• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہلا خضر 

فارس بھائی کی شعلہ بار نگاہوں اور بجیا کے چہرے پر نمودار ہوتے برہمگی کے آثار دیکھتے ہوئے میں جلدی سےمرحوم دادا جان کے یادگار تخت پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوگئی۔

فارس بھائی میری ہوشیاری بھانپ گئےتھے، وہ تلملاتے ہوئےاپنے کمرے میں چلے گئے۔ بجیا نے بھی برآمدے کے ایک دو چکر لگائے اور پھر وہ بھی مایوس ہو کراپنےکمرے میں سونے چلی گئیں۔ سہ پہر ہو چلی تھی ،برآمدے کی دیواروں پر لٹکی بینت کی چکوں پر امی جان نے معمول کے مطابق پانی کا چھڑکاؤ کر دیا تھا۔۔۔۔ گرم ہوا کے جھونکے چکوں کے گیلے لمس کو اپنے ہمراہ سمیٹے بر آمدے میں باد صبا جیسی شگفتگی بکھیر رہے تھے۔امی جان تو بہت دیرسے باورچی خانے میں مصروف تھیں۔ آج خلاف معمول بجیا ان کی مدد نہیں کر رہی تھیں ۔

ویسے غلطی تو سب سے ہی ہوسکتی ہے، مجھ معصوم کا جرم اتنا بڑا تو نہ تھا کہ سزا دی جاتی۔ بات بس اتنی سی تھی کہ رات کو امی جان اپنے موبائل پر سحری کے لیے الارم لگا کرجب سوگئیں تو میں نے ان کا موبائل چپکے سے اٹھا لیا اور اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھنے لگی، وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ الارم بجا بھی تو بے دھیانی سے اسے بند کر دیا۔ 

ہوش تو جب آیا جس وقت مؤذن صاحب نے سحری ختم ہونے میں دس منٹ باقی رہ جانے کا اعلان کیا اور امی جان کی آنکھ کھل گئ۔۔۔۔۔بس پھر نہ پوچھیں کیسے انہوں نے جلدی جلدی سب کو جگا یا اور دودھ کے گلاس اور کھجوروں سے سحری کروائی۔ ابا جان نے تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا اور نماز پڑھنے مسجد چلے گئے لیکن فارس بھائی اور بجیا امی کے ہاتھوں بنے مزیدار پراٹھوں اور آلو کی ترکاری نوش نہ کرنے کے صدمے سے سنبھل نہیں پارہے تھے،اسی لیےدونوں مجھ پر اپنا غصہ نکالنے کے لئے پر تول رہے تھے۔

شام ڈھل چکی تھی، میں افطاری بنانے میں امی جان کی مدد کر رہی تھی۔بجیا اب تک مجھ سے خفا تھیں۔ صحن میں بنی کیاریوں کے پودے سوکھے پڑے تھے۔ ابا جان کی نظر جب ان پر پڑی تو فکر مند ہو کر امی جان سے پوچھا،"آج فارس نے پودوں کو پانی کیوں نہیں دیا "

امی بولیں،" میں نے اسے کہا تھا پر وہ منہ لپیٹے سوتا رہا اور کہنے لگا کہ بغیر سحری کے روزہ رکھا ہے آج مجھ سے کوئی کام نہیں ہوگا"

ابا جان امی کی بات سن کر کچھ سوچنے لگے پھر خاموشی سے اٹھے اور پودوں کو خود ہی پانی دے دیا ۔

گھر کے دستور کے مطابق افطاری سے دس منٹ پہلے دعا کے لیے سب افراد دستر خوان پر جمع ہو جاتے تھے،ابا جان ہمیں کسی حدیث یا قرآنی آیت کے معنی اور مفہوم سمجھاتے اور امی جان دعا کرواتیں۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ' افطاری تیار کر کے دستر خوان سجا دیا گیا تھا۔ ' امی جان نے آج کچھ زیادہ ہی اہتمام کر رکھا تھا ۔ ابا جان نے بتایا کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے زندگی بھر کبھی دو وقت پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھایا۔

عام طور پر آپؐ کی خوراک میں صرف ستو '،چند کھجوریں اور دودھ شامل ہوتا تھا ۔کئ کئ دن تک تو چولہا بھی نہ جلتا تھا لیکن وہ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ سارا سال اللہ ہمیں کھانے پینے کی ہزاروں نعمتیں دیتا ہے، اسی کی خاطر ایک مہینہ ہمیں صبر و تحمل سے روزہ رکھنا چاہیے اور یاد رکھیں، اللہ پاک بہت مہربان اور کریم ہے وہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے،لہذا ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں"۔

فارس بھائی نے کہا،" ابا جان میں بہت شرمندہ ہوں ' میری کاہلی اور غفلت کی وجہ سے پودے بھی پیاسے رہےاور آپ نے دفتر سے آ کر میرے حصے کا اضافی کام کیا ۔مجھے معاف کر دیں۔ بجیا نے جھٹ مجھے گلے لگایا اور کہنے لگیں ،" میں بھی شرمسار ہوں آج سارا دن میں رمشا سے ناراض رہی اور بات تک نہ کی۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور بہت دیر سے دل میں مچلتی بات کہہ ڈالی ،" مجھے بھی معاف کر دیجئے، سب کو میری وجہ سے پریشانی اٹھانی پڑی ایک تو بغیر اجازت امی جان کا موبائل اٹھا لیا اور پھر رمضان المبارک کے قیمتی وقت کو ضائع کر دیا، میں وعدہ کرتی ہوں أئندہ اس بابرکت مہینے کا ایک بھی لمحہ فضول چیزوں میں ضائع نہیں کروں گی ۔‘‘

اتنے میں مسجد سے اذان کی آواز آئی اور ہم سب نے شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ دعا کر کے روزہ افطار کیا ۔