صوبہ سندھ کے ضلع میرپورخاص کے قصبے ’’مِیر کی لانڈھی‘‘ کے قریب گاؤں عبدالجبار خاصخیلی میں ایک خدا ترس خاندان آباد ہے جو اپنی تین پشتوں سے انسانوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو دیسی طریقے سے جوڑتا چلا آرہا ہے۔
خاندان کے سربراہ عبدالصمد خاصخیلی اپنے آباؤ اجداد کے لوگوں کی خدمت کے پیشے کو سنبھالتے ہوئے آرہے ہیں، انہوں نے نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ حادثات، کسی اونچی جگہ سے گرنے یا دیگر واقعات کی وجہ سے انسانوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا بلا معاوضے دیسی طریقے سے علاج کرتے ہیں۔ عبدالصمد کے دادا اور والد بھی انسانیت کی خدمت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کام 3 نسلوں سے چلتا ہوا آرہا ہے، عبدالصمد کے دادا نے یہ کام شروع کیا جس کے بعد ان کے والد عبدالجبار نے انہیں جاری رکھا، والد سے کام سیکھنے کے بعد لوگوں کی خدمت کا یہ عظیم جذبہ جاری رکھتے ہوئے عبدالصمد بھی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا علاج کررہے ہیں، اس وقت ان کے ایک بھائی اور 2 بیٹے بھی انسانی خدمت کے اس جذبے میں پیش پیش ہیں۔
عبدالصمد نے بتایا کہ ان کے دادا عبدالصدیق سندھ کے روایتی کھیل ملاکھڑا(سندھی زبان میں ملھ کہا جاتا ہے)کے پہلوان تھے، ملاکھڑا کے دوران اگر کسی پہلوان کو چوٹ یا پھر انہیں پٹھوں کی تکلیف ہوتی تو دادا انکا علاج کیا کرتے تھے، شوق کے باعث دادا نے ہڈیوں کو جوڑنے سے متعلق کافی معلومات حاصل کیں، اسی طرح انہوں نے حادثات میں انسانوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے کا کام شروع کیا اور یہ سلسلہ آگے چلا جو تاحال جاری ہے۔
عبدالصمد نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں میڈیکل سائنس نے ترقی کی نئی منزلیں تو حاصل کرلی ہیں لیکن آج بھی لوگ روایتی اور دیسی طریقوں سے ہونے والے اس علاج کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، مہنگائی کے اس عالم میں آج بھی دیسی طریقے سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا علاج غریب افراد کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔
عبدالصمد خاصخیلی نے کہا کہ انسانی ہڈیوں کو جوڑنے کیلئے وہ روئی، کپڑے اور بانس کی پٹیوں کا استعمال کرتے ہیں، مریضوں کو درد کی شدت میں کمی کیلئے کچھ ادویات بھی لکھ کر دی جاتی ہیں تا کہ انہیں فوری آرام مل سکے۔ ان کے مطابق اللّٰہ کے حکم سے ان کے پاس آئے مریض ایک سے 6 ماہ کے اندر صحتیابی حاصل کرتے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ڈاکٹروں سے ناامید ہونے والے مریض بھی صحتیابی پاچکے ہیں، بدلے میں وہ لوگوں سے صرف دعائیں ہی لیتے ہیں۔
عبدالصمد کے پاس سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں کے علاوہ بلوچستان اور پنجاب سے بھی مریض آتے ہیں، دور دراز سے آنے والے اِن مریضوں کو مفت رہائش اور کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ عبدالصمد پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں اور اپنے گاؤں کے اسکول میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں۔ اسکول کے اوقات کے بعد وہ اپنا پورا وقت گاؤں میں بنائی گئی بیٹھک میں مریضوں کی دیکھ بحال میں وقف کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ مخیر حضرات اپنی حیثیت اور خوشی سے اگر کچھ رقم دیکر جاتے ہیں تو وہ ہڈیاں جوڑنے میں استعمال ہونے والی اشیاء پر خرچ کردی جاتی ہیں۔ عبدالصمد کے مطابق ان کے پاس روزانہ 150 سے 200 مریض آتے ہیں جن میں زیادہ تر ہاتھ، پاؤں، بازو کے ٹوٹ جانے یا پھر کمر اور پٹھوں کی شدید تکلیف میں مبتلا مریض ہوتے ہیں جن کا وہ تسلی بخش علاج کرتے ہیں جبکہ گھٹنوں کی شدید چوٹ یا پھر حادثات میں انتہائی نگہداشت مریضوں کو وہ اکثر ڈاکٹرز کے پاس لے جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
عبدالصمد خاصخیلی نے کہا کہ ملک میں جدید طبی سہولیات کے باوجود لوگ تکلیف میں مبتلا اپنے معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا دیسی طریقے سے علاج کروانے کیلئے ان کے پاس لاتے ہیں اور اِس کی خاص وجہ مہنگائی اور ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بڑوں کی طرف سے ملنے والے اس پیشے کی تکریم کے طور پر یہ کام کرتے ہیں، ورنہ ملک میں ہڈیوں کے امراض کے ایک سے بڑھ کر ایک علاج کے طریقے موجود ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عبدالصمد نے بتایا کہ بچوں کی نسبت بڑی عمر کے افراد کی ہڈیوں کو جوڑنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے، اسی طرح شوگر اور دیگر امراض کے شکار افراد کی ہڈیوں کا علاج بھی خاصا وقت لے لیتا ہے۔
جدید دور کے تقاضے پورے کرنے کیلئے عبدالصمد نے اپنے علاج خانے پر ایکس رے (X-Ray)کی سہولت بھی دی ہے جہاں سے مریض اپنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کے دوبارہ جڑنے سے متعلق تسلی بھی کروالیتے ہیں۔ اس حوالے سے انکا کہنا ہے کہ X-Ray کی سہولت فراہم کرنے کا مقصد صرف مریضوں کو تسلی دلانا ہوتا ہے کہ ان کی ہڈی جڑ چکی ہے۔
مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مریضوں اور ان کے تیمارداروں نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ وہ حادثے یا ہڈیوں سے متعلق کسی مسائل کی صورت میں عبدالصمد کے پاس ہی جاتے ہیں، یہاں سے افاقہ ہونے کی وجہ سے ہی وہ کسی اسپتال میں نہیں جاتے۔