آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی جانب سے سندھ میں نشہ آور گٹکا، مین پوری اور ماوا کی فروخت کو روکنے کے لیے کوشش جاری ہے، لیکن بدقسمتی سے جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے تو پھر کھیت کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے کچھ ایسا ہی ضلع شہید بینظیر آباد میں بھی دیکھنے میں آیا ہے، جہاں پر پولیس اہل کار ان منشیات فروشوں کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں، اس سلسلے میں حالیہ دِنوں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کی جانب سے دو ایسے اقدامات کیے گئے، جن کے ذریعہ سے خود پولیس میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔
یُوں تو منشیات کی فروخت کے سلسلے میں عوام الناس کی رائے ہے کہ مبینہ طور پر یہ کام پولیس اہل کاروں کی سرپرستی میں جاری ہے، لیکن اس سلسلے میں ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس برائی کے خاتمے کا عہد کیا ہوا ہے اور ایسے پولیس اہل کار جو کہ منشیات فروشوں کے سہولت کار تھے، ان کو ضلع بدر کیا گیا تھا، لیکن پھر یہ سلسلہ نہ رُک سکا اور اس کے بعد گزشتہ روز ایس ایس پی کی جانب سے 14 ایسے پولیس اہل کاروں کو کوارٹر گارڈ کیا گیا، جو کہ منشیات فروشوں کے سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔
اس سلسلے میں سی آئی اے انچارج مبین احمد پرہیار کا کہنا تھا کہ ضلع کی سطح پرایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا کام یہ تھا کہ پورے ضلع میں منشیات فروشوں کے سہولت کار پولیس اہل کاروں کا پتہ لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ 14 پولیس اہل کاروں کو جن میں ہیڈ کانسٹیبل شیر محمد، نثار احمد، غلام مصطفی ،خالد پرویز،محبت علی،حبیب اور کانسٹیبل غلام مصطفی بھنگوار، نور احمد، اختر علی، غلام رسول، جانب علی، فہیم احمد، مجاہد حسین اور نعمان علی شامل تھے۔ انہیں منشیات فروشوں کے سہولت کار کے طور پر ثبوتوں کے ساتھ پکڑ کر کوارٹر گارڈ کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں انچارج سی آئی اے مبین احمد پرھیار کا یہ کہنا تھا کہ محکمہ پولیس میں موجود ان عناصر کو جو کہ منشیات فروشوں کے سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کو قانون کے شکنجے میں کس کر محکمہ کو ان کالی بھیڑوں سے پاک کیا جائے۔ ادھر اس کارروائی کے سلسلے میں ایس ایس پی کا یہ کہنا تھا کہ سندھ میں ضلع شہید بینظیر آباد وہ ضلع ہے، جہاں پر اس زہر کے خلاف جو کہ نوجوان نسل کو کینسر جیسے موزی مرض میں مبتلا کر رہا ہے، بچانے کے لیے پوری پولیس انتظامیہ بھرپور جدوجہد کر رہی ہے ۔ ضلع شہید بینظیر آباد میں تو یہ کوشش پوری طرح کام یاب ہوئی ہے۔
اس سلسلے میں بھرپور کارروائی کی۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ بدقسمتی سے اس وقت منشیات فروشی کے دھندے میں جہاں مرد اسمگلر بھی بھرپور طریقے سے یہ مکروہ کاروبار کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان اسمگلروں نے خواتین کو بھی اپنے گروہ میں شامل کیا ہوا ہے ۔ گزشتہ دنوں پولیس نے خفیہ اطلاع پر دو ایسی گینگ کو گرفتار کیا، جن میں صرف خواتین شامل تھیں، جو کہ بلوچستان کے راستے سندھ میں چرس ہیروئن اور افیم کی اسمگلنگ کا کاروبار کر رہی تھی اور جب کہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ایک خاتون نے اپنے جسم پر چوبیس کلو منشیات جو کہ اچھی قسم کی چرس کی صورت میں تھی اور اس کی مالیت لاکھوں روپیہ بتائی جاتی ہے، یہاں پر اسمگل کرنے کی کوشش کی ، لیکن پولیس نے اس کارروائی کو ناکام بنا کر اس کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس میں بھی اس کا شعور اور آگاہی پیدا کی جائے۔
دوسری جانب گزشتہ دِنوں نواب شاہ میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک وحشی درندہ ایک نوجوان کے ساتھ زیادتی کرتا ہوا دکھایا گیا تھا، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے ایکشن لیا گیا اور اس بارے میں بالوجا قبا تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی اور ملزم کی تلاش شروع کی گئی۔ اس بارے میں سی آئی اے کے انچارج مبین احمد کا کہنا تھا کہ یہ شرم ناک ویڈیو پولیس کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتی تھی، لہذا پورے ضلع کی پولیس کو اس بارے میں ایس ایس پی کی جانب سے یہ احکامات دیئے گئے کہ فوری طور پر اس ملزم کا پتہ لگایا جائے۔
24 گھنٹے میں پولیس نے اس کا سراغ لگایا اور بالو جا قبا تھانے کی حدود میں واقع گوٹھ بنگل خان زرداری میں ملزم صالح ذرداری کو گرفتار کیا گیا۔ 37 سالہ صالح زرداری نے پولیس کو بتایا کہ اس نے نواب شاہ کے ریلوے اوور ہیڈ برج کے نیچے ایک نوجوان کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر اور اس کو بہلا پھسلا کر اپنے گاؤں لے گیا اور اس کے بعد اس کی خوب خا طر مدارت کی اور پھر اس نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ صالح زرداری کا کہنا تھا کہ اس نے اس کام کی ویڈیو بھی بنائی اور اس کو وائرل کی، جس کے بعد پولیس نے اس کو گرفتار کیا۔
اس بارے میں ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ پولیس کے ایس ایچ او محرم خان خاصخیلی اور اس کے علاوہ ہیڈ محرر دلیپ کمار سمیت اس کارروائی میں حصہ لینے والے تمام پولیس اہل کاروں کو سرٹیفکیٹ دیے جائیں گے۔