آج کے نوجوانوں کے لئے غلط اور صحیح کاانتخاب کوئی معنی نہیں رکھتا اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ کوئی بھی راستہ اپنالیتے ہیں، وجہ صرف یہ ہے کہ وہ پختہ سوچ کے حامل نہیں ہوتے اس لیے اپنی صلاحیتیں تعمیری کاموں کے بجائے تخریبی سرگرمیوں پر مرکوز کر دیتے ہیں۔
والدین اپنی اولاد کو پالنے میں اپنی زندگی لگا دیتے ہیں اور اگر خدانخواستہ بچہ کسی غلط راستے کا مسافر بن جائے تو اس کا درد صرف وہی محسوس کرسکتے ہیں جن کے دل پر گزرتی ہے۔کوئی بچہ نشے کا عادی بن جاتا ہے کوئی لوٹ مار اور آوارہ گردی میں پڑ جاتا ہے ، جس کا انجام سوائےتباہی کے کچھ نہیں۔ لیکن بات پھر وہی آجاتی ہے کہ ہماری بنیادی تربیت میں ضرور کہیں نہ کہیں کوئی کوتاہی ہو رہی ہے۔ جس کے اتنے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ آخر یہ نوجوان نسل اتنی نڈر کیوں ہے؟ان کی اس بے راہ روی کی آخر بنیاد کہاں سے پڑ رہی ہے؟ سوچنا یہ ہے کہ غلطی آخر ہوئی کہاں ہے؟
ذرا والدین ایک طائرانہ نگاہ اپنے بچپن پر ڈالیں کہ اس وقت حالات کیا تھے؟ وجہ صرف یہ تھی کہ والدین نے بچوں کے لیے کچھ قوائدو ضوابط مقرر کیے ہوئے تھے، ان ہی اصولوں کے تحت رہنا پڑتا تھا، ہر کام کا وقت مقرر تھا ۔سونے جاگنے، لکھنے پڑھنے، کھیلنے کودنےغرضیکہ ہر کام کے لئے ایک حد فاصل مقرر تھی ، بچےاس پر عمل کرنے پر مجبور تھے کیونکہ والدین بھی خود ان اصولوں پر کار بند تھے، لہذا حکم عدولی کا تو سوال ہی نہ تھا اس کے علاوہ معاشرتی طور طریقے رشتے داریاں ، بڑوں کا احترام مہمان نوازی، پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات یعنی ہر رشتے کا احترام تربیت کا حصہ تھا لیکن جب گھر اور معاشرے کا توازن بگڑا تو معاشرتی بنیادیں بھی ہل گئیں ۔ اب یہ سب کچھ ہمارے گھروں میں نہیں ہوتا ہے۔
آج کے نوجوانوں میں نہ تو والدین کا احترام ہے نہ ان کی حکم عدولی کا کوئی ڈر، خوف ہے, ماں باپ کو سکھ دینے کے بجائے اپنی حرکتوں سے دکھ اور تکلیف پہنچارہے ہیں دراصل ہم نے اپنے گردوپیش میں آزادی کے نام پر جو بےہنگم زندگی کی بنیاد ڈالی ہے،اس نے معاشرتی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
آج والدین بچے کی پیدائش پر بڑے خوش ہوتے ہیں ان کے عقیقے، سالگرہ، تعلیم پر اپنی بساط سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ان کی دھوم دھام سے شادیاں کرتے ہیں یہ والدین کی محبت کے اظہار کا طریقہ ہے والدین خود پر تنگی اٹھا کر اولاد کو تعلیم اور دنیا کی ہر آسائش مہیا کرنے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ تربیت پر دھیان ہی نہیں دیتے، جب کہ بچے کو ان چیزوں سے زیادہ والدین کی قربت چاہیےہوتی ہے۔
بچوں کو پیار سے گلے لگانا, ان کی ہر جنبش قدم پر نظر رکھنا, ان کے اچھے کاموں پر انہیں شاباش دینا, اور برے کاموں پر سرزنش کرنے سے اولاد اور والدین میں مفاہمت مستحکم ہوتی ہے اور بچے کو کسی قدم پر کوئی مشکل درپیش ہوگی تو وہ اپنے والدین سے ضرور مدد لے گا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے بچے دراصل سوشل میڈیا ٹی وی فلم موبائل جیسی بااثر چیزوں کی گود میں پل کر جوان ہو رہے ہیں حقیقتاً اگر دیکھا جائے تو اس کے نقصانات اس کی افادیت سے زیادہ ہیں۔
آج کے والدین نے بچوں کو سننا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کے پاس اولاد کو صحیح غلط بتانے ان کے مسائل سننے اور حل کرنے کا وقت ہی نہیں۔ آمدنی کے حصول کی کوشش میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے اسکول یا کالج میں دن کیسے گزارا، دوستوں سے کیا بات چیت کی؟
پڑھائی کیسی جارہی ہے۔ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ لہذا بچےماں باپ سے دور اور ٹی وی ، انٹرنیٹ اور موبائل فون کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ دن بھر سوشل نیٹ ورکنگ کرنے والی نسل جب بڑی ہوتی ہے، تو ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی روایات کے عین مطابق برتاؤ کریں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے، جس نسل کی صحیح طور پر تربیت ہی نہیں ہوئی وہ کیسے بڑوں کا احترام کرے گی؟
آج کے پرفتن دور میں اسلامی تعلیمات کی پیروی کر کے ہی ہم اپنے بچوں کو مضبوط بنیاد، بہترین تربیت، اچھا اخلاق اور اعلیٰ پائے کی دینی و دنیاوی تعلیم فراہم کرسکتے اور یہ ایک واحد راہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی نسلوں کو سنوار سکتے ہیں۔ نوجوان ہماری قوم کا سرمایہ ہیں، ان پر خصوصی توجہ دینا انتہائی ضروری ہے، ہماری تھوڑی سی توجہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دوام بخش سکتی ہے۔ انہیں مثبت سرگرمیوں سے روشناس کرانے اور ہر طرح کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کی ممکنہ کوشش کرنی چاہیے، اپنے کل کو محفوظ کرنا بہت ضروری ہے۔ نتائج انشاءاللہ پر امید ہوں گے۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔ ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،
میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی