ 

الیکشن کمشنر پر بھی سابق وزیراعظم غیر جانبداری کے الزام لگا چکے ہیں اسپر بھی سپریم کورٹ کو کوئی حکم جاری کرنا ہو گا ، عمران خان کے قریبی ساتھی علیم خان نے الزام لگایا ہے کہ کہ عمران تبدیلی اور نئے پاکستان کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم کو چیلنج کیا کہ وہ ان کا سامنا کریں جھوٹا ہوا تو خود کو گولی مار لوں گا، 2010 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2018 کی انتخابی مہم میں شریک رہا۔ 

پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے میرا بھی نام لیا جا رہا تھا مگر الیکشن کے تیسرے روز ہی 28 جولائی کو نیب کا ایک نوٹس آگیا مسلسل چار نوٹس ملے عثمان بزدار کو نامزد کر دیا گیا تو سلسلہ رکا، عمران میں کوئی شرم ہے، کرپشن پر آنکھیں بند رکھیں، فرح خان پوسٹنگ ٹرانسفر کے پیسے لیتی رہی، پرویز الٰہی کو ووٹ نہیں دیں گے، ووٹنگ کے اگلے روز پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہو جائیں گے انہوں نے الزام لگایا کہ وفاقی وزیر مونس الہی اراکین اسمبلی میں کروڑوں روپے لگا رہے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید